مریم نواز کا امتحان
ابھی دو چار دن پہلے کی بات ہے کہ کامران خان نے ایک سوال پوچھا۔ میں نے اس پر پہلے کوئی خاص گہرائی میں غور نہ کیا تھا، تاہم بڑی روانی سے دوچار باتیں کہہ دیں۔ اب ان پر غور کرتا ہوں تو دل چاہتا ہے کہ اس بات کا گہرائی میں تجزیہ ہونا چاہیے۔ وہ سوال یہ تھا کہ مریم نواز کی مقبولیت کا سبب کیا ہے۔ ان کی نظر میں گویا اس وقت مسلم لیگ ہی کی مسلمہ لیڈر نہیں بن چکی ہیں بلکہ پاکستان کی سب سے مقبول اور موثر قائد ہیں۔
ایک سبب تو یقینا یہ ہے کہ وہ نہ صرف نوازشریف کے بیانیہ کی ترجمان ہیں بلکہ بلاشبہ ان کی وارث بھی ہیں۔ وارث کا لفظ بات کے اس زاویے کو بیان نہیں کرتا جو میرا مقصود ہے۔ آپ اسے Legacy کہہ لیجئے۔ یہ وراثت ا الل ٹپ منتقل نہیں ہوتی۔ خود بھٹو خاندان میں کئی امیدوار تھے۔ آغاز میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو اکٹھی چلی تھیں، وہ وقت جلد آ گیا جب پورے احترام کے باوجود لوگوں نے بے نظیر کو بھٹو کا وارث مان لیا۔ روایتی انداز میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مرتضیٰ بھٹو کو بیٹا ہونے کے ناطے اصل وارث کہا گیا، مگر لوگوں کے پیمانے اپنے ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی مرتضیٰ کے خاندان میں بہت ذہین لوگ بھی پائے جاتے ہیں خاص کر فاطمہ بھٹو مگر لوگوں نے بلکہ یوں کہہ لیجئے تاریخ نے بے نظیر ہی کو اس کا وارث قرار دیا۔ وہ بھٹو ہی نہیں بھٹو ازم کی بھی سیاسی وارث ٹھہریں۔ جب لوگ کسی کو اپنے قائد کے امیج کے ساتھ منسوب کرنے لگتے ہیں اس میں یقینا بیانئے کا بھی دخل ہوتا ہوگا مگر کوئی چیز اس سے ہٹ کر بھی ہوتی ہے جسے میں کوئی نام نہیں دے پارہا۔ میں تقاہل نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے یاد ہے کہ جب نوازشریف نے مریم نواز کو ایک نوجوانوں کے پروگرام کا انچارج بنایا اور اس کی رونمائی کی تو میں نے لکھا تھا کہ اگر شریف خاندان سے کسی کو مستقبل کی قیادت ملنا ہے تو بہتر ہوگا وہ مریم نواز ہی کو مل جائے۔ جانے اس وقت میرے ذہن میں کیا بات تھی۔ یقینا میں نے اس ابھرتی قائد کا تقابل اس خانوادے کی دوسری شخصیات سے کیاہو گا۔ یہ کوئی نمبر دینے کی بات نہیں کہ کوئی کتنا اہم ہے۔ کون کم اہم ہے۔ پھر یہ بھی نہیں ہوتا کہ آپ میں کس کا مستقبل نظر آتا ہو اور لوگ اسے ممکنہ وارث سمجھنے لگیں مگر وہ بس اپنے اس امیج کو لے کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ اسے محنت کرنا پڑتی ہے اور اپنے آپ کو منوانا پڑتا ہے۔ پتہ پانی کرنا پڑتا ہے۔ مریم نے یقینا یہ سب کام کیا۔
ظاہر ہے اس ٹی وی شو میں تو میں نے صرف اشارے کئے تھے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مریم مسلم لیگ میں واحد ایسی لیڈر ہے جسے دیکھنے اور سننے کے لیے مجمع کھینچا چلا آتا ہے۔ اس وقت ملکی سطح پر بھی دیکھا جائے تو اپنی ذات میں وہ واحد Crowd Puller ہیں۔ دوسری بار جیل جانے سے پہلے جب وہ مہم پر نکلی تھیں تو رات گئے تک لوگ اسے سننے کے منتظر رہتے تھے۔ اس نے اتنے بڑے بڑے ہجوم کو متوجہ کیا کہ ریاست کو سوچنا پڑا اور اسے اس وقت ہتھکڑی لگائی جب اپنے قیدی باپ سے ملنے جیل گئی تھیں۔ اس سارے عمل نے اسے لیڈر بنا دیا اور سچ پوچھئے کہ موجودہ سیاسی تحریک میں لاہور پہنچتے پہنچتے وہ ملک کی واحد توانا آواز بن گئی ہے جس نے بلاشبہ سختیاں کاٹی ہیں اور مصیبتیں جھیلی ہیں۔ میں نے دو ایک دن پہلے ہی کہا تھا کہ لاہور کا جلسہ ان کی قیادت کا سب سے بڑا امیج ہے۔ اس لیے بھی کہ اس سے پہلے انتظامی طور پر خاص کر پنجاب اور لاہور میں ساری ذمہ داریاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز سنبھالتے تھے۔ یہ درست ہے مریم نواز نے اپنی والدہ کے حلقہ سے ضمنی انتخاب کی ساری مہم کی رہنمائی کی تھی مگر یہ بڑا امتحان ہے۔ یہ اور لوگوں کا بھی امتحان ہے مثلاً رانا ثناء اللہ کو بھی پہلی بار کھل کر انتظامی جوہر دکھانے کا موقع مل رہا ہے وگرنہ یہ سارا کریڈٹ حمزہ کے سر جاتا۔ مریم نے اس میں یہ کمال بھی کیا کہ پہلے عدالت جا کر پھر گھر میں شہباز اور حمزہ کو اس طرح ملیں کہ سارا پروپیگنڈہ غارت ہو گیا کہ فیملی میں کوئی (ذاتی قسم کے) اختلافات ہیں۔ انہوں نے اپنے چچا کی تعریف کی اور حمزہ کے حق میں نعرے لگائے۔
میرے خیال میں آج کا جلسہ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک اچھا امتحان ثابت ہوگا اور لگتا ہے انہوں نے یہ امتحان پاس کرلیا ہے۔ وہ بلاشبہ ریاست کے لیے سوالیہ نشان بن گئی ہیں۔ اسے ڈر کر آپ سپرد زنداں بھی کردیں تو بھی اس کی قیادت مضبوط ہی ہوگی ختم نہیں ہوگی۔ ہاں اس کیلئے ابھی کئی امتحان باقی ہیں۔
مگر پہلے ایک آدھ بات جس کا میں نے اس دن تذکرہ کیا تھا۔ ہمارے ہاں لوگ اسے طنزاً بیان کرتے ہیں مگر ادب کے شوق رکھنے والے اور تہذیبوں کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر میں کہہ سکتا ہوں کہ قومیں آج بھی شہزادے شہزادیوں کے خواب دیکھا کرتی ہیں۔ انگریز ایک تاجر قوم ہے۔ اس کے بیسویں صدی میں ڈیانا کی شکل میں اس خواب کو خوب بیچا تھا۔ مجھے یاد ہے میں نے اپنے اخبار میں اس پر ٹائٹل سٹوری کی تھی۔ بے نظیر کو بھی اس کے مداح بی بی رانی کہا کرتے تھے۔ یہ رانی کا لفظ بہت پیار سے برتا جاتا تھا اسی طرح جب فردوس عاشق اعوان، مریم نواز کو راجکماری کہتی ہیں تو نہیں جانتیں کہ وہ مریم نواز کے اس امیج کو تقویت دے رہی ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک کرزما بھی ہے جنہیں آج ہم عام طور پر کرشماتی شخصیت کہتے ہیں تاہم اس سے بڑھ کر وہ ا س امیج پر پورا اترتی ہیں جس کے خواب بیسویں صدی میں بھی قومیں دیکھا کرتی ہیں۔ اصل امتحان مگر سیاست میں یہ ہے کہ شہزادی عوام سے خود کو کس حد تک جوڑ پاتی ہے۔ Relate کرتی ہے، جس طرح وہ گھر گھر اور شہر شہر جا رہی ہیں وہ وقت کے اٹھتے طوفانوں میں ہچکولے کھا رہی ہیں، اس نے انہیں عوام کے قریب کردیا ہے جہاں اتنی باتیں اکٹھی ہو جائیں وہاں منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔
اس سب کے باوجود ابھی کئی امتحانات اور آزمائشیں منتظر ہیں۔ چلئے انتظامی صلاحیتیں تو آج ظاہر ہو جائیں گی مگر پارٹی کوقائم رکھنا Intact رکھنا یہ سب سے بڑا امتحان ہے۔ پارٹی میں بڑے بڑے نام ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جو اہمیت چاہتے ہیں۔ عام طور پر ایسے بہت سے لوگ "انکل" کے نام پر الگ کر دیئے جاتے ہیں۔ ایسا ہوا تو یہ ایک نئی مسلم لیگ بنانے کے مترادف ہوگا۔ ان سب کو ساتھ لے کر چلنا بہت ضروری ہے۔ اگر نئی ٹیم بھی بنائی جائے تو اس میں بہت سے امتحان ہیں۔ ایک لیڈر کی اصل طاقت وہ ٹیم ہوا کرتی ہے جو وہ تشکیل دیتا ہے۔ یہ بہت بڑا امتحان ہے۔ ابھی تو انہیں نوازشریف کی پشت پناہی حاصل ہے مگر ایک وقت آئے گا جب یہ چیلنج درپیش ہوں گے۔ اس میں بہت اونچ نیچ اور جوڑ توڑ شامل ہوا کرتے ہیں۔ یہ سب آزمائشیں ان آزمائشوں سے الگ ہیں جو حالات ان کے لیے پیدا کرسکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کا ہدف کیا ہوتا ہے۔ اس وقت میاں نوازشریف کا جو بیانیہ ہے اس کے مریم نواز کو بھی ہماری مقتدرہ کے لیے قابل قبول نہیں چھوڑا۔ ویسے یہ ہوتا آیا ہے کہ سکیورٹی رسک قرار دینے والے لوگوں کو حالات بدلنے کے بعد اقتدار بھی مل جاتا ہے۔ فی الحال اس بیانئے کا ہدف کیا ہے، اس کا پتا نہیں چلتا۔ آپ کی منزل کیا ہے اور یہ کیسے حاصل ہوگی، اس ملک کے زمینی حقائق کے پیش نظر یہ بہت اہم بات ہے جس کا جواب اس وقت کسی کے قاس نہیں ہے۔ کوئی اندرون خانہ کہانی ہو تو علم نہیں۔ بظاہر یہ خاصا مشکل کام دکھائی دیتا ہے۔
اس کے باوجود بھی سوچنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے مریم کو باہر جانے کی اجازت نہ دے کر کہیں غلطی تو نہیں کی۔ آخر میں چلتے چلتے ایک بات اور کہنا چلوں۔ تحریک چلانے و الے بھول جاتے ہیں کہ اگر اقتدار ان کے پاس آ گیا تو وہ کیا کریں گے۔ عمران خان نے بھی غلطی کی۔ وہ دو سال کے بعد یہ سوچنے بیٹھے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے تھا۔ اس میں بہت دیر ہو چکی ہے۔ ایک اچھے قائد کو ہمیشہ مستقبل کی منصوبہ سازی کرتے رہنا چاہیے۔ کنٹینر پر چڑھا ہوا شخص تو یہ نہیں سوچتا، اس لیے ناکام رہنا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ آپ کے اقتدار میں آنے کے چانس کتنے ہیں، آپ کو مستقبل کی منصوبہ بندی پر اپنی پارٹی کو جگائے رکھنا چاہیے۔ حکومتیں صرف تقریروں سے نہیں چلتیں، ہم پہلے ہی کنٹینر والوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔