کوئی چارہ کار ہی نہیں
آج رسوائی کا ایک اور سامان ہو گیا۔ ہماری قومی پرچم والی پرواز فضائی کمپنی کا طیارہ مہاتیر محمد کے ملائشیا میں ضبط کر لیا گیا۔ ہم ایک اور بین الاقوامی مقدمہ ہار گئے۔ اس سے ہماری جو سبکی ہوئی اس نے کہیں کا نہیں چھوڑا، ہم پر پہلے ہی یورپی ممالک کے ہوائی اڈے علاقہ ممنوعہ ہو چکے تھے۔
ہم کتنے بین الاقوامی مقدمے ہاریں گے؟ ابھی براڈ شیٹ کی گونج ہوائوں میں تھی کہ یہ دوسری خبر آ گئی۔ پی آئی اے کی تباہی کا سہرا تو اس حکومت کے سر جاتا ہے۔ براڈ شیٹ کا سارا الزام میں اس حکومت کو نہیں دیتا، مشرف سے لے کر عمران خاں تک یہ اس سوچ کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کے سیاستدانوں کو کرپٹ ثابت کیا جائے۔ خاص کر نواز شریف کو، ہر صورت نیچا دکھایا جائے، ہم نے خاموشی سے ہرجانہ ادا کر دیا اور چپ رہے مگر۔ جوچپ رہے گی زبان خنجر، لہو پکارے گا آستین کا۔ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ کمانڈو مشرف تو جلد اس کارخیر سے تائب ہو گیا تھا مگر ہمارا موجودہ حکمران ٹولہ اب تک اس راہ پر لگا ہوا ہے۔ کیسی کیسی ملاقاتوں کی تفصیل آ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی خارجہ تعلقات کی ایک اور جیت بھی سامنے آئی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے بغیر تحقیق کئے یہ ارشاد فرما دیا کہ سعودی عرب سے ایک پاکستانی نے ایک ارب ڈالر برطانیہ منتقل کئے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے، آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ شاید آپ یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ یہ نواز شریف کے ہیں کیونکہ سعودیوں سے انہی کے قریبی تعلقات تھے، ہو سکتا ہے پرویز مشرف کے ہوں، جس نے ببانگ دہل کہا تھا کہ میرے اکائونٹ میں راتوں رات سعودی شاہی فرم نروائوں نے ایک ارب ڈال دیے تھے، یہ نہیں بتایا تھا کہ کن خدمات کے صلے میں۔
یہ ہم سعودی عرب کوبار بار ایسے معاملات میں ملوث کر رہے ہیں آخر کیوں؟ ہم نے تو ان کے ولی عہد کی گاڑی تک ڈرائیو کی تھی۔ مگر انہوں نے ہمیں سفر کے لئے دیا ہوا طیارہ امریکہ میں اچانک واپس لے لیا تھا۔ ہم نے ان سے یہ سہولت لی ہی کیوں تھی، اس سے ہمارا کیا تاثر بنا ہو گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی عرب نے وہ قرض مانگ لیا ہے جو اس نے ہمیں دے رکھا تھا۔ ہم نے اس کا اعلان بھی کر دیا ہے، اس بات کا بھی جواب نہیں۔ ہم اس سے پہلے دھمکی دے چکے تھے کہ اگر او آئی سی نے کشمیر پر اجلاس نہ بلایا تو ہم ترکی اور ملائشیا سے مل کر نیا اسلامی بلاک بنا لیں گے۔ سبحان اللہ۔ سبحان اللہ ہم پر کون اعتبار کرے گا۔ جب کہ ہم نے ملائشیا میں ہونے والی کانفرنس میں جانے سے اس لئے انکار کیا تھا کہ ہمارے برادر اسلامی ملک ناراض ہو رہے ہیں، کوئی کل سیدھی بھی ہے ہماری!ہم سو پیاز بھی کھائیں گے سو جاتے بھی۔
قطر سے ہمارا جھگڑا کہ اس نے نواز شریف کی مدد کرنے کی کوشش کی۔ ہم آج تک اس سے گیس خریدنے کو مہنگا سودا کہہ رہے ہیں اور ناراض ہیں کہ قطری شہزادے نے نواز شریف کے دفاع میں خط کیوں لکھا تھا، قطر اور سعودی عرب کا جھگڑا تھا، اب ان میں صلح ہو گئی ہے، نواز شریف ہی کے چکر میں ہم ترکی کو بھی ناراض کرتے آئے ہیں۔ اگرچہ ترکی اب تک بڑے دل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
یادش بخیر ہم ترکی سے بھی ایک مقدمہ ہار گئے ہیں۔ رینٹل پاور کا۔ ہم نے سمندر میں کھڑے ترکی کے ایک بجلی پیدا کرنے والے جہاز کی چھٹی کرا دی تھی۔ یہ بھی قصور اس حکومت کا نہ تھا مگر شاید ہم نے یہ کام بھی سلیقے سے نہیں کیا۔ طیب اردوان نے ذاتی دلچسپی سے اس معاملے کو رفع دفع کرایا۔
ہم نے بین الاقوامی سطح پر کوئی مقدمہ جیتا بھی ہے؟ میں یہ بات پھر دہرا رہا ہوں۔ کلبھوشن ہی کو لیجیے، ہم یہ تو شور مچاتے رہے کہ نواز شریف اس کا نام نہیں لیتے۔ مگر یہ خیال نہ کیا کہ بھارت عالمی عدالت انصاف میں جا پہنچا ہے، اب یہ ہڈی نہ نگلی جارہی نہ اگلی۔ عام طور پر جب معاملہ عالمی اداروں میں پہنچتا تھا تو ہماری شہرت تھی کہ ہم بھارت کے مقابلے میں میدان مار لیتے ہیں اب کی بار مگر ایسا بھی نہ ہوا۔
جانے اور کتنے معاملات لٹکے ہوئے ہیں۔ ریکوڈک کا معاملہ ہے، یہ مقدمہ بھی ہم پہلے مرحلے میں ہار چکے ہیں، ہمیں کچھ پتا نہیں دنیا کدھر جا رہی ہے، ہم بھڑکیں مارتے رہے کہ ہم نواز شریف کو واپس لے کر آئیں گے۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ عالمی قانون و حالات سے ہماری بے خبری کے سوا کچھ نہ تھا اور تو اور گزشتہ دنوں خبریں آئیں کہ نواز شریف سعودی عرب جا رہے ہیں اور ایسا وہ سعودی فرمانروا کی دعوت پر کر رہے ہیں۔ کسی نے کہا وہ وہاں مستقل سکونت کے لئے جا رہے ہیں، کسی نے کہا نہیں، ایسا بھی نہیں، وہ تو شاہی خاندان نے انہیں دعوت دی۔ ساتھ ہی یہ خبر اڑائی گئی کہ مریم نواز کو بھی سعودیہ کے دورے کی دعوت دی گئی ہے۔ طرح طرح کی باتیں جن سے پتا چلتا تھا کہ ہم مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام کی سیاست سے باہر ہو رہے ہیں۔ ہمارا بھی جواب نہیں، جن ممالک کے نواز شریف سے قریبی تعلقات سمجھے جاتے تھے، ان سے ہم جھگڑ رہے تھے۔ ترکی، سعودی عرب، قطر حتیٰ کہ چین ہم نے سی پیک کو مذاق بنا کر رکھ دیا۔ اس میں ہمارے پیش نظر صرف نواز شریف نہیں تھے۔ مغرب ہمیں دوبارہ اپنی آغوش میں لینا چاہتا تھا۔ آئی ایم ایف بازو کھولے کھڑا تھا۔ یہ پتا نہیں کہ استقبال کے لئے یا اپنے شکنجے میں جکڑنے کے لئے۔ ہم بے دھڑک ادھر چل پڑے، ملک کی شرح نمو جو 5.8فیصد تھی اور جسے اگلے سال 6.2فیصدہونا تھا اور اس سال 7فیصد اسے ہم نے منفی بنا ڈالا۔ کورونا سے پہلے ہی ہم اپنی ترقی کی رفتار کو روک چکے تھے۔ 52کے بعد پہلی بار ہماری شرح نمو منفی ہوئی ہے۔ تب ہم مانگ تانگ کر ملک چلا رہے تھے۔ کراچی میں ریت کے ٹیلوں پر کیمپ لگا کر کامن پن کی جگہ ببول کے کانٹوں سے گزارا کر رہے تھے۔ انڈیا نے ہمارا پانی بند کر دیا تھا، ہمارے اثاثے غصب کر لئے تھے۔ پھر مگر ہم پر کبھی ایسا برا وقت نہیں آیا، جب پہلے ہی سال شرح نمو تیزی سے گری اور اس حکومت کے کسی سیاسی بقراط نے کہا کہ ہم 23میں 7فیصد شرح نمو حاصل کر لیں گے، تو میں نے اس وقت لکھا تھا جیسے ہم نے 20میں حاصل کرنا تھا، اسے ہمارے منصوبہ بند اب 23میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ ہم تین سال پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ اس کے اثرات کم از کم پانچ سال تک جائیں گے۔ اگر وہ سفر جاری رہتا تو ہم اس وقت دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کے دروازے پر دستک دینے کی پوزیشن میں ہوتے، اب مگر حالات ایسے دگرگوں ہیں کہ مجھے نہیں لگتا ہماری نسل یہ سب دیکھ سکے گی، ہر روز اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔
ہمارے دوست ممتاز اقبال ملک نے آج ہی ایک واقعہ سنایا۔ وہ گائوں گئے ہوئے تھے ایک کریانے کی دکان پر اپنے کسی پرانے دوست کو ملنے چلے گئے اس نے چینی کی بوری کھولی، چھوٹے شہروں کی چھوٹی دکانوں پر ایک بوری بھی بہت ہوتی ہے، انہوں نے دیکھا وہ ہر روز اس بوری کی چینی کی قیمت دو یا تین روپے بڑھا دیتا۔ اس وقت سرخ مرچ سے لے کر کھانے کے تیل تک جس طرح قیمتیں بڑھنے کی خبریں ٹی وی پر آتی ہیں، اس سے پتا چلتا ہے کہ کوئی چیز بھی کنٹرول میں نہیں ہے، اب اس بد انتظامی کے اثرات عالمی سطح پر ظاہر ہونے لگ پڑے ہیں۔ ہم اب وہ پاکستان نہیں رہے جو عالم اسلامی کا سب سے بڑا ملک تھا۔ جو واحد اسلامی ایٹمی طاقت تھا، جس کے ماہرین کی دنیا بھر میں دھوم تھی، ان سے تو اب کرکٹ تک نہیں چل پا رہی۔ یہ ملک کیا چلے گا۔ ہم سب کچھ کھوئے جا رہے ہیں، ساکھ بھی اور وسائل بھی، آج جب یہ سطریں آپ کے سامنے ہوں گی ہم پٹرول کی قیمت بڑھا چکے ہوں گے، اس ملک کے عوام کو جو کچھ غلامی میں بھی میسر تھا، اسے چھیننے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر ایک پنشن تھی جس کی وجہ سے عام آدمی سرکاری نوکری بہت شوق سے کرتا تھا، ایک بڑی آبادی کے لئے سماجی انصاف کا ایک ذریعہ تھا۔ ہم نے اسے بھی ختم کرنے کے لئے کمیٹیاں بنا دی ہیں۔ ریلوے، ڈاکخانہ، آبپاشی کا نظام یہ سب ہمیں انگریز سے ملا۔ ہم نے اس کا بھی ستیاناس کر دیا۔ بات پی آئی اے کے طیارے کی ضبطی سے چلی تھی کہاں آ پہنچی۔ میں کوئی انقلاب کا ایسا شیدائی نہیں رہا۔ ڈر لگتا تھا کہ خون خرابہ ہو گا۔ اب لگتا ہے کوئی چارہ کار بھی نہیں۔ کوئی چارہ کار نہیں۔ ہمیں ایک انقلابی مسیحا کی تلاش ہے کیا؟