کشمیر اور بے اعتباری کا موسم
کوئی ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم کشمیر کے تنازعے پر آخری حد تک جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ کوئی ہے، میں پھر پوچھتا ہوں۔ کوئی ہے! اللہ کا خوف کرو، یوں لگتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے سے فرار چاہتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں تو کشمیر کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تو ہم خود بتاتے ہیں ہمیشہ ہوتی رہتی ہیں۔ کسی نے تعداد بھی بتائی ہے۔ 2018ء میں کتنی ہوئی تھیں اور اب کتنی ہوئی ہیں۔ کیا نتیجہ نکالتے ہیں ہم اس سے کل بھی ہم نے بتایا تھا ایک کوّا مارا گیا۔ آج بھی یہی بتا رہے ہیں یہ تو سائیڈ ایکٹوٹی ہے۔ ایسی ایکٹوٹی جو اصل خبر کی جھلکی بھی نہ بن پائے گی۔ برا نہ منائیے گا۔ اب تو ہم نے سری نگر اور مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے دن بھی گننا چھوڑ دیتے ہیں روز کہیں سے اللہ ہماری مدد کرتا ہے۔ ہم ڈھونڈ کر کوئی خبر لے آتے ہیں، آج فلاں ملک کے فلاں شخص نے ہمارے موقف کی حمایت کر دی۔ آج فلاں ادارہ بھی کشمیر کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ ہم نے جس طمطراق سے بھارت سے سفارتی تعلقات کا درجہ گھٹایا تھا، اس کے بعد کیا ہوا۔ آہستہ آہستہ ہم پابندیاں اٹھا رہے ہیں۔ کبھی ادویات پر کبھی کسی اور چیز پر۔ پتا ہی نہیں چل رہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی تلخی ہے۔ ہم تو دنیا کو یاد کرا رہے ہیں کہ ہم تو اچھے بچے ہیں، بھارت خرابی کر رہا ہے۔ بھارت ایسا نہ کرے تو خطے میں امن کو کوئی خطرہ نہیں۔ ہماری طرف سے دل صاف رکھیں۔ کیا ہمارا بیانیہ یہ ہونا چاہیے۔ اگر بھارت کے سپریم کورٹ میں مقدمہ کی تاریخ پڑتی ہے تو بغلیں بجانے لگے ہیں۔ وہ دیکھو بھارت کا سپریم کورٹ حرکت میں آ گیا۔ ایسا لگتا ہے ساری امیدیں بھارت کے سپریم کورٹ سے وابستہ کر دی گئی ہوں۔ پھر کہتے ہیں، نہیں بھئی، ایسا بھی نہ سمجھو بھارت کے سپریم کورٹ نے بھی بھارتی عوام کی توقعات کے خلاف فیصلہ دیا ہے؟ مرے خیال میں یہ دنیا کی پہلی عدالت ہوئی جس نے ایک شخص کو یہ کہہ کر پھانسی کی سزا سنا دی کہ بنتی تو نہیں ہے۔ پر کیا کریں عوام کا رجحان یہی ہے۔ یہ شخص کشمیری ہی تھا۔
ہم بڑی خوبصورتی سے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ پروازیں بھی آ جا رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی فضائی حدود سے گزر رہی ہیں۔ ایک کشمیر کمیٹی ہم نے بنائی تھی۔ کچھ اس کی خیر خبر ہے؟ ہر طرف ایک سناٹا ہے۔ مری نظر میں یہ سناٹا ہی اصل تشویش کی بات ہے۔ ہمارا تخلیقی ذہن تو پہلے ہی خاموش تھا کسی اہل دل نے کچھ لکھا، کچھ گایا۔ کچھ سنایا؟ اس خاموشی پر لگتا ہے اب مزید مصلحت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ عام آدمی کا یوں لگتا ہے ایسے ملک کے کسی ادارے پر اعتبار نہیں ہے۔ میں نے حکومت کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ ایک تو یہ لفظ سیاسی ہو جاتا ہے اورچیخم دھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ اس کی جگہ ادارے کا لفظ استعمال کیا ہے اس میں خرابی یہ ہے کہ آوازیں اٹھنے لگتی ہیں کہ وطن کے ساتھ غداری ہو رہی ہے، کیونکہ آئین پاکستان بعض اداروں کے بارے میں یہ بات کرنے سے منع کرتا ہے اور درست کرتا ہے۔ خاص طور پر فوج اور عدلیہ کو دستوری تحفظ حاصل ہے۔ غصہ نکالنے والے اس پر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ مرا مسئلہ مگر یہ ہے کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جب تک ملک کے یہ ادارے باقی ہیں پاکستان محفوظ ہے۔ عدلیہ کے حوالے سے تو چرچل کا یہ فقرہ اکثر زیر بحث آتا ہے کہ اس نے دوسر ی جنگ عظیم کے دوران پوچھا تھا کہ آیا مرے ملک کی عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ اثبات میں جواب سن کر کہا تو پھر انگلستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ کیا ہم اس وقت یہ بات اپنے نظام عدل کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ ملک میں طرح طرح کی عدالتیں ہیں۔ احتساب کی عدالتیں منشیات کی عدالتیں مجھے تو پوری تعداد بھی یاد نہیں۔ یہ سب نظام عدل میں شمار ہوتی ہیں۔ یہاں حالت یہ ہے کہ بڑی سے بڑی عدالت کے فیصلوں پر شکوک ظاہر کئے جاتے ہیں۔ ایسے میں ان چھوٹی چھوٹی عدالتوں کا کیا ہے جنہوں نے بڑے بڑے لوگوں کو پنجروں میں ڈال رکھا ہے۔ میں کسی مقدمے کا حوالہ نہیں دینا چاہتا۔ تاہم یہ کہتا چلوں کہ ہمارے ہاں ان مقدمات پر کھل کر بات ہوتی رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ عدالتوں سے قدرے انصاف کی توقع ہوا کرتی تھی۔ انصاف نہ کہیں ریلیف کہہ لیجیے۔ ہمیشہ یہ سجھا جاتا تھا کہ ایگزیکٹو اگر غلط طور پر کسی کو جیل میں ڈالے گی تو عدالت ایسا کرنے والوں کی مشکیں کس دے گی یا کچھ نہ کچھ رعایت دے ڈالے گی۔ مجھے یاد ہے جب کراچی میں 90ء کی دہائی کے آغاز میں فوجی ایکشن شروع ہوا تو میں نے دو چار عسکری دوستوں کو شکایت کرتے سنا کہ ہم جان خطرے میں ڈال کر خطرناک مجرموں کو گرفتار کرتے ہیں، اگلے دن وہ عدالتوں سے ضمانت لے کر باہر آ جاتے ہیں۔ اس وقت سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایک ایسے شخص تھے جوس سخت گیر توتھے مگر انصاف پسند بھی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ جاندار مقدمہ ہی نہیں بناتا۔ جب یہ بات پتا چلی تو اعلیٰ سطح پر عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھ گئی کہ اس کمزوری کو کیسے رفع کیا جائے۔
مرا مطلب ہے عدالتوں کا وقار موجود تھا۔ خود جب بھٹو صاحب کو ایوب خاں کے زمانے میں پکڑا گیا تو انہیں ریلیف ایک آدھ بولڈ جج ہی نے دیا تھا۔ بھٹو صاحب جب وزیر اعظم بننے کے بعد ایک محفل میں آئے تو سامنے والی صف میں وہ جج صاحب بیٹھے تھے۔ وہ ان کے پاس گئے احتراماً جھکے اور اس جج کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا۔ بعدمیں کیا ہوا، یہ ایک دوسری کہانی ہے۔
اس طرح میں اس اصول کا حامی ہوں کہ فوج کا احترام حالت جنگ ہی میں واجب نہیں، حالت امن میں بھی لازم ہے۔ یہ دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے اس احترام میں کمی آ جائے تو ملک نہیں بچتا۔ یہ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ پاکستان اس لئے قائم ہے کہ اس کی فوج مضبوط ہے وگرنہ دشمن کے ارادے اچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے عراق، شام، لبنان، لیبیا میں کیا کیا۔ مصر میں کیا کیا۔ سچ کہیے مصر اس وقت کوئی آزاد و خودمختار ملک ہے؟ سچ کہیے۔ پورے عالم اسلام میں جہاں جہاں مضبوط افواج موجود تھیں۔ ان ملکوں پر پہلی کارروائی یہی کی گئی کہ ان کی افواج کو تباہ کیا گیا۔ ایک ایران اس سازش سے بچ گیا۔ کیوں کہ وہاں ایک انقلابی حکومت آ چکی تھی۔ وہ آج بھی اسی لئے بچا ہوا ہے کہ وہاں کے عوام نے شاہ کے زمانے کی فوج کے تہس نہس ہونے کے بعد ایک نئی فوج بنا ڈالی تھی۔ جس نے 8سال عراق کے ساتھ جنگ لڑی۔ آج بھی ایران امریکہ کو للکار رہا ہے۔ پاکستان کی فوج عالم اسلام کی مضبوط ترین پیشہ ور فوج ہے۔ یہ یقینا سامراج کی نظروں میں کھٹکتی ہے اس کے خلاف پروپیگنڈہ بھی بہت کیا جاتا ہے۔ ایک بار مشرف کے زمانے میں حکم آیا تھا کہ فوجی وردی پہن کر باہر نہ جائیں۔ اس حکم سے چند روز پہلے میں نے انہی ممکنہ پہلوئوں پر ایک کالم لکھنے کی کوشش کی تھی۔ ہماری فوج ہمارے شاعروں اور مغینوں کے فن پاروں میں زندہ ہے۔ ہم پر تو الزام ہی یہی ہے کہ ہم نے اپنی اسلامی تاریخ کے وہ ہیرو بنا رکھے ہیں جو گھوڑے کی پیٹھ پر سوار تلوارلہراتے میدان جنگ میں معرکوں پہ معرکے مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیا کریں ہماری تاریخ یہی ہے۔
رہا تیسرا بڑا ادارہ جسے ہم پارلیمنٹ کہتے ہیں۔ سیاست دان کہہ لیجئے۔ یہ آج کل زیر عتاب ہیں۔ ایسے زیر عتاب ہیں کہ بعض لوگوں کی نظر میں کسی کی عزت باقی نہیں رہی۔ ان سے فی الوقت قوم کو زیادہ امیدیں دکھائی نہیں دیتیں۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ چوتھا ادارہ یہ میڈیا ہے۔ بہتر ہے اس کے بارے میں کچھ نہ کہا جائے کیا یہ ہم سب کی ناکامی نہیں ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلے کو ہزار پردوں میں چھپائے بیٹھے ہیں۔ ہمیں تو یہ پتا نہیں کہ دھرنا اہم ہے یا کشمیر۔ یہ بھی نہیں جانتے کہ دھرنا ہو گیا تو نتائج کیا نکلیں گے۔ کبھی سوچتے ہیں مارشل لاء آ جائے گا۔ کبھی خیال آتا ہے حکومت مزید کمزور ہو گی اور پہلے سے بھی زیادہ بے وقوفیاں کرے گی۔ کوئی کہتا ہے یہ حکومت نہیں تو پھرکون؟ فلاں ایسا ہے اور فلاں ویسا۔ قوم کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں۔ قوم کا کوئی ادارہ اس بارے میں کوئی ٹھوس جواب نہیں رکھتا۔ قوم کو کسی پر اعتبار نہیں۔ اس بے اعتباری کے موسم میں کشمیر کو کون پوچھتا ہے۔ ہمیں تو اپنی معیشت کی پڑی ہے۔ غربت، بے روزگاری، نااہلی، بیماریاں، جھگڑے، لڑائیاں کوئی راستہ نہیں اور کسی پر اعتبار نہیں اور ہم چلے ہیں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے۔