اسلامی نظریاتی کونسل
آج کل اسلامی نظریاتی کونسل پر نظر کرم ہے۔ اس آئینی اور دستوری کونسل نے نیب کے حوالے سے چند سفارشات کر دی ہیں، موقع غنیمت جان کر دل والے دل کھول کر برس پڑے ہیں کہ اس عہد نو میں ایسے ادارے پر کروڑوں اربوں خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایسی ہی فضول خرچی کی شکایت انہیں رویت ہلال کمیٹی کے بارے میں بھی ہوئی تھی۔ حالانکہ عوام کو تو اس امر پر بھی شکایت ہو سکتی ہے کہ وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج رکھنے کی عیاشی کی اس بھولی بھالی قوم کو کیا حاجت ہو سکتی ہے۔ تاہم اس خبر پر گفتگو کا انتخاب چند سنجیدہ پہلوئوں کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
اس پر اعتراض اس وقت بھی ہوا تھا جب ایوب خاں نے اسے بنایا تھا۔ اس وقت اسلام کی تعبیر جدید کا مسئلہ تھا۔ یہ مسئلہ ہمارے پیش نظر ایک طویل عرصے سے رہا ہے۔ ایران میں جب اصلاحات کا شوق پیدا ہوا تو وہاں بھی غالباً 1906ء میں اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی۔ یہ تو رضا شاہ سے بھی پہلے کا زمانہ ہو گا۔ ہمارے علامہ اقبال نے جب اس تجربے پر غور کیا تو انہوں نے ایک طرف تو اس کی تعریف کی دوسری طرف یہ مشورہ بھی دیا کہ یہ ایک عارضی بندوبست ہونا چاہیے۔ مستقل نہیں اور خاص کر سنی حکومتیں اس سے بچ کر ہی رہیں تو بہتر ہے۔ اقبال تو ترک کے جمہوری تجربے کے بہت قدر دان تھے اور انہوں نے یہ مشورہ بھی دے ڈالا تھا کہ اس عہد میں اجتہاد کی ذمہ داری اگر پارلیمنٹ کو سونپ دی جائے تو شاید اس کے اچھے نتائج نکلیں، اجتہاد اقبال کا خاص موضوع تھا۔ میری نظر میں اقبال کا تصور زماں سے لے کر تصور حرکت تک سب کو اسی نظر سے دیکھنا ہو گا۔ خیر یہ تو معاملے کو بہت دور تک لے جانے والی بات ہوگی۔ البتہ یہ سمجھ لیا جائے کہ اقبال یہ کہتے تھے کہ جو شخص اسلام کی جیورس پروڈنس یعنی فقہ کی تشکیل جدید کر دے گا۔ وہی گویا آج کا مجدد ہو گا۔
مگر کوئی دو اڑھائی عشرے پہلے میں نے پاکستان میں ایک دلچسپ بحث دیکھی ہے۔ یہ اخبارات کی زینت بھی بنی تھی اس میں اجتماع اور اجتہاد پر بحث شروع ہو گئی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ غالباً غیر شعوری طور پر یا دانستہ وہ اصحاب جو اپنے تئیں دانشور سمجھتے تھے۔ اجتہاد پر زور دیتے تھے اور وہ جو جمہوری قدروں پر یقین رکھتے تھے، اجماع کی بات کرتے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ اجتہاد کے حامی یہ چاہتے تھے کہ انہیں اپنی رائے کے اظہار کی کسی طور پر آزادی دی جائے۔ اس پر قدغنیں لگائی جائیں تو کم۔ دوسری طرف جو لوگ اجماع کی بات کرتے تھے ان کا مطلب تھا کہ اجماع امت کی کوئی شکل پیدا کی جائے اور یہ کام پارلیمنٹ سے لیا جائے۔ اجماع کا لفظ ہمارے ہاں خاصا زیر بحث رہا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو اسے مانتے ہی نہیں ہیں، پھر اجماع سے مراد اجماع امت بن کر رہ گیا تھا۔ امت میں پھیلائو آیا تو امام شافعی ؒتک نے کہا کہ اجماع ممکن نہیں ہے۔ ممکن نہیں ہے کا یہ مطلب نہیں کہ غلط ہے، بلکہ یہ کہ اتنی پھیلی ہوئی امت ایک بات پر کیسے یک سو ہو گی۔ علماء نے اس کا یہ حل نکالا کہ تمام امت میں انتخاب کرانے کی ضرورت نہیں۔ اجماع امت سے مراد اجماع علماء لے لو۔ اپنے اپنے وقت کے تقاضے ہوتے ہیں۔ امام شافعی ؒکو بھی مشکل نظر آیا۔ اس وقت کوئی پارلیمنٹ تو تھی نہیں۔
بہرحال جب پاکستان کے جدید انسان کو اس کی ضرورت پڑی تو اس نے اسلامی نظریاتی کونسل کی داغ بیل ڈالی دی۔ 73ء کے آئین میں بھی اسے پذیرائی ملی۔ پاکستان چونکہ ایک جدید اسلامی ریاست کی تجربہ گاہ تھی، اس لئے سوچا گیا کہ سب کچھ پارلیمنٹ پر چھوڑنے کے بجائے یوں کہا جائے کہ سارا ہوم ورک کر کے اس ادارے کو دے دیا جائے جو اس کی توثیق کر دے۔ مطلب یہ کہ اجتہاد کے لئے ماہرین کو اکٹھا کیا جائے کیونکہ پارلیمنٹ میں سارے پڑھے لکھے لوگ نہیں ہوں گے اور کوئی قانون اس وقت تک نافذ العمل نہیں ہو سکتا جب تک اسے عوام کی تائید حاصل نہ ہو۔ یہ تائید پارلیمنٹ سے لی جا سکتی ہے۔ اصولی طور پر آئیڈیا برا نہ تھا۔ اکثر آئیڈیاز برے نہیں ہوتے۔ یہ نیب کا آئیڈیا بھی کیا برا تھا۔ احتساب تو ہونا چاہیے مگر اس کا انجام کیا ہوا۔ اب یہاں یہ بحث نہیں کریں گے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ صرف یہی پرکھنا کافی ہے کہ ہوا کیا ہے۔
ایوب خاں کے زمانے میں تو خیر اسلام کو جدید تقاضوں سے برتنے کی کئی حاجتیں تھیں۔ بعد میں البتہ وہ زمانہ بھی آیا جب اسے سنجیدگی سے لینے کی کوشش بھی کی گئی ہو گی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں خالد اسحق اس کے رکن تھے۔ مفتی تقی عثمانی بھی اس میں شامل تھے۔ خالد صاحب بتاتے تھے کہ اکثر معاملات میں ہم میں اتفاق نہیں ہو پاتا تھا۔ مطلب ان کا یہ تھا کہ قدیم اور جدید ذہن حل نہ پاتے تھے۔ اختلاف ہی رہتا تھا۔ یہ کونسل پارلیمنٹ کو سفارشات تو پیش کرتی تھی مگر کونسل اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند نہ تھی۔ ان کے سامنے صرف ایک کام ہوتا تھا۔ جو ملک کے چنے ہوئے اہل دانش نے مرتب کیا ہوتا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ اہل دانش بھی تو اہل اقتدار نے منتخب کئے ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ صورت حال ہو گئی کہ ہر مذہبی گروپ نے اس پر قابض ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ ایک زمانہ وہ آیا کہ جب ہمارے ہاں اسلام کے نفوذ کے لئے باہر سے مدد تلاش کی گئی۔ امام ابن ؒتمیہ کی فکر نے غلبہ حاصل کیا۔ امام صاحب کی علمیت پر کوئی شک نہیں، مگر اس فکر کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ اسے پاکستان میں دوسرے مسالک کے لوگ تو ایک طرف احناف تک نہیں مانتے تھے۔ پھر یہ اسلام نافذ کیسے ہوتا۔ اب سامنے ایوب خاں نہیں تھے۔ ضیاء الحق تھے۔ اس فکر کو ضیاء الحق کا اسلام کہہ کر رد کیا جانے لگا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کونسل میں اگرچہ فضل الرحمن کا نمائندہ چیئرمین نہیں، مگر قبلہ ایاز سے لے کر برادرم خورشید ندیم تک جو جدوجہد کر رہے ہوں گے، مجھے نہیں معلوم اسے پذیرائی کیسے ملتی ہو گی۔
جمہوریت کی اس جدوجہد میں پرابلم یہ پیدا ہو گیا ہے کہ جن ہاتھوں کو اہل سیاست نہیں کر پاتے اور جمہوری حلقوں میں اس کی پذیرائی ہوتی ہے، اسے اسلامی تجویز کے طور پر یہ کونسل پیش کر دیتی ہے۔ یہ ہتھکڑیاں لگانا، طویل مدت تک مقدمہ چلائے بغیر حراست میں رکھنا یہ سب باتیں اسی ذیل میں آتی ہیں۔ ضرورت پڑے تو یہ دفعہ 144کے نفاذ کو بھی غیر اسلامی قرار دے دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے جن باتوں کو وہ دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں، وہ درست ہی کرتے ہوں، مگر لوگ شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہم جس دیس میں رہتے ہیں یہاں ایسا مسلک جمہورکا مسلک ہے جن کو امام اعظم نے باہمی مشاورت سے اداراتی حیثیت دی تھی۔ امام ابو حنیفہ کا طریقہ کار یہ تھا کہ ان کی مجلس میں کسی مسئلے کو پیش کیا جاتا اور اس پر گھنٹوں بلکہ دنوں بحث ہوتی۔ شرکاء میں قاضی ابو یوسف، امام محمد، جیسے جلیل القدر لوگ شامل ہوتے تھے، آخر میں متفقہ فیصلہ لکھوا دیا جاتا۔ باہم مشاورت کا یہ ادارہ کوئی سرکاری پارلیمنٹ نہ تھی، مگر دین کے معاملے میں حتمی رائے تک پہنچنے کا ایک بڑا یہ معتبر پروگرام تھا۔ ایسے ملک میں مشاورت کا کوئی باضابطہ بندوبست بقول اقبال کچھ دیر تو چل سکتا ہے۔ وگرنہ ہمیں فواد چودھری اور خیبر پختونخواہ کے آفریدی صاحب کی رائے پر اعتماد کرنا پڑے گا۔ ایک بات یاد آئی کہ ایک آزاد قوم کی فکر اور غلاموں کی فکر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ عام طور پر اس قول رسول سے بڑا ہٹ کر مطلب لیا جاتا ہے کہ جیسی قوم ہوتی ہے، ویسے ہی ان پر حکمران مقرر کئے جاتے ہیں۔ ترکی جیسی سدا آزاد رہنے والی قوم کے دانش ور ہی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس کی ایسی تشریح کر دے جو جمہوری قدروں کے مطابق ہو، وگرنہ کہہ دیا جاتا ہے ہم جاہلوں پر جاہل ہی حکمران آئیں گے اور اس سے جمہوریت تو پھر آ نہیں سکتی۔ ہماری تاریخ میں معتزلہ پہلے لوگ تھے جو عام آدمی کی رائے کو اہمیت دیتے تھے، مگر ان کے ساتھ دوسری طرح کی گڑ بڑ ہو گئی۔ ترکی کے معتوب دانشور فتح اللہ گولن نے اس کی۔ وضاحت کی، جمہور اس جھاگ کو کہتے ہیں جو کسی شے کے اوپر آتی ہے، دودھ کے اوپر مکھن۔ اس لئے جب جمہور سے پوچھ کر آگے بڑھو گے تو ملائی ہی ملائی ملے گی۔ دور غلامی میں آزادی کے خواب رکھنے والا اقبال بھی وہ ذہن تھا جس نے اس معاملے کی نزاکت کو سمجھا جمہوریت، خلافت، قومی ریاست ان سب معاملات پر بہت سوچ سمجھ کر رائے دی۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ مسلمان اپنی سلطنت کی مضبوطی کے زمانے میں علم و حکمت کے مرکز ہوا کرتے تھے۔ دنیا ان کی طرف دیکھتی تھی۔ وہ آخری معیار تھے۔ سرکاری سطح پر بڑے بڑے ادارے کام کر رہے ہوتے تھے۔ دنیا بھر کے علوم عربی میں منتقل کئے جاتے تھے۔ اس وقت ہم ایسا کوئی کام کر سکتے ہیں تو بہت اچھا ہے۔ سرکاری ادارے بند کر دیجیے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ علم کے سوتے خشک ہو جائیں۔ اس بیچاری کونسل کی رائے ماننے کی پابند تو پارلیمنٹ نہیں اور کون ہو گا۔ ہاں حالات کے مطابق اس کے فیصلوں میں سیاست جھلکنے لگے تو چاہے اچھا نہ لگے مگر وہ بات مسلمہ آفاقی اصولوں کے مطابق ہو تو اس کا مذاق کیسا!