حماقت کی گنجائش نہیں
میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ پاکستان کا نازک ترین دور ہے۔ اس لئے کہ یہ ہم ہر زمانے میں کہتے رہے ہیں۔ تاہم جب میں غور کرتا ہوں اور تاریخ کو اپنی نگاہوں کے سامنے لا کر دیکھتا تو یقینی طور پر یہ پاکستان کی تاریخ کے دو ایک ایسے زمانوں میں سے ہے جب ریاست کے وجود پر ہی شک ہونے لگ جاتا ہے۔ وہ تو خدا کا کرم ہے کہ وہ ہمیں مشکلات سے نکالتا ہے۔ کبھی کبھی سزا بھی دیتا ہے۔ مجھے خیال آتا ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان سے پہلے بھی ایسی کیفیات تھیں۔ تاہم اس زمانے میں سادہ دل پاکستانی سمجھتے تھے کہ ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یحییٰ خاں پر اعتبار نہ تھا، مگر یقین تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج ملک ٹوٹنے نہ دیں گی ہمیں اپنے جانبازوں پر ایسا ہی یقین تھا۔
ملک ٹوٹ گیا سب کچھ بکھر گیا۔ مگر ہم نے پھر بھی سبق نہ سیکھا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد کا زمانہ ہمیں بہت کچھ سکھا سکتا تھا۔ ہم نے کچھ نہ سیکھا۔ سقوط سے پہلے جانے کتنے تجزیہ کار کیا کچھ نہیں کہتے رہے تھے۔ اس میں روشنی کی کرنیں بھی تھیں جن کا ہم اب مذاق اڑاتے ہیں۔ انتباہ بھی تھا، خطرے کی نشاندہی بھی تھی۔ متوقع دور سیاہ کے اشارے بھی تھے۔ مگر شاید یہ خیال بہت کم تھا کہ ہم یوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوں گے۔ ہماری ساری تاریخ بدل گئی تھی جس کے تدارک کی اب کوئی امید نہ تھی۔ میں نے لاہور کی گلیوں میں بڑے بڑے سخت دل ہم وطنوں کو دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا ہے۔ ایسے سخت دل جو تاریخ کا بڑا ظالمانہ تجزیہ کرتے تھے۔ انہیں بھی امید نہ تھی کہ ہمارے ساتھ یہ ہو سکتا ہے۔ یہ بہت مشکل دور تھا۔
پاکستان ان دنوں بھی بڑے حساس لمحات سے گزر رہا ہے۔ اس لئے نہیں کہ نواز شریف کی حکومت جبراً ختم کر دی گئی اور ملک میں اقتدار کی ایسی دوڑ شروع ہوئی جس کی ماضی میں کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ یہ درست ہے کہ ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک کردار ہوتا ہے۔ یقین نہ آئے تو امریکہ کا حال دیکھ لیجیے۔ اسٹیبلشمنٹ مضبوط نہ ہوتی تو آج دنیا کا سب سے طاقتور شخص ٹرمپ کی صورت میں اپنا ہی نہیں دنیا کا بھی تیا پانچہ کر چکا ہوتا۔ پینٹا گون، سی آئی اے، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اپنے اپنے طور پر کام کرتے ہیں۔ آخری فیصلہ وائٹ ہائوس نے کرنا ہوتا ہے مگر اس طبقے تک پہنچنے سے پہلے بہت سا پانی پلوں تلے بہہ چکا ہوتا ہے۔ یہ عمل ہر لمحہ تیز رفتاری سے ہوتا رہتا ہے۔ یہ جمہوری عمل کا ایک حصہ ہے۔ تاہم جمہوری عمل کے اس طریق کار کو بھی عجیب رنگ دے رکھا ہے۔
جو بات نواز شریف کی تقریر سے شروع ہوئی لگتاہے اس نے ملک میں ایک آگ سی لگا دی ہے۔ مجھے ڈر نہ نواز شریف سے ہے نہ اقتدار کے اندر ان کے مخالفوں سے، ڈر ہے تو اس بات کا کہ ملک کے معاملات چلانے والا تدبر کہیں نظر نہیں آتا۔ صبح ہی میں ذکر کر رہا تھا کہ ملک میں بھٹو، ایوب، ضیاء سب حکمران رہے۔ ان سب کے مخالف موجود تھے۔ یہ آمریت اور جمہوریت کا معاملہ نہ تھا، بلکہ ان لوگوں کی ذہنی صلاحیتوں کے بارے میں تاریخ کا تجزیہ تھا۔ سبھی نے بڑے بڑے فیصلے کئے۔ ان فیصلوں سے اتفاق نہ ہوا۔ کسی کو شک نہ تھا کہ فیصلے کرنے والا بیوقوف بن گیا ہے۔ میں نے دانستہ ماضی قریب کے حکمرانوں کا ذکر نہیں کیا۔ حتیٰ کہ مشرف کا بھی نہیں۔ مطلب یہ کہ قوم کو یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے فیصلہ ساز بدنیت تو ہو سکتے ہیں، مگر نااہل نہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نواز کے بیانیے پر حکمرانوں کی طرف سے جو انداز فکر اختیار کیا گیا، وہ بنیادی طور پر سیاست بازی کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
دو ایک باتیں عرض کئے دیتا ہوں۔ شاید کہ بات سمجھ آ جائے۔ مثال کے طور پر جوش جذبات میں پہلا بیان آیا کہ پہلے تو اداروں کو آپس میں لڑایا جاتا تھا بلکہ صاف کہا گیا کہ فوج کو سیاست دانوں سے لڑانے کی کوشش ہوتی تھی، اب فوج کے اندر تصادم پیدا کیا جا رہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ یہاں فوج کا لفظ استعمال کیا گیا یا ادارے کا، تاہم آج کل یہ دونوں لفظ ہم معنی بنادیے گئے ہیں۔ کسی نے غور کیا کہ یہ کتنی غلط بات کہی گئی ہے۔ کیا ہم آگ سے نہیں کھیل رہے۔ یہ کہنا کوئی عقل کی بات ہے کہ ہمارے اداروں کے اندر اختلاف پیدا کیا جا رہا ہے۔ میں اتنا بیوقوف نہیں کہ اس کی پرتیں کھول کر اس کے سب ممکنہ مفہوم بیان کروں۔ اس سے بہت خطرناک معنی نکلتے ہیں۔ دکھ کی بات ہے کہ ایسا کہنے والا ایک وزیر ہے، وہ اپنی طرف سے نواز شریف پر الزام لگا رہا ہے اور نہایت سنگین الزام لگا رہا ہے، مگر کسی کو اندازہ تھا کہ اس فقرے کو کسی نے سمجھایا نہ سمجھا۔ لاشعور ے کام شروع کر دیے اور بے شمار خطرناک بیانیے مصدقہ خبروں کے نام سے جنم لینے لگے۔
میں نے سمجھا کہ بہت ہو گئی۔ فوری ردعمل تھا بیوقوفی ہو گئی۔ اب کوئی نہ بولے گا۔ دوسرا بیانیہ آیا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے مل کر نواز شریف سازش کر رہا ہے۔ اس میں سازش کا لفظ ذرا فالتو ہے۔ عالمی ادارے کب ہمارے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتے رہے۔ ہم تزویراتی طور پر ایسے خطے میں ہیں جہاں دنیا میں ایک نئی پیراڈائم تشکیل پا رہی ہے۔ پاکستان، چین، بھارت، افغانستان، ایران، سعودی عرب، وسط ایشیا۔ غور کیجیے کیا نقشہ تشکیل پا رہا ہے۔ امریکہ لاکھ یہاں نہ سہی مگر آج کل یہیں ہے۔ پہلے تو اس بیانیے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عالمی رہنما نواز شریف کو قطعاً بے معنی نہیں سمجھتے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس شخص کو ان کی عدالتوں نے زندگی بھر کے لئے نااہل قرار دے دیا ہے۔ اس پر کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں۔ اس سے کیا لینا دنیا جس کے بارے میں شیخ رشید جیسا "باخبر" شخص یہ کہتا ہو کہ اس کی سیاست ختم ہو گئی۔ اس سب کے باوجود اگر وہ ملتے ہیں تو اس کا مطلب یقینی طور پر یہ ہے کہ وہ اسے آج بھی اہم سمجھتے ہیں اور اگر بقول آپ کے وہ اس سے مل کر سازش کر رہے ہیں، تو پھر آپ اس کو غیر اہم نہ سمجھیں ابھی ایک صاحب غصے میں مجھے فون پر کہہ رہے تھے کہ نواز شریف کوئی مصطفی کھر نہیں جو انڈیا کے ٹینکوں پر بیٹھ کر آنے کی بات کرے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو فعال کرنے کی سعادت اسے حاصل ہے۔ یہ بیانیہ چلنے کا نہیں۔ کسی نے ٹکڑا لگایا کہ وہ اسلامی ملکوں سے مل کر ڈیل کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے اس خبر کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ سعودی سفیر ان سے لندن میں ملے ہیں۔ افواہیں اور بہت سی ہیں، مگر اس سے جو بیانیہ بنتا ہے وہ بھی اتنا خطرناک ہے۔
جنرل باجوہ نے بڑی درد مندی سے بات کی تھی کہ ففتھ جنریشن وار ہمارے خلاف شروع کی جا چکی ہے جو ہمیں جیتنا ہے۔ میری گزارش ہو گی کہ یہ جنگ بہت پیچیدہ اور sophisticate ہوا کرتی ہے۔ یہ ہوائوں میں بازو لہرانے والے ان ترجمانوں کی زبان بندی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ بہت نقصان دہ ہے۔ یہ جنگ اس طرح نہیں لڑا کرتے۔ ایسے بیانات کے بعد ہمیں دشمن کی ضرورت نہیں رہے گی۔ سیاست کی راہیں تو افہام و تفہیم سے عبارت ہوتی ہیں۔ جو حکومت اس پر یقین نہ رکھتی ہو یا اس کی صلاحیت نہ رکھتی ہو، وہ ملک کو خاک چلائے گی۔ مزید بیوقوفی کی گنجائش نہیں۔ کون کہتا ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ بند کرو۔ مگر نظر آنا چاہیے کہ یہ جنگ کرپشن کے خلاف ہی ہے۔ وگرنہ نہ کوئی نہ مانے گا۔ اس میں بھی اگر انداز غلط ہو تو نتائج حماقت آمیز ہی نکلیں گے۔