ایک اونٹ کی کہانی
یکم جولائی 1948ء کی بات ہے قائد اعظم اپنی علالت کے باوجود سٹیٹ بنک آف پاکستان کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لائے۔ اس وقت تک یہ بنک اس عمارت میں تھا جس میں اب سپریم کورٹ کراچی کی رجسٹری ہے۔ قائد اعظم نے اپنی اس تقریر میں کئی معرکہ آراء باتیں کہی تھیں مگر اس کا پہلا فقرہ تھا کہ یہ بنک ہماری مالیاتی خود مختاری کی علامت ہو گا۔ یہ جو بل لانے کا منصوبہ ہے کہ اسٹیٹ بنک کو اس قدر خود مختار کر دیا جائے کہ وہ پاکستان کہ صدر، وزیر اعظم یا پارلیمنٹ کو قطعاً جواب دہ نہ ہو۔ اس کے بارے میں جو واویلا ہے کیا وہ درست نہیں ہے۔ یہ تو گویا اس بنیادی تصور کے خلاف ہے جو اسے معرض وجود میں لانے کا مقصد تھا۔ مالیاتی خود مختاری جی ہاں بنک کی نہیں۔ پاکستان کی۔
بنک کی اس خود مختاری کا مطلب کیا ہے۔ واضح طور پر یہ کہ بنک آئی ایم ایف کا ماتحت ہو گا۔ ویسے تو یہ اب بھی ہے اور پوری طرح ہے، مگر ہم اسے قانونی اور آئینی تحفظ دینا چاہتے ہیں اور پاکستان کے گلے میں معاشی غلامی کا طوق ڈالنا چاہتے ہیں۔
جب ملک کے پہلے فوجی آمر ایوب خاں کے خلاف احتجاجی تحریک چلی تو تمام جمہوری طاقتوں نے مادر ملت کا اپنا قائد بنا کر انہیں ایوب خاں کے خلاف صدارتی الیکشن کے میدان میں اتارا۔ مادر ملت نے اپنی مہم کا آغاز کراچی کے نشتر پارک سے کیا۔ لوگ اب بھول چکے ہوں گے اس وقت لاہور کا موچی دروازہ اور کراچی کا نشتر پارک عوامی اجتماعات کے دو سب سے بڑے مراکز تھے۔ مادر ملت نے جو تقریر کی اس میں بھی انہوں نے جس بات پر زور دیا اور ایوب خاں کو للکارا وہ یہ تھی کہ تم کہتے ہو تم نے ملک کو ترقی کے راستے پر ڈالا۔ یہ ترقی ہے یا غلامی۔ تم نے ہمیں آنے والی نسلوں کا غلام بنا دیا ہے۔ تم نے ہمیں آئی ایم ایف کے شکنجے میں دے دیا ہے۔
معاشی خود مختاری کی ہماری یہ جنگ نئی نہیں ہے۔ اول روز سے جاری ہے جب پاکستان بنا تھا توبھلوں کی خالی پیٹیوں (کھوکھوں) پر بیٹھ کر دفتر لگایا کرتے تھے اور ببول کے کانٹوں سے فائلوں کو پن کیاکرتے تھے۔ مگر ہمارابجٹ فاضل ہوا کرتا تھا۔ ملک غلام محمد نے گورنر کی حیثیت سے جو کچھ اس قوم کے ساتھ کیا اسے یہ قوم کبھی معاف نہیں کر سکتی مگر وہ اور ان کے بعد چوہدری محمد علی جب اس ملک کے وزیر خزانہ تھے تو اس غربت کے عالم میں بھی پاکستان کا بجٹ فاضل ہوا کرتا تھا خسارے کے بجٹ کا کوئی رواج نہ تھا۔ یہ تو جب معاملات آئی ایم ایف کے ہاتھ میں گئے، ترقی کے نام پر ہماری خود مختاری کا سودا ہوتا گیا۔
شعیب وزیر خزانہ بنے اور ایم ایم احمد منصوبہ بندی کمشن کے سربراہ۔ بس پھر کچھ نہ پوچھو۔ شعیب پاکستان کے سیکرٹری خزانہ نہ بن سکے تو آئی ایم ایف چلے گئے۔ واپس آئے تو وزیر تھے۔ ایم ایم احمد کی مذہبی وابستگی پر میں بات نہیں کرتا، ان کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ اسے رہنے دو۔ تاہم اس ان افراد کی پالیسیوں نے پاکستان کو امریکہ کا غلام بنا دیا۔ اس معاشی غلامی پر ان دنوں بہت گفتگو ہوتی تھی۔
چوہدری محمد علی کی اس زمانے کی بہت تحریریں موجود ہیں۔ جہاں جمہوریت کے لئے جدوجہد ہو رہی تھی جہاں وہ پاکستان میں ترکی کے آئین کے نام پر فوج کے عمل دخل کے خلاف بول رہے تھے۔ وہاں وہ پاکستان کے آئی ایم ایف میں جانے اور گلے میں غلامی کا طوق پہننے کے خلاف بھی نبرد آزما رہے۔ مجھے یاد ہے جب نواز شریف پہلی بار اقتدار میں آئے تو ان کا ایک نعرہ اقتصادی خود مختاری کا بھی تھا۔ اس وقت اس خود مختاری کا مطلب آئی ایم ایف کے پنجے سے نکلنا تھا۔ شاید اسی وجہ سے ہم نے چین کا سہارا لیا۔ اس وقت تک بہت سا پانی سروں پر سے گزر چکا تھا۔ وگرنہ بہتر تو یہی تھا کہ ہم چین کے بھی محتاج نہ ہوتے۔ مگر برسہا برس کی پالیسیوں نے ہمیں ترقی کے ایسے راستے پر ڈال دیا تھا جہاں غیرملکی قرضے ترقی کی علامت بن جاتے ہیں۔
فرق صرف اتنا تھا کہ ترقی کی یہ علامت غلامی کا نشان نہ بن جائے۔ قرض ہو یا سرمایہ کاری اس کے ساتھ آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک جیسی شرائط نہ ہو ورنہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ریاستوں کے قرضے ذاتی قرضے نہیں ہوتے بشرطیکہ یہ آپ کی خودمختاری کا سودا نہ کریں یہ جو ہم سٹیٹ کی شکل میں اپنی خود مختاری کا سودا کر رہے ہیں اس کا مطلب بالکل دوسرا ہے۔ آخر جرمنی اور جاپان کی کس طرح اپنے پائوں پر کھڑے ہوئے۔ اس میں امریکی امداد ہی کا دخل نہیں، ان قوموں کی اپنی غیرت، حمیت اور جوانمردی کا بھی ہاتھ ہے۔ خود امریکہ کی معیشت آج بھی قرضوں پر چل رہی ہے۔ شاید اسی لئے امریکہ سیاسی اور معاشی طور پر اب لڑکھڑا رہا ہے۔ خدا جانے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جس نے دوسروں پر انحصار کیا اور وہ بھی غلامی کا طوق پہن کر وہ کبھی سر اٹھا کر نہیں چل سکتا۔
ابھی ہمارے ایک دوست نے اپنے بچپن کا سنا ایک قصہ سنایا آپ بھی سن لیجیے۔ ایک بھکاری کسی ویرانے سے گزر رہا تھا۔ اسے نیند محسوس ہوئی۔ وہ ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ جو دال روٹی اس کے پاس تھی اسے درخت پر لٹکا دیا کہ زمین پڑی ہو گی تو جانے کوئی جانور اسے منہ مار جائے۔ اتنے ہی ایک مسافر اور آیا اس نے اپنا اونٹ باندھا اور لیٹ گیا۔ اونٹ نے درخت پر کوئی کھانے کی چیز دیکھی تو اس پر منہ مار کر اسے ہڑپ کر گیا۔
بھکاری اٹھا تو اونٹ کو جگالی کرتے دیکھ کر اور اپنی خوراک کی جگہ بس کسی چیتھڑے کو لٹکے دیکھ کر رونے لگا۔ اونٹ کا مالک اٹھا تو اس نے رونے کی وجہ بتائی۔ اس فقیر نے کہا کہ ہوں تو میں بھکاری مگر جو مانگ تانگ کر لایا تھا وہ تمہارا اونٹ کھا گیا۔ اس پر وہ مسافر دھاڑے مار مار کر رونے لگا۔ بھکاری حیران ہوا اور پوچھا کہ میرا تو کھانا گیا اس لئے رو رہا ہوں، تمہارا کیا گیا۔ اس نے جواب دیا، تمہارا تو کھانا گیا ہے میرا تو اونٹ چلا گیا جس کے پیٹ میں مانگے کی غذا چلی گئی۔
ہم اسی غذا کے پروردہ ہیں اور عادی ہیں اور دکھ یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہمیں اپنی غذا خود پیدا کرنے کے حل سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ خدا ہم پر رحم کرے اب تو ہم گندم بھی باہر سے منگواتے۔ چلو یہ تو نہیں کہ پی ایل480کے تحت خیرات میں آیا کرتی تھی۔