یہ جرم ہے میرا
انسان اپنے آپ کو بھی جواب دہ ہوتا ہے وہ جسے ضمیر کا سامنا کہتے ہیں۔ انسان زندگی کی دوڑ میں رواں دواں رہتا ہے، عذاب و ثواب سے گزرتا رہتا ہے، نیکی اور گناہ سے آمنا سامنا ہوتا رہتا ہے اور یوں ہی کتاب زندگی ترتیب پاتی رہتی ہے۔ میں بھی اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا ہوں، آج 73 برس گزر جانے کے بعد واپس لوٹتا ہوں، تو عام سی زندگی سے سامنا ہوتا ہے۔
سادہ مزاج ماں باپ، عام غریبانہ گھر، بود و باش بھی سادہ، لیکن چند باتیں بہت خاص بھی تھیں۔ جو کسی کسی گھرانے کو عطا ہوتی ہیں۔ میرے والد صاحب صوفی عنایت اللہ شاعر و نثرنگار تھے، میرے دو بڑے بھائی مشتاق مبارک اور حبیب جالب شاعر تھے۔ جب گھر میں ایسی ادبی فضا ہو تو گھر خود ہی ممتاز ہو جاتا ہے۔ شاعر حبیب جالب سے تو سبھی واقف ہیں، البتہ مشتاق مبارک کو وہ شہرت حاصل نہ ہو سکی جو چھوٹے بھائی حبیب جالب کو حاصل ہوئی، مگر مشتاق مبارک کے شاعرانہ مقام سے ان کے ہم عصر شعرا و ادیب خوب واقف تھے۔ بھائی مشتاق مبارک کا مشہور قطعہ لکھتے ہوئے آگے بڑھوں گا، ملاحظہ فرمائیں :
دوستوں کی ستم ظریفی کو
ہم فقط اپنی سادگی سمجھے
دوست میرے خلوص کو اکثر
میرا احساسِ کمتری سمجھے
یہ قطعہ دراصل ہمارے گھر کے مزاج کا مکمل تعارف ہے۔ اب اس بڑے اہم ادبی گھر میں سعید پرویز نامی لڑکا بھی پل بڑھ رہا تھا۔ جہاں سب سے بڑا بھائی شاعر بھائی مشتاق مبارک مرکزی محکمہ اطلاعات و نشریات میں کلاس ون گزیٹڈ آفیسر ہوں اور دوسرا بڑا بھائی حبیب جالب ہو، جیل تھانے، پولیس، گرفتاریاں، عدالتیں، مقدمات، نامور وکلا صاحب کردار ادبا شعرا کا گھر میں آنا جانا، ملکہ ترنم نور جہاں، شہنشاہ غزل مہدی حسن، ریاض شاہد، علاو الدین، طالش، ملکہ غزل فریدہ خانم، اداکارہ نیلو و دیگر۔ یہ ماحول اور سعید پرویز سب دیکھتا رہا، اور میرے اندر بھی ایک ماحول بنتا رہا۔
جاتے جاتے بھائی حبیب جالب ایک ڈیوٹی لگا گئے۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا۔ دسمبر 1992، بھائی جالب شیخ زید اسپتال لاہور میں آخری دن گزار رہے تھے۔ میں کراچی سے لاہور چلا تو بھائی صاحب کا پیغام ملا کہ پہلے سیدھے اسپتال آنا، لہٰذا لاہور ایئرپورٹ سے سیدھا شیخ زید اسپتال پہنچا۔ بھائی جالب کے کمرے میں ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔
میں نے انھیں بھی سلام کیا۔ بھائی صاحب نے ان صاحب سے کہا "یہ ہے میرا بھائی سعید پرویز" اور پھر مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کمرے میں بیٹھے شخص کے بارے میں مجھے بتایا "اور یہ ہیں مظفر محمد علی۔" بھائی مزید بولے " اخبار والوں نے میری 22 گھنٹوں کی ریکارڈنگ کی ہے اور اس گفتگو کو کاغذ پر منتقل کر دیا ہے اب سعید! تم نے اس گفتگو کو تحریر میں بدلنا ہے۔" میں نے یہ سنا تو دسمبر کی شدید سردی میں میرے پسینے چھوٹ گئے، بھائی میری پریشانی کو بھانپ گئے اور مجھ سے بولے "بھئی! تمہاری افسانوں کی کتاب چھپ گئی ہے ناں " میں نے کہا "جی بھائی صاحب!" تو بھائی بولے "تو بیٹا! یہ کام کرو، اس سے تمہیں بہت فائدہ ہوگا۔"
اخبار والوں نے میرے لیے میز کرسی کا انتظام کردیا اور میں بھائی کی ڈیوٹی پر لگ گیا۔ بھائی جالب کی زندگی نے وفا نہیں کی اور وہ اپنی آپ بیتی بہ عنوان جالب بیتی کو نہ دیکھ سکے اور 12 اور 13 مارچ 1993 کی درمیانی رات ساڑھے بارہ بجے انتقال کرگئے۔ اخبار والوں نے بعد کو مجھے کراچی سارا مسودہ بھجوایا کہ میں اس کے ابواب کو ترتیب دے دوں۔
میں نے وہ کام بھی کرکے مسودہ واپس بھجوا دیا۔"جالب بیتی" کے مرتب محترم طاہر اصغر تھے اور کتاب احمد راہی کے نام تھی۔ ابھی حال ہی میں "جالب بیتی" کو جمہوری پبلی کیشنز لاہور نے شایع کیا ہے اور جمہوری پبلی کیشنز کے روح رواں فرخ سہیل گوئندی صاحب سے میں نے خود کہا کہ "کتاب کی پروف ریڈنگ میں کروں گا " اور میں نے اپنے عظیم بھائی کی عقیدت میں یہ کام کیا اور صرف بھائی جالب کی دعائیں سمیٹیں۔ میں اب بھی جالب بھائی کے لیے صرف دعاؤں کے عوض ہر تعاون کے لیے حاضر ہوں۔"ماہنامہ ماہ نو" والوں نے آخر کار مجھ سے رابطہ کیا، اور میں نے انھیں "حبیب جالب نمبر" کے لیے مواد مہیا کیا۔ یہ 580 صفحات کا نمبر تھا۔
بھائی صاحب ڈیوٹی لگا گئے تھے ان کے انتقال کے بعد میں نے ان کی پہلی برسی پر کتاب "گھر کی گواہی" (صفحات 500) لکھی، ترتیب دی اور شایع کی۔ پھر تین سال بعد کتاب "شاعر شعلہ نوا" ترتیب دی اور شایع کی۔ اس کتاب میں جالب صاحب شعرا کا منظوم خراج تحسین و عقیدت شامل ہے (صفحات 272)۔"رات کلینی" جالب صاحب کی پنجابی شاعری (صفحات 144)۔"جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے" (انتخاب، صفحات160)۔"میں طلوع ہو رہا ہوں " (صفحات 1200) اس کتاب میں جالب صاحب کے انتقال پر پتوکی سے مانٹریال تک کی تعزیتی فضا کو سمیٹا گیا ہے۔ پاکستانی ادب کے معمار اکیڈمی ادبیات کی درخواست پر تحریر کردہ کتاب (صفحات 272) "اماں " والدہ صاحبہ کی کہانی (صفحات200)، ارمغان صوفی (صفحات 623)، والد صاحب کی نثر اور شاعری، ناشر: سعید پرویز۔ ان کتب کے علاوہ میں نے حبیب جالب کی زندگی پر مکمل ڈرامہ تحریر کرلیا ہے، مگر ابھی اشاعت نہیں ہوسکی (صفحات 560)۔
سالانہ حبیب جالب یادگاری جلسہ کی ایک روایت یہ بھی ہے اس جلسے میں حکومتی اہلکاروں کو مدعو نہیں کیا جاتا۔ آخر میں اب تک دیے گئے حبیب جالب امن ایوارڈ کی تفصیل درج ذیل ہے۔ سوبھوگیان چندانی، چیف جسٹس بحالی وکلا تحریک۔ اعتزاز احسن، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، فخرالدین جی ابراہیم، ڈاکٹر رتھ فاؤ، معراج محمد خان، عبدالحمید چھاپرا، رانا بھگوان داس، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، عابد حسن منٹو، کامریڈ جام ساقی، جمی انجینئر۔ اس سال 2020 کا ایوارڈ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو دیا جائے گا۔ حبیب جالب صاحب نے فلم "ساز و آواز" میں ایک گیت لکھا تھا۔ اسے مہدی حسن نے گایا تھا۔ اور موسیقار تھے حسن لطیف ملک۔ یہ گیت وحید مراد پر پکچرائز ہوا تھا، اسی گیت کی دو چار لائنیں لکھ رہا ہوں :
یہ جرم ہے میرا
میں لیتا ہوں کیوں نام یہاں پیار سے تیرا
ہائے یہ جرم ہے میرا
رویا وہی آیا یہاں جو پھول کھلانے