Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Saadia Bashir
  3. Mir Ki Naqal Karte Hue Pas Hue

Mir Ki Naqal Karte Hue Pas Hue

میر کی نقل کر کے پاس ہوئے

پریکٹیکل یعنی عملی امتحان نصاب کا حصہ ہے۔ جس میں پریکٹیکل کاپیاں تک اب برانڈ کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ عجیب ہے کہ "ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور" کا محاورہ شاید انھی پریکٹیکلز کے لیے کہا گیا ہے۔ بیس یا پچیس پریکٹیکل میں سے یہ طے ہے کہ امتحان میں صرف چار پریکٹیکل ہی آئیں گے۔ کیونکہ کالجز کی لیبارٹریوں میں صرف ان پریکٹیکلز کا سامان موجود ہے۔

اس پر غضب یہ ہے کہ مہنگے سامان کو طلبہ کی دست و برو سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ یہ بھی دل چسپ ہے کہ یکساں نصاب کے تحت تیار کی گئی کاپیاں صرف پریکٹیکلز کی ترتیب بدلنے سے " اچھی یا بری " بھی ہو سکتی ہیں۔ سلے سلائے کپڑوں کی طرح پریکٹیکل کی تیار کاپیاں بھی مارکیٹ میں موجود ہیں۔ بنی بنائی کاپیوں میں بھی خوب صورت لکھائی۔ عام لکھائی۔ خوب صورت تصاویر۔ سیاہی اور عمدہ مارکرز کے استعمال سے بھی دام بڑھائے، گھٹائے جا سکتے ہیں۔

دوسری طرف عملی امتحان لینے کے لیے جو اساتذہ تعینات کیے جاتے ہیں ان کی پسند ناپسند کا عمل بھی طالب علم کے نمبروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ طلبہ کے نام، لباس، مسلک، اس کا رویہ۔ بے جا ہنسنا یہ تمام عوامل طلبہ کے نمبروں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ کچھ اساتذہ کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی طالب علم ان کے سوالات کے مسلسل صحیح جوابات دے تب وہ طالب علم کی قابلیت کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے احساس کمتری کی وجہ سے برداشت نہیں کر پاتے اور آؤٹ آف کورس یا پھر آؤٹ آف کانٹیکٹس سوالات پوچھنے لگتے ہیں۔ ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح طالب علم کو نالائق ثابت کیا جا سکے۔

پریکٹیکل لینے والے ایسے استاد بھی دیکھے ہیں جو دوپٹہ نہ لینے پر بچوں کے نمبر کاٹ لیتے ہیں اور ایسے ذہنی مریض بھی کہ اگر کوئی سفارش کر دے تو پہلے بچہ کو tease کرتے ہیں اور پھر جان بوجھ کر 12 /11 نمبر دے کر ذہنی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ امتحان میں دیے گئے پریکٹیکل کا سامان متعلقہ لیبارٹری میں موجود نہ ہونے پر طلبہ سے پریکٹیکل کروایا ہی نہیں گیا۔ کئی استاد آتے ہی یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ جس طالب علم کو کچھ نہیں آتا وہ چلا جائے۔ نمبر لگ جائیں گے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ درست جواب نہ دینے پر نمبر کاٹ لیے جائیں گے۔

ممتحن کو اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ ان پریکٹیکلز کے شروع ہوتے ہی ایک دوسرے سے کہنے سننے اور درخواست کا عمل خوب زور پکڑتا ہے اگر استاد صحیح طریقے سے پڑھائیں تو سفارش کی ضرورت ہی کیوں پیش آئے، لیکن ممتحن صرف پرچہ لینے نہیں آتے اپنی دھاک بٹھانے آتے ہیں، ایسی صورت حال میں ساتھی استاد بھی بچہ کا خیال رکھنا کا کہہ دے تو ممتحن کی فرعونیت جاگ جاتی ہے۔

بورڈ نے تو ایسا کوئی نظام سرے سے بنایا ہی نہیں جہاں دوبارہ چیکنگ ہو سکے۔ صرف ری کاؤنٹنگ کی جاتی ہے اور اس میں بھی سال ضائع ہو جاتا ہے۔ شور یہ مچایا جاتا ہے کہ سفارش کیوں کی گئی۔ بھائیو اور بہنو آپ سے سنگین خدشات لاحق ہیں۔ تبھی تو آپ سے خیال رکھنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ تیس نمبروں کی تقسیم آپ کے ہاتھ میں دی گئی ہے۔ کون سا چراغ گل کرنا ہے۔ کون سا جلتا چھوڑے رہنا ہے۔ یہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تیس نمبر طلبہ کا مستقبل کھا جاتے ہیں اور دھڑلے سے کھا رہے ہیں۔

سادہ سوال ہے کہ یہ پریکٹیکل عملی زندگی میں کیا فائدہ دیتے ہیں۔ اور جو پریکٹیکل شامل نصاب ہیں اور ان کا سامان موجود نہیں ان کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ جغرافیہ کے پریکٹیکل میں بہت سے طلبہ کو یہ بھی علم نہ تھا کہ دنیا میں کل کتنے سمندر ہیں؟ ایک بچی نے درست جواب دیتے ہوئے بتایا کہ اسے اس گانے سے پتہ چلا " سات سمندر پار میں تیرے پیچھے پیچھے آ گئی " جونہی استاد کو یہ پتہ چلا اس نے بچی کے نمبر کاٹ لیے۔

شاید اساتذہ کے ذہن میں کہیں موجود ہے کہ انھیں نئی نسل کو بھٹکنے سے بچانے کے لیے موسیقی، فلم بینی اور جدید تقاضوں سے دور رکھنا ہے اور ہر ایسے عمل میں ان کی حوصلہ شکنی پر توجہ دینا ہے۔ اسی لیے تو کئی اساتذہ عشق مجازی سے متعلق اشعار کی اسلامی تشریح بھی کرواتے پائے ہیں۔ جہاں زوالوجی کی تصاویر بنانے میں فتوی دیا جائے کہ اگر تصویر کی ہیئت اور شکل درست ہو تو حرام ہے اور اگر اس کا سر کاٹا گیا ہو اور بدن کے اجزاء کو الگ الگ کردیا گیا ہو، پھر جائز ہے، یہ سب سے صحیح مسلک ہے۔ تو ہمیں یہ بھی ڈر لگتا ہے کہ ہنسنے پر کوئی اور شدید فتوی نہ جاری کر دیا جائے۔

اسی تعلیم کے پروردہ طلبہ اپنے اساتذہ کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ بغیر دوپٹہ کے ہے۔ ہم کیا چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے مدرسے بن جائیں اور مدرسین گیٹ پر وکٹری کا نشان بنائے کھڑے نظر آئیں۔ جب بھی جدید نظام تعلیم کی شفافیت پر بات کی جاتی ہے۔ تب ارباب اختیار کو پریکٹیکلز کی آڑ میں جاری نا انصافی کیوں نظر نہیں آتی۔ ماضی میں بنا پریکٹیکلز امتحانات لینے کا تجربہ بھی کیا گیا۔ پریکٹیکلز مافیا کی چیخیں نکل گئیں اور سسٹم ریورس گیئر لے گیا۔ اس مرتبہ فیڈرل بورڈ نے پریکٹیکل لینے کے بجائے بیس نمبر کا پرچہ لینے کا ارادہ کیا ہے۔

پنجاب بورڈ نوزائیدہ بچے کی طرح فیڈرل بورڈ کو دیکھے گا۔ معلوم نہیں آئندہ آنے والی نسلیں کب تک دو دھاری تلوار پر چلتی رہیں گی۔ ہمارے ہاں ہر اچھا سسٹم جدیدیت کی آڑ میں شروع تو ہوتا ہے لیکن جگاڑ لگانے والے سسٹم میں کنڈی لگا لیتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ پریکٹیکل لینے کا سسٹم کب ریورس گئیر لے گا۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt