Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Saadia Bashir
  3. Aik He Kahani Hai

Aik He Kahani Hai

ایک ہی کہانی ہے

وسیع میدان میں پھولوں کا تختہ نہیں بلکہ تخت کھلے تھے۔ ایسے تخت جن کی خوش بو تھی، نہ ہی کوئی رنگ تھے۔ بس تخت تھے اور اپنی خو بو سے صاف پہچانےجاتے تھے۔ ایسے تخت! جن کی سالانہ کارگزاری کی سالگرہ منائی جاتی اور خوب رونق ہوتی۔ کسی کو یاد بھی نہ تھا کہ پہلی بار اس وسیع میدان میں ایسے تخت کب رکھے گیے تھے اور ایک اور ایک مل کر گیارہ کب ہوئے تھے۔ اب تو پورا میدان گویا تخت بہ تخت نظر آتا تھا۔ حد نظر تک بچھے تخت۔

کئی چھوٹے چھوٹے تخت بھی معرفت کی منازل طے کر رہے تھے۔ ایسی معرفت جہاں ایک ہاتھ سے وصولنے میں دوسرے ہاتھ کی خموشی گہری ہونے لگتی۔ جہاں معرفت کی بیری اگتی وہاں بھر بھر نوٹوں کی برسات ہوتی جس کی رم جھم میں بین سنائی دیتے۔ کچھ مقامات کی معرفت بس یہ ہی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کچھ تخت تو گویا آسمان چھو رہے ہوں۔ ہر طرف اڑتی دھول نے "دھول دھپا" کا سماں تخلیق کر دیا تھا۔ کتنے ہی ہاتھ تھے جو رنگ برنگ تخت کو تھامے ہوئے تھے۔ کم زور، مضبوط، تھکے ہوئے، بٹے ہوئے، حرام حلال کی تمیز کیے بنا استخوانی ہاتھ جو تخت کو اٹھائے رکھنے کی خاطرخون پسینہ کیے جاتے تھے۔

جے ڈی ریٹ کلف ہاتھوں کے کہانی میں لکھتے ہیں کہ یہ ہاتھ ہی ہیں جو سب سے پہلےگرمی، سردی، نرمی، سختی درد یا راحت کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ حساسیت جسم کے کسی دوسرے حصے میں نہیں پائی جاتی۔ ہاتھ کے ہر مربع انچ کے اندر اعصاب کے ہزاروں آخری حصے موجود ہیں خاص طور پر انگلیوں کے سروں یا پوروں میں تو ا ن کا بہت بڑا جال پھیلا ہوا ہے۔ یہ ہاتھ اپنی طاقت اور وجود سے بے خبر پھیلے ہوئے تھے۔ تماشا دکھانے والے کٹھ پتلی کےہاتھ، پیر اور گردن کو مختلف ڈوریوں کی مدد سے حرکت دیتے ہیں۔ یہ ہاتھ بھی کٹھ پتلی کی طرح کام کر رہے تھے۔

آقا دماغ ڈوریوں کی مدد سے اپنے احکامات کے مطابق ان ہاتھوں کی انگلیوں، جوڑوں اور پوروں کو حرکت دینے میں مشغول تھے۔ یہ ہاتھ دل سے فاصلے پر مضافات میں مقیم حالات کی گرد سے اٹے تھے۔ یہ گرد ہر شے پر جم چکی تھی اور اس کے ذریات کو لڑائی کا ایسا پاٹھ ازبر تھا جس کی شروعات میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ ایسا ماحول تخلیق کیا گیا تھا جس سے لگتا کہ درختوں کی چہ میگوئیاں پودوں کی زندگی دشوار بنا رہی ہیں۔

اصل میں ہوا کچھ یوں تھا کہ دلدلی علاقوں میں یا جہاں مٹی میں آکسیجن کی کمی تھی وہاں بہت سارے درختوں کی جڑوں نے آسمان کی جانب سفر شروع کر رکھا تھا اور انھیں احساس تک نہیں تھا کہ پودوں کو بھی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھیں زندگی کے لیے شوگر بھی چاہیے تھی۔ جس کے استعمال سے وہ انرجی پیدا کرنے کا عمل (Metabolism) جاری رکھ سکیں اور اپنے لیے زندگی کے تمام تر گوشوں کو انرجی پہنچاتے رہیں تاکہ زندگی چلتی رہے۔ اسی طرح درختوں کے آنسو جب مٹی کے اندر بہنے لگتے اور لگا تار بہتے چلے جاتے تو ان کی وجہ سے آکسیجن میں کمی ہونے لگتی اور جڑوں میں قدرتی طور پر پانی سے باہر نکل کر سر اٹھانے کی جدوجہد شروع ہوجاتی تاکہ ہوا سے براہ راست آکسیجن لی جاسکے۔

اس طرح ان جڑوں سے مختلف شکلیں بننے لگتی جو کبھی ہوا بردار ہوتیں اور کبھی حبس بردار۔ صف برداروں سے لے کر گروہ بردار تخت کو تختہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ سب جانتے تھے کہ تخت کے تو سائے ہوتے ہیں۔ تختے کا کوئی ایکب ھی سایہ نہیں ہوتا۔ امجد اسلام امجد نے سچ ہی تو کہا ہے کہ

وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے

سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے

ہجر کے سمندر میں تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے

یہ کہانی اپنے دامن میں سانحہ در سانحہ ڈیزائن بناتی جا رہی تھی۔ مخالف باغی گروپ ہر دور نعرہ باز تھا کہ کب تخت اچھالے جائیں اور انارکی پھیل جائے۔ تخت اور تختہ بنانے والوں کی ذہانت کو سو توپوں کی سلامی قبول ہو۔ یہاں تخت سے مراد تخت ہزارہ نہیں نہ ہی تختہ پھانسی گھاٹ ہے۔ یہ تخت وہ تخت ہے جس کے نچے دو بندے بھی کھڑے ہو کر زور لگائیں تو تختہ بن جاتا ہے۔ جاہل ملک دشمن تختے بنانے میں مگن ہیں اور ہم سب سکوت کی بجائے "سقط"کے عالم میں ہیں۔

سقط ایسے شخص کے بارے میں بولتے ہیں جو اچھی چیز کی خواہش کرے مگر ہلاکت میں پڑ جائے۔ کہاوت ہے کہ رات کے کھانے نے اسے بھیڑیے کے پاس پہنچا دیا۔ ساکت اور ساقط قوم کو بھیڑیے کی پہچان نہیں۔ شوروغل کی ہر کہانی مرگ انبوہ پر ختم ہوتی ہے۔ شعور و آگہی سے خالی اس شور مچاتی قوم کے غم بہت زیادہ ہیں۔ تحفظات بھی ہیں لیکن حسن بیان کا سلیقہ نہیں۔ قوم کے ایک ایک فرد کے پاس شکوہ شکایات کا ایک انبار ہے۔ جس کو اس نے اپنی بد دیانتی اور بے عملی کی چادر سے ڈھانپ رکھا ہے۔ ہمارے اپنے پاس ایسے ہزاروں حل موجود ہیں۔ لیکن یوم آزادی ناچتے گاتے گزر جاتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ طے کر لیں کہ ہمیں اپنے حق کے لیے اپنی جگہ، اپنے مقام اور اپنے گھر میں حقوق و فرائض کی جنگ لڑنا ہے یا سوشل میڈیا پر فوٹو شاپ اور ایڈیٹنگ کے ذریعے اپنی محرومی دکھانا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اپنا سبق یاد رکھیں اور تعمیری خوب صورتی کے زندگی پرور مناظر کی تہہ میں موجود خاموشی کو زبان دینے کی کوشش کریں۔ کنکروں اور پتھروں کی زبان سے منظر کو بگاڑنے کی بجائے مکالمہ سیکھنے کی کوشش کریں جس کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ یہ ملک جنت نظیر ہے جس کی محافظ فوج ہے۔ جس کا شکریہ واجب ہے۔ چاند ہے، ساتھ اس کے ستارے بھی ہیں۔

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat