والدین کی بدنامی
24 اپریل کو اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں کامسیٹس یونیورسٹی کا کانوکیشن تھا۔ اس کانوکیشن میں جن طلبہ کو کو ڈگری ملنی تھی۔ سو میں اور میری اہلیہ نے بھی کراچی سے آکر بہت سے دیگر والدین کے ہمراہ اس میں شریک ہونا تھا. میرے بھائی یعقوب عالم نے بھی کانوکیشن میں شرکت کی خواہش ظاہر کی تو میں نے شعبہ تعلیم سے وابستہ ایک دوست کے ذریعے اس کے لئے پاس حاصل کرنے کی سعی کی جو ناکام ثابت ہوئی۔ یہ بات حیران کن تھی کیونکہ عام طور پر کانوکیشن میں صدر پاکستان یا وزیراعظم کی آمد کی صورت میں بھی سکیورٹی کلیرنس کے بعد اضافی مہمانوں کو پاس جاری ہوجاتے ہیں۔ جبکہ کامسیٹس کی انتظامیہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا اور وجہ غیر معمولی سکیورٹی الرٹ بتایا تھا۔ ظاہر ہے غیر معمولی سکیورٹی الرٹ نے میرے تجسس کو جگا دیا۔ میں نے اسلام آباد میں سکیورٹی ذرائع سے سن گن لی تو پتہ چلا کہ پی ٹی آئی حکومت کو حالیہ سیاسی صورتحال میں وزیراعظم اور صدر مملکت پر جوتا اچھالے جانے کا شدید خدشہ لاحق ہے اور حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اگر اس طرح کا کوئی واقعہ ہوا تو یہ حکومت کے زوال کی رفتار کئی گنا بڑھا دے گا۔ میں 24 اپریل کی صبح کنونشن سینٹر کی گیلری میں اپنی نشست پر بیٹھا تو پورے ہال کا جائزہ لیا۔ میں نے نوٹ کیا کہ ہال کے عین وسط میں صوفوں کی دو قطاریں ہیں جن پر یونیورسٹی کی ٹاپ مینجمنٹ نے جلوہ افروز ہونا تھا جبکہ ان صوفوں کے پیچھے ہال کی وہ نشستیں خالی تھیں جو ڈیکسز کی قطاروں کا حصہ ہیں۔ خیال تھا کہ کچھ دیر میں یہ نشستیں بھی بھر جائیں گی مگر جب تقریب شروع ہوئی تو ان میں سے صرف پندرہ بیس نشستیں ہی پر ہوئیں اور یہ پندرہ بیس شرکا بھی بہت ہی معمر افراد تھے جن کی تقریب میں دو آنے کی بھی دلچسپی نہ تھی۔ ان پندرہ بیس معمر شہریوں کے سوا مرکز میں بائیں جانب ان بیس پچیس طلبہ کو بٹھایا گیا تھا جنہیں نمایاں کارکردگی پر میڈلز ملنا تھے۔ مہمانوں اور ڈگری پانے والے طلبہ کو بالائی منزل کی گیلریوں میں بٹھایا گیا تھا۔ گیلریاں طلبہ اور مہمانوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھیں۔ کسی بھی تقرہب میں میزبان ادارے کی اولین ترجیح کنونشن سینٹر کے مرکزی ہال کو بھرنا اور اس کے بعد اضافی مہمانوں کو گیلریز میں کھپانا ہوتا ہے، مگر کامسیٹس کے کانوکیشن میں میزبانوں کی پہلی اور آخری ترجیح یہ رہی کہ طلبہ اور تمام مہمانوں کو مرکزی ہال کے اوپر واقع گیلریوں میں سمایا جائے۔ صدر عارف علوی مقررہ وقت پر ہال میں داخل ہوئے تو وہ جوتے کے کسی ممکنہ حملے سے مکمل طور پر یوں محفوظ تھے کہ جس رینج سے جوتا پہنچ سکتا تھا اس رینج میں یونیورسٹی سنڈیکیٹ اور گولڈ میڈلز پانے والے چند طلبہ کے سوا کوئی نہ تھا۔ ان کے علاوہ جو چند نہایت معمر افراد ہال میں موجود تھے تو انہیں بھی پچھلی قطاروں میں بٹھایا گیا تھا، جہاں سے 80 یا 90 سال کی عمر میں جوتا پھینکنا ممکن نہ تھا۔ میرا گمان ہے کہ یہ معمر افراد شاید کچھ "ریٹائرڈ پٹواری" یعنی سرکاری ملازمین رہے ہوں کیونکہ ان کی تقریب میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی تھی اور یونیورسٹی مینجمنٹ بھی ان سے مکمل طور پر لاتعلق تھی۔ اس منظرنامے میں اب میری سب سے بڑی دلچسپی یہ رہ گئی تھی کہ صدر عارف علوی تقریر کیا کرتے ہیں۔ کیا ان کی تقریر میں جھنجھلاہٹ ہوگی؟ غصہ ہوگا؟ یا وہ بہت ہی مختصر سی رسمی تقریر کرکے اس "پر خطر" ہال سے نکلنے کو ترجیح دیں گے۔ حیران کن چیز یہ تھی کہ صدر علوی کے چہرے پر کسی الجھن یا پریشانی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ میں میڈلز تقسیم کرنے کے بعد خطاب کے لئے روسٹرم پر آئے تو میں ان کی یوم پاکستان والی غلط تلفظ سے بھرپور جیسی ہی کسی تقریر کی توقع کر رہا تھا۔ مگر ان کی تقریر میں تلفظ کا کوئی گڑھا یا اٹکن کا کوئی سپیڈ بریکر نہ آیا تو قبل اس کے کہ میں جی ہی جی میں انہیں داد دیتا، میرے برابر میں بیٹھے یعقوب عالم نے سرگوشی کی"لگتا ہے صدر مملکت اس بار تقریر کی اچھی طرح مشق کرکے تشریف لائے ہیں "لیکن یعقوب عالم نے شاید غور نہیں کیا تھا کہ یوم پاکستان والی تقریر کے برخلاف صدر علوی آج لکھی ہوئی نہیں بلکہ فی البدیہہ تقریر کر رہے تھے جس کے صرف پوائنٹس وہ لکھ کر لائے تھے. چنانچہ ایک پوائنٹ سے دوسرے پوائنٹ کی جانب جاتے ہوئے وہ ایک نظر روسٹرم پر پڑے کاغذات پر ڈال لیتے۔ صدر عارف علوی نے تقریبا نصف گھنٹہ خطاب کیا جس کے اختتام تک میں کسی سیاسی جملے کا صرف انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ یہ اول تا آخر مکمل طور پر غیر سیاسی ہی نہیں بلکہ ایک ایسی تقریر جس پر حیرت ہی ہوتی رہی کہ کیا ایک سیاستدان بھی اس طرح کا علم و دانش سے بھرپور نہایت پرمغز خطاب کر سکتا ہے؟ یہ ایک ایسے دانشور کی تقریر تھی جس کے مخاطب ایسے نئے پاس آؤٹ ہونے والے طالب علم تھے جنہیں کیریئر کے آغاز پر بھرپور رہنمائی، قیمتی نصیحتوں اور حوصلہ افزائی کی ضرورت تھی۔ اور یہ رہنمائی، نصیحتیں اور حوصلہ افزائی صدر عارف علوی کی تقریر وافر مقدار میں نظر آئی۔ ان کی مربوط تقریر کا تسلسل اور روانی دیکھنے کی چیز تھی۔ اگر مجھ جیسے پی ٹی آئی کے شدید ناقد سے انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کئی بار تالی پٹوا لی تھی تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ تقریر میں کس خوبی کی حامل رہی ہوگی۔ اس تقریر کے آغاز سے اختتام تک وہ صرف طلبہ سے ہی مخاطب رہے اور انہوں نے جتنی بھی گفتگو کی وہ ان طلبہ کے مستقبل سے ہی متعلق تھی۔ اپنے خطاب کے آخری مرحلے میں انہوں نے جو تین باتیں طلبہ کو پلو سے باندھنے کا مشورہ دیا ان میں ایک یہ تھی کہ تعلیم اور ڈگریاں آپ جتنی بھی حاصل کر جائیں، پہچان آپ کی وہ تربیت ہی رہے گی جو آپ کے والدین نے آپ کو فراہم کی ہے۔ لہٰذا عملی زندگی میں اگر آپ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں گے تو آپ کے والدین کی نیک نامی ہوگی لیکن اگر آپ کا دوسرے انسانوں سے رویہ تکلیف دہ ہوا تو بدنامی بھی آپ کے والدین کی ہوگی۔ آپ کی گفتگو اور کردار سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو آپ ایک ناکام انسان ہیں۔ صدر عارف علوی نے یہ نصیحت کی تو طلبہ کو ہے مگر کوئی شک نہیں کہ یہ اس وزیراعظم کے لئے بھی بہت کارآمد ہے جو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا ذکر "صاحبہ" کہہ کر کرتے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ صدر عارف علوی کو چاہئے کہ وہ فواد چوہدری اور ان جیسے کچھ دیگر رہنماؤں کو بھی پاس بلا کر سمجھائیں کہ اپنے والدین کی بدنامی سے گریز فرمائیں اور ایسی گفتگو نہ کریں جو کسی دوسرے انسان کے لئے تکلیف دہ ہو۔