تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی سیاست
لیجئے پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں کی فہرست جاری ہوگئی۔ ایسے ایسے نوجوان اس فہرست کا حصہ ہیں کہ سبحان اللہ! بات 70 سے 80 برس کے مابین والے "نوجوانوں " تک رہتی تو کیا کم تھا، لطف تو یہ ہے کہ بعض ان میں سے "نوخیز لڑکے" بھی ہیں۔ مثلاً مظفر گڑھ سے 80 سالہ غلام مصطفیٰ کھر، نارووال سے 81 سالہ نعمت علی جاوید اور شیخوپورہ سے 82 سالہ راحت امان اللہ جیسے نوخیز امیدواروں کے نام دیکھ کر ہمیں تو یقین ہوچلا کہ خان صاحب نے سوچا ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کو "نوجوان قیادت" سے رونق بخشی جائے۔ موٹے شیشوں والی عینک، آلہ سماعت اور مصنوعی بتیسی والی عمر کے یہ امیدوار پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے اپنی اس یوتھ کے لئے خصوصی تحفہ ہیں جو گالیاں دے دے کر ہمیں یقین دلایا کرتی تھی کہ عمران خان نوجوان قیادت سامنے لا کر پاکستان کی تقدیر بدل کر رکھدے گا۔ ہم نے بہت سمجھایا کہ اس طرح کے کاموں میں اس طرح نہیں ہوتا۔ تین سو بیس کنال کے شیش محل میں رہنے والا جب تبدیلی کی بات کرتا ہے تو لوگ سب سے پہلے ایک نظر اس کے اسی شیش محل پر ڈالتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جو تنہاء زندگی بھی تین سو بیس کنال کے محل میں گزارتا ہو وہ محلات والے کلچر کا باغی کیسے ہو سکتا ہے؟ اور یہی سوال انہیں سمجھا دیتا ہے کہ سیاست نگری میں اقتدار کا نیا شوقین داخل ہواہے جو چاہتا ہے کہ پانچ سال اس کی ناتجربہ کاری کی بھینٹ بھی چڑھا لئے جائیں۔ اس نسل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ فیس بک اور ٹویٹر کی دنیا سے باہر جھانکتی ہی نہیں۔ اگر کبھی یہی دیکھ لیا ہوتا کہ کسی پولنگ سٹیشن پر لگی قطاروں میں کس عمر کے لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے کھڑے نظر آتے ہیں تو اس نسل کو سمجھنے میں دیر نہ لگتی کہ ان کی قیادت کی تقریروں پر جلسوں میں تھرکتی نسل اور ہے جبکہ پولنگ سٹیشنز پر قطاروں میں کھڑی نسل اور۔ تب ذرا سی بھی عقل یہ سمجھانے کو بہت ہوتی کہ ووٹر کی عمر والے لوگ ہمارے جلسوں میں کیوں نہیں؟ جب جلسوں میں ووٹر ہی کشش نہیں رکھتا تو فتح کیسے ملے گی؟ اوپر سے یہ ستم کہ جو 2013ء کے الیکشن سے ایک ماہ قبل انہیں یہ بتا رہے تھے کہ"ہمارے سیاسی کلچر میں کسی غیر سیاسی گھرانے کے پڑھے لکھے ایماندار فرد کو ٹکٹ دینے کا رواج کبھی نہیں رہا۔ تحریک انصاف اپنے دوسرے دعوے پورے کرسکی یا نہیں، چھوٹے پیمانے پر سہی مگر یہ تبدیلی تو لے آئی"وہ اب 2018ء کے الیکشن سے ڈیڑھ ماہ قبل یہ لکھ رہے ہیں "خاکسار کے نزدیک اور کوئی راستہ بچا ہی نہیں تھا۔ مئی تیرہ کے تجربے نے ثابت کردیا کہ پاکستان کا سیاسی نظام جن ہاتھوں نے ہائی جیک کیا ہے، انہوں نے کھیلنے کے قاعدے قانون ہی بدل دیے ہیں۔ کراچی لاہور جیسے شہر چھوڑ کر پنجاب اور سندھ میں اب یہ الیکٹ ایبلز کا الیکشن بن گیا ہے"جب پانچ سال قبل خان صاحب نے نئے چہرے متعارف کرائے تو جم کر اس کی تعریف کردی گئی۔ اب خان صاحب نے اس پرانے تجربے کی ناکامی کے بعد الیکٹ ایبلز کے نام پر لوٹوں کا مینا بازار سجا لیا تو اس کی بھی داد دی جارہی ہے۔ حالانکہ اس تازہ ارشاد کا تو سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کا سیاسی نظام جن ہاتھوں نے ہائی جیک کیا ہے وہ ہائی جیکر ہاتھ خانصاحب نے اپنا کر گویا کمال کر دکھایا ہے۔ مگر سوال تو بنتا ہے کہ اگر پاکستان کے سیاسی نظام کو ہائی جیک کرنے والے ہاتھ اپنا کر انہی کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ دینا تھا تو "تبدیلی" کس کے خلاف لانی مقصود تھی؟ دو تہائی سے زیادہ پیپلز پارٹی سے آئے ہوئے اس بار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ نصف کے قریب قاف لیگ بھی اس بار پی ٹی آئی کی ٹکٹ ہولڈر ہے اور کمال یہ کہ ایک دو فیصد نون لیگئے بھی پی ٹی آئی کی طرف سے انتخابی میدان میں اترے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چل رہا ہے کہ پی ٹی آئی میں خود پی ٹی آئی والوں کو پچیس فیصد ٹکٹ ہی مل سکے۔ ووٹرز بخوبی سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں کو انہوں نے قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے مسترد کردیا انہی کے گلے میں عمران خان نے پی ٹی آئی کا مفلر ڈال کر "تبدیلی" کے نام پر بھیج دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ووٹر کو ایسا بے رحم فریب دینا خود کو ہی دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ہمارے بہت ہی مہربان دوست نے لکھا ہے کہ نون لیگ کے حامی رائٹرز کے دلوں میں اچانک پی ٹی آئی کے نظریاتی ورکرز کے لئے ہمدردی جاگ جائے گی کہ انہیں ٹکٹ کیوں نہیں دئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے نظریاتی ورکرز کے لئے کس بات کی ہمدردی؟ ان کو جب ہم سمجھاتے تھے کہ تمہیں کھیر نہیں فریب ملے گا، کھیر تو وہی لے اڑیں گے جن کے خلاف تم تبدیلی لانے کی کوشش رہے۔