’’مذاکرات کا مستقبل‘‘
مذاکرات اگر ایک ہی ریاست کی حکومت اور اپوزیشن کے مابین ہوں تب بھی ایسا کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بلا تعطل مذاکرات جاری رہیں اور کسی ڈیڈلاک کی نوبت نہ آئے۔ ڈیڈلاک بھی آتے ہیں، مذاکرات تعطل کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ لیکن وہ میزیں ایک بار پھر سجتی ہیں جہاں کڑیوں سے کڑیاں جوڑ کر نتائج تک پہنچنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ تعطل ہمیشہ اس فریق کی جانب سے آتا ہے جس کی گردن پھنسی ہو۔ اگر یہ ایک ریاست کے اندرونی مذاکرات ہوں اور اپوزیشن کی پوزیشن مظبوط ہو تو حکمران جماعت ریورس گیئر لگاتی ہے۔ اور اگر اپوزیشن کسی ایسے شرمناک موڑ سے دوچار ہوگئی ہو جہاں حکمران جماعت کو اس پر سیاسی بالادستی حاصل ہو تو پھر اپوزیشن ہی مذاکرات میں تعطل کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ پھر یہ بھی ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ تعطل کے اس دور میں بھی بیک ڈور رابطے رکھے جاتے ہیں۔ اور مذاکراتی میز پر آنے سے قبل پس چلمن کچھ منت سماجت چلتی ہے۔ اس منت سماجت کے نتیجے میں جو کچھ مانگا جاتا ہے اسے "فیس سیونگ" بھی کہتے ہیں اور "باعزت راستہ" بھی۔
طالبان اور امریکہ کے مابین جاری مذاکرات اس لحاظ سے بہت ہی نازک رہے ہیں کہ یہ کسی ریاست کی اندرونی سیاسی اکائیوں کے مابین نہ تھے۔ لھذا یہ کسی پرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والی دو ایسی سیاسی قوتوں کے مابین نہ تھے جو ایک دوسرے کی نہ تو خون کی پیاسی ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ کوئی مار دھاڑ کر رہی ہوتی ہیں۔ بلکہ یہ دو ایسی متحارب قوتوں کے درمیان تھے جو پچھلے بیس سال کے دوران ایک دوسرے کے خلاف لاکھوں ٹن بارود استعمال کرچکی ہیں۔ اس جنگ میں ہزاروں امریکی و دیگر غیرملکی فوجی مرے ہیں اور ہزاروں ہی کی تعداد میں طالبان اور افغان شہری بھی شہیدہوئے ہیں۔ امریکہ ایک ٹریلین ڈالرز سے زائد اس جنگ میں پھونک چکا ہے اور کامیابی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔ 2006ء کے بعد سے امریکہ اور برطانیہ نے باقاعدہ ڈاکومنٹریز بنا بنا کر یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ اس جنگ میں پاکستان سے ہمیں "سچا پیار" نہیں مل رہا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان کے ایئربیسز تک امریکہ کے ملٹری آپریشنز کے لئے استعمال ہورہے تھے۔ لاکھوں ٹن حربی ساز و سامان کی ترسیل کے لئے دو مکمل محفوظ سپلائی لائینیں چوبیس گھنٹے روبعمل تھیں۔ ایک فضاء سے گزرتی تھی تو دوسری زمین پر بلوچستان سے ہوکر جا رہی تھی۔ مگر امریکہ کو پھر سچا پیار نہ ملنے کا شکوہ پیدا ہوچلا تھا۔ اگلے چار پانچ سال تو یہ پاکستان سے سچا پیار حاصل کرنے کےلئے اسے اپنی پروپیگنڈہ وار کی مدد سے ڈرانے کی کوشش کرتے رہے، مگر سچا پیار نہ ملنے کی شکایت دور نہ ہوسکی۔ پھر انہیں یقین ہوچلا کہ یہ افغانستان کی دلدل میں گھٹنوں تک پھنس چکے ہیں۔ اور صورتحال اس قدر خوفناک ہے کہ کامیابی تو دور کی بات اب یہ اس دلدل سے بھی پاکستان کی مدد کے بغیر نکل نہیں سکتے۔ یوں 2011ء سے انہوں نے پاکستان کی یہ منتیں شروع کردیں کہ اگر سچا پیار نہیں دیتے تو پھر ہمیں محفوظ انخلا فراہم کرنے میں ہی اپنا کردار ادا کیجئے۔ جنرل کیانی ایکسٹینشن لے کر ان کے جرنیلوں کو سچے پیار کا یقین دلاتے رہے مگر یہ طالبان سے بات چیت کا دروازہ کھلوانے پر مصررہے۔ اس دوران امریکی اپنی کوششوں سے ملا برادر تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو پاکستان نے ملا برادر کو حراستی مہمان بنا لیا۔ یوں یہ دلچسپ تماشا شروع ہوگیا کہ جس پاکستان کو امداد ہی طالبان کو پکڑنے اور مارنے میں مدد کے نام پر دی جاتی تھی، اسی پاکستان سے درپردہ یہ مطالبہ شروع ہوگیا کہ "ملا برادر کو رہا کرو" اسی دوران ایک ایک کرکے سارے اتحادی بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ اور امریکہ افغانستان میں تنہاء رہ گیا۔
بش جیسا عیار اور اوباما جیسا مدبر آٹھ آٹھ سال حکومت کرکے ہر طرح کے جتن کر گئے مگر افغانستان کی دلدل میں مزید پھنسنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ صدر اوباما نے تو کئی امریکی جرنیل بھی ذلیل کرکے نکال دئے۔ مگر اتحادی فوج کا ایک بھی کمانڈر عظیم امریکہ کی عظمت کا لوہا افغانستان میں منوا نہ سکا۔ بالآخر وائٹ ہاؤس کو ایک ایسا صدر ملا جو خود امریکیوں کی نظر میں ہی مسخرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جس امریکی اسٹیبلیشمنٹ کو افغانستان پر فوکس رکھنا تھا اس کا سارا فوکس وائٹ ہاؤس کی جانب شفٹ ہوگیا۔ یوں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بجائے وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کا انخلا ان کی ترجیح بن گیا۔ ٹرمپ نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تو ہماری فیصلہ ساز قوتوں نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی۔ ٹرمپ انخلا کے لئے طالبان سے بات چیت شروع کرنے کی تیاری کرنے لگے تو امریکی اسٹیبلشمنٹ اس میں رکاوٹیں ڈالنے لگی۔ کیوں؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اچھی ڈیل کے لئے جتنی عقل درکار ہے اتنی ٹرمپ کے پورے خاندان کے پاس بھی نہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ جانتی ہے کہ پاکستان ٹرمپ جیسے "ذہین" صدر کو نعمت غیر مترقبہ کے طور پر لے رہا ہے اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ سو اس پورے پس منظر میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اب امریکی اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کا سلسلہ ٹرمپ کی بقیہمدت میں بحال نہیں ہونے دے گی۔ اس دوران اگر ٹرمپ نے خود ہی جلد یو ٹرن لے لیا تو اس کا بھرپور فائدہ پاکستان اٹھائے گا۔ لیکن اگر امریکی اسٹیبلیشمنٹ کامیاب رہی اور اگلے صدارتی الیکشن کے بعد تک مذاکرات لٹک گئے تو پھر بعید نہیں کہ پاکستان یہ کہہ کر اس معاملے کو مزید طول کی طرف لے جائے کہ ہم نے آپ کے طالبان سے مذاکرات شروع کرائے اور آپ ہمیں ہی اعتماد میں لئے بغیر دوحہ سے فرار ہوگئے؟ طالبان سخت ناراض ہیں، وہ اب ہماری نہیں سن رہے۔ ہم کس منہ سے انہیں دوبارہ میز پر آنے کا کہیں؟ دوسری طرف طالبان بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ تو عین دستخطوں سے قبل بھاگ گئے، آپ پر مزید بھروسہ کیسے کیا جائے؟ سو اس خطے کے امن کے لئے ٹرمپ کا یوٹرن بڑی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اگر یہ یوٹرن ہوگیا تو افغانستان کا معاملہ پرامن موڑ لے لے گا۔ لیکن اگر یہ یوٹرن ظاہر نہ ہوا تو پھر کچھ سال مزید خون ریزی ہوگی۔ ٹرمپ یوٹرن لے گا کہ نہیں؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ گوریلا جنگوں میں جنگ کا درجہ حرارت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ آنچ اب تک ہلکی رکھی گئی تھی کہ ضرورت ہلکی آنچ کی ہی تھی۔ لیکن محسوس یوں ہوتا ہے کہ اب آنچ بڑھانے کا موقع آگیا ہے۔ آنے والے دن افغانستان میں امریکہ کے لئے بہت خون ریز ہوسکتے ہیں !