مولوی، ناولز اور فلمیں
جس طرح بات سے بات نکلتی ہے اسی طرح بسا اوقات کالم سے کالم بھی نکلتا ہے۔ پچھلے کالم میں اپنے بڑے شوق اور ذوق دو گنوائے، ایک مطالعہ اور دوسرا فلمیں دیکھنامگر تفصیل صرف بچپن و لڑکپن کے مطالعے کی پیش کی۔ اس پر بعض قارئین نے فلموں کے حوالے تشنگی کا شکوہ کیا جب کہ نوجوان علماء نے اصرار کیا کہ مجھے نوجوانوں کو فلم جیسی "مضر" چیز سے بچانے کے لئے کوئی اصلاحی کالم لکھنا چاہئے۔ سو پیش خدمت ہے "اصلاحی کالم" آپ دو باتیں تو جانتے ہی ہوں گے۔ ایک یہ کہ میری پوری تعلیم مدرسے کی ہے، سکول کالج وغیرہ سے بالکل بھی پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ دوسری یہ کہ غیر نصابی مطالعے کی عادت مجھے سات برس کی عمر میں محلے کے کچرے کے ڈھیر سے لگ گئی تھی اور یہ ایسی لگی کہ کھانے کے بغیر تو گزارا ہوجائے مگر کتاب کے بغیر نہیں ہوتا۔ ایک تیسری چیز بھی ہے جس کا میں نے اپنے کالموں میں اتفاقاً ہی زیادہ ذکر نہیں کیا اور وہ ہے فلم بینی۔ کتابوں میں ایک بڑی تعداد ناولز کی ہے جو پڑھے، خاص طور پر 22 سال کی عمر تک تو 90 فیصد ناولز اور ڈائجسٹ ہی پڑھے۔ اس کے بعد البتہ ناولز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی۔ فلموں کا معاملہ یہ رہا کہ 1992ء تک آنے والی پنجابی کی تمام فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔ مصطفی قریشی اور اقبال حسن پر تو سمجھیں میں فدا تھا۔ اداکاراؤں میں انجمن بہت پسند تھیں۔ پتہ نہیں کیوں لیکن پاکستانی اردو فلمیں مجھے پسند نہ آئیں۔ اردو کی شائد بمشکل دس ہی فلمیں دیکھ رکھی ہوں۔ سب سے عجیب بات یہ کہ پٹھان ہونے کے باوجود پشتو کی پوری زندگی میں ایک ہی فلم دیکھی ہے اور وہبھی دیکھتے ہی توبہ کرلی تھی کہ آئندہ پشتو سینما کے تو سامنے سے بھی نہ گزروں۔ انگلش فلمیں لڑکپن میں زیادہ تر ننجا یا مارشل آرٹس کی ہی دیکھیں لیکن جب انگریزی سمجھ آنے لگی تو پھر انگلش فلمیں ہزاروں کی تعداد میں دیکھ ڈالیں، اور اس حوالے سے کہانی کو اہم ترجیح بنائے رکھا۔ انڈین فلمیں بھی ٹھیک ٹھاک دیکھ رکھی ہیں لیکن یہ ٹائم پاس کے ہی کام آئیں۔ انڈین سنیما کی پسند صرف آرٹ موویز ہی آئیں۔ اب نوجوان علماء سے جو کلیدی بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں اور میرا کام آپ کے سامنے ہے۔ ایک ایسا شخص جس کی تعلیم صرف مدرسے کی ہے اگر اس کی زندگی سے آپ یہ ناولز، غیر نصابی کتب اور فلمیں نکال دیں تو کیا وہ اپنی موجودہ حالت میں ہوتا؟ میرا تو خیال ہے کہ اگر میں کوئی فرقہ پرست مولوی نہ بھی ہوتا تو زیادہ سے زیادہ ایک ایسا مولوی تو ضرور ہی ہوتا جیسے ہمارے معاشرے میں بکثرت پائے جاتے ہیں کہ نہ سماج کی کوئی خبر اور نہ ہی اس کے مسائل کا کوئی ادراک۔ میں اللہ کا بےحد و حساب شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے دین کی نسبت ہی عطاء نہیں کی بلکہ ایک مولوی کا بیٹا پیدا کرکے مولوی ہی بنایا لیکن میں ان ناولز، غیر نصابی کتب اور فلموں کا بھی ممنون ہوں کہ اس "خرافات" اور میری دینی تعلیم کے کامبنیشن نے مجھے میری موجودہ ساخت عطاء کی ہے۔ ہمارے دینی ماحول میں ناولز اور فلموں سے سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ اس سے لوگ بگڑتے ہیں۔ اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے لیکن بگڑتے وہ ہیں جنہیں اپنے نفس پر کنٹرول نہ ہو اور جو ان چیزوں کو محض تفریح کے طور پر لیتے ہوں۔ میرے لئے ہر ناول سماجی مسائل کے فہم کی کھڑکی ثابت ہوا اور ہر فلم ایک کلاس روم۔ میری تشکیل میں قرآن و حدیث ہی نہیں Scent of a Woman جیسی فلموں کا بھی کلیدی کردار ہے۔ اس دنیا میں درست فیصلہ آپ ہی کر سکتے ہیں لیکن میرا تو خیال ہے کہ میں بگڑا نہیں بلکہ بنا ہوں اور یہ بننا اس لئے ممکن ہوا کہ میرا اپنے رب سے عہد تھا کہ میں کچھ بھی کر لوں گا لیکن دو کام کبھی نہیں کروں گا۔ ایک یہ کہ دین کے ساتھ کھلواڑ نہیں کروں گا اور دوسرا یہ کہ دین کو ذریعہ معاش نہیں بناؤں گا۔ میں نے آخری امامت اکتوبر 1994ء میں کی تھی اور جب دیکھا کہ جان چھوٹ نہیں رہی تو جامع مسجد صدیق اکبر گلشن اقبال بلاک 3 میں مغرب کی نماز پڑھا کر سیدھا صلوۃالحاجت کی نیت باندھ لی اور دعاء میں ایک ہی بات کی "میرے رب میرا رزق مسجد سے اٹھا لے" ایک ہفتے کے اندر اندر یہ دعا قبول ہوگئی اور اب تک اس کیقبولیت جاری ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کے ساتھ میری اس غیر متزلزل کمٹمنٹ کا صلہ میرے رب نے مجھے اس شکل میں عطاء فرمایا ہے کہ وہ فلمیں اور ناولز جو دوسرے دینداروں کے لئے بگاڑ کا امکان رکھتے ہیں میرے لئے وہ اعلیٰ درجے کی تعلیم ثابت ہوئے۔ اگر میری زندگی میں یہ ناولز اور فلمیں نہ ہوتیں تو میری یہ موجودہ ساخت بھی نہ ہوتی۔ میرے نزدیک دنیا کی ہر چیز کے مثبت و منفی دونوں استعمال ہیں۔ یہ آپ کی قوت فیصلہ پر منحصر ہے کہ آپ مثبت استعمال کی جانب جاتے ہیں یا منفی راہ اختیار کرتے ہیں۔ فلم بنیادی طور پر کسی بھی سماجی مسئلے کی تفہیم کے لئے ہوتی ہے اور جب سکرپٹ رائٹرز سے لے کر ایکٹرز تک فلم کی تخلیق سے جڑے لوگ مسئلہ اجاگر کرنے کے لئے شاندار کارکردگی دکھاتے ہیں تو اسے "آرٹ" کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے ذوق کی تسکین کے بھی کام آتا ہے۔ جب کسی ایکٹر کو آسکر یا نیشنل ایوارڈ ملتا ہے تو اسے یہ سبجیکٹ کو اجاگر کرنے کے حوالے سے اس کردار کے اعتراف کے طور پر ہی دیا جاتا ہے، سو اصل چیز وہ سماجی مسئلہ ہی رہتا ہے جسے اجاگر کرنا مطلوب ہوتا ہے۔ اب سوال یہ آجاتا ہے کہ اس بھلے کام کو عریانیت کی آلودگی سے کیوں متاثر کیا جاتا ہے؟ تو بات سیدھی سی ہے کہ معاشرے میں اکثریت ان کی ہے جو ان الائشوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور پروڈیوسرز فلم اکثریت کے ذوق کو پیش نظر رکھ کر بناتے ہیں۔ اگر علماء اصلاحی میدان میں محنت کرکے سماج میں اکثریت متقی لوگوں کی کردیں تو شرطیہ کہتا ہوں کہ فلم کی ہیروئین بھی برقع یا حجاب میں نظر آئے گی!