Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Riayatullah Farooqui
  3. Meri Zindagi Mera Ikhtiyar

Meri Zindagi Mera Ikhtiyar

میری زندگی میرا اختیار

آج کل کے بچوں کو "میری زندگی میرا اختیار" کا نعرہ بلند کر کے فیملی سے بغاوت کا چسکا تو لگ گیا ہے مگر اپنی ناتجربہ کاری کے سبب وہ یہ نہیں جانتے کہ ہمارے سماج میں یہ عملًا ممکن نہیں۔ کیونکہ ہماری سماجی رویات اسے سپورٹ کرتی ہیں اور نہ ہی ملکی قانون۔ اس کا اندازہ آپ اس مثال سے لگا لیجئے کہ ہمارے ہاں کوئی شخص جرم کرکے بھاگ جائے تو پولیس اس کی فیملی کے کچھ اہم افراد کو اٹھا لیتی ہے۔ وجہ اس کی یہ نہیں ہوتی کہ وہ ان فیملی ممبران کو شریک جرم سمجھتی ہے بلکہ یہ ہے کہ ہماری پولیس بھی جانتی ہے کہ بڑے سے بڑا مجرم بھی والدین، بھائیوں یا بیوی بچوں کے تھانے لے جائے جانے پر گرفتاری دے دیتا ہے۔ اور توقع کے عین مطابق گرفتاری مل بھی جاتی ہے۔ گویا پاکستانی معاشرے میں فیملی کی قدرو منزلت اور اس کا دکھ درد مجرموں میں بھی اتنا ہی پایا جاتا ہے جتنا شرفاء میں۔ اگر اس حوالے سے آپ مغرب کا جائزہ لیں تو اگرچہ وہاں فیملی ممبران کو حراست میں لینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو ٹام کی ماں الیزبیتھ تھانے میں پڑی پڑی مر جائے گی لیکن ٹام کبھی گرفتاری نہیں دے گا بلکہ خوش ہوگا کہ جان چھوٹی بڑھیا سے۔ ہمارے مشرقی ماحول میں خاندانی روایات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان روایات میں بہت سی اچھی چیزیں بھی ہیں اور کئی بری بھی ہیں۔ قرار نہ اچھی روایات کو حاصل ہے اور نہ ہی بری اقدار کو۔ یہ اقدار اور یہ روایات بھی ارتقا کے عمل سے گزرتی ہیں، اور اس کے نتیجے میں ان میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ یہ ردوبدل سوچ کی ترقی کا نتیجہ ہوتا ہے جس کا دارومدار یوں علم پر ہوتا ہے کہ جب سائنسی ترقی کے نتیجے میں نئی ایجادات سامنے آتی ہیں تو یہ نئے تقاضے بھی ساتھ لاتی ہیں۔ انہی تقاضوں کے نتیجے میں روایات میں تغیر و تبدل رونما ہوتا ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ تغیر و تبدل یکسر نہیں بلکہ تدریجاً رونما ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ ایک ہی ہلے میں ساری روایات روند ڈالیں۔ فرض کیجئے میں اپنی خاندانی روایات یہ کہہ کر کچلنا شروع کردوں کہ یہ میرا انفرادی عمل ہے اور مجھے اس کا اختیار ہے کہ میں کسی فیملی روایت کو نہیں مانتا۔ قریب کھڑے کسی خان صاحب کو روزہ لگا ہوتا ہے، میری یہ حرکت انہیں اتنی ناگوار گزرتی ہے کہ وہ آکر میرا قصہ ہی تمام کر جاتے ہیں۔ مجھے سندھ پنجاب اور بلوچستان کا تو نہیں پتہ البتہ ہم پختونوں کی روایات کے مطابق میرے پسماندگان کا بوجھ اب یا تو میرے بھائیوں پر آئے گا اور یا میرے سسرال پر۔ تو انصاف سے بتایئے کیا میرا اپنی فیملی روایات کو کچلنا نتائج کے باب میں میرا انفرادی عمل ثابت ہوا؟ اگر میرے اقدامات اور فیصلوں کے نتائج نے میرے آٹھ بھائیوں کو متاثر کرنا ہے تو پھر ان اقدامات اور فیصلوں کا مجھے انفرادی اختیار نہیں۔ مجھے ہر حال میں خاندان کو اعتماد میں لے کر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اب میری ہی زندہ مثال سے فیملی کی ایک برکت بھی دیکھ لیجئے۔ میرے بیٹے طارق محمود نے شروع سے طے کر رکھا تھا کہ اس نے انجینئر بننا ہے۔ جب انجینئرنگ کے لئے یونیورسٹی جانے کا وقت آیا تو میں کوئی بزنس مین تو تھا بھی نہیں لیکن حد یہ ہوئی کہ عین ان دنوں جاب لیس بھی تھا۔ میں نے اپنے بھائیوں میں سے ایک برادرم رحمت اللہ کو کال کی اور گزارش کی کہ اگر وہ داخلہ فیس اور ہر سمیسٹر کی فیس مقررہ تاریخوں پر مجھے بطور قرض دے سکیں تو بچہ انجینئرنگ کر لے گا اور ہم انشاء اللہ یہ قرض آنے والے وقت میں جتنا جلد ہو سکا لوٹا دینگے۔ رحمت اللہ نے مجھے کھری کھری سنادیں کہ آپ نے اپنے بچوں کو صرف اپنا کیسے سمجھ رکھا ہے؟ کیا یہ ہم سب کے بچے نہیں؟ اور اس کے بعد اپنا فیصلہ یہ سنایا کہ بچے کی تعلیم کے لئے قرض ایک چونی بھی نہیں ملے گی، آپ بچے سے کہیئے کہ اچھی سے اچھی یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرے، فیس میری ذمہ داری ہے۔ بچہ ماشاء اللہ آج الیکٹرانکس انجینئر بن گیا ہے اور اس کی تعلیم کا تمام خرچ اس کے چچا نے ہی اٹھایا ہے۔ اگر اس بحرانی دور میں مجھ بے روز گار کا بچہ میری بے روزگاری سے متاثر ہوئے بغیر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر گیا ہے تو یہ فیملی سسٹم کا کمال اور برکت ہے۔ اب ایسے میں کل کو میں کھڑا ہو کر اپنے فیصلوں سے اسی فیملی کو متاثر کرنے لگوں تو کیا یہ نمک حرامی نہ ہوگی؟ آپ کے انفرادی فیصلے تب تک انفرادی رہتے ہیں جب تک فیملی کو متاثر نہ کریں۔ جب فیملی متاثر ہوگی تو اس کے نتائج بھی آئیں گے اور آپ کو پھر ان نتائج کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ فیملی کے خلاف اکسانے والا یار دوست آپ کو فیملی کے خلاف جانے کا مشورہ تو دیدیتا ہے لیکن جب ان مشوروں پر عمل کے مہلک نتائج آتے ہیں تو سب سے پہلے وہی آپ کو چھوڑ کر فرار ہوتا ہے۔ وہ آپ کے ساتھ کافی پی سکتا ہے، کڑاہیاں کھا سکتا ہے اور سیر سپاٹے کر سکتا ہے لیکن مشکل میں آپ کے قریب یہ نہیں بلکہ وہ نظر آتے ہیں جنہیں آپ الو کے پٹھے سمجھتے ہیں یعنی فیملی کے لوگ۔ اگر آپ فیملی سے بغاوت کے جرم میں مبتلا ہیں تو آج ہی اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کر لیجئے ورنہ میری یہ بات لکھ رکھئے کہ وہ دن آپ کی زندگی میں آ کر رہے گا جس دن اللہ آپ کو اس فیملی کے سامنے لا کھڑا کرے گا اور آس پاس چلو بھر پانی بھی نہ ہوگا!

Check Also

Qomon Ke Shanakhti Nishan

By Ali Raza Ahmed