منظور پشتین کا امتحان
دسمبر 2017ء کے ابتدائی ایام میں وزیرستان سے یہ سنگین شکایت سامنے آئی کہ سکیورٹی ادارے کی گاڑی پر ہونے والے ایک دہشت گرد حملے کے بعد جائے وقوعہ کے قریب واقع گاؤں پر نصف شب کے دوران چھاپہ مارا گیا اور اس گاؤں کے لوگوں کو تنگ کیا گیا۔ اس مسئلے کو وزیرستان سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی کے سرگرم کارکن خالد داوڑ سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے لائے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کنفلکٹ زون کی خبریں مبالغہ آرائی پر مبنی ہونے کے سبب پہلے اعتبار اور پھر توجہ کھو دیتی ہیں۔ مبالغہ اور عسکریت لازم و ملزوم ہیں۔ اور یہ مبالغہ آرائیاں دونوں ہی فریق کرتے ہیں۔ مثلا عراق کے ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کی مبالغہ آرائی اور 90 کی دہائی میں چلنے والے کشمیر جہاد میں عسکری تنظیموں کی جانب سے ہر ہفتے کئے جانے والے وہ مبالغہ امیز دعوے جن میں ایک ایک حملے میں ڈیڑھ ڈیڑھ سو فوجی مارنے کی خبریں دی جاتی تھیں۔ انہی مبالغہ آرائیوں کے سبب اب یہ ایک مسلمہ عالمگیر سچ ہے کہ "میدان جنگ میں پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے" عسکری میدانوں کے تیس برس کے مشاہدے کا ہی نتیجہ تھا کہ میں نے خالد داوڑ کی فیس بک پوسٹ پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ نہیں کیا بلکہ علاقے میں اپنے پرانے تعلقات بروئے کار لاکر اس کی صداقت کو جانچا۔ جانچ میں واقعہ ایک حقیقت ثابت ہوا اور اس حوالے سے کوئی مبالغہ آرائی نظر نہ آئی۔ اب اگر اس پر لگا بندھا تحریری ردعمل دیا جاتا تو کوئی اسے توجہ نہ دیتا کہ کنفلکٹ زون کی خبروں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ 14 دسمبر 2017ء کو میں نے اپنی پوسٹ کی صورت یہ آواز بلند کردی۔ میں جانتا تھا کہ اس قسم کے واقعات کا نیشنلزم کے پرچارک ہمیشہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ ایسی کسی واردات کے تدارک طور پر آپریشنز سے متاثرہ پختونوں کا المیہ اٹھا کر دوستوں کے سامنے رکھدیا۔ گویا پختونوں کے مقدمے کی وکالت کے لئے " دوستوں سے اپیل" کی گئی۔ میں جانتا تھا کہ اگر دوستوں نے اس کی وکالت کی تو مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور نیشنلزم کا چورن بیچنے والے اس کا ناجائز فائدہ بھی نہ اٹھا پائیں گے۔ پوسٹ میں "چیخ" کا عنصر شامل کرنے کے لئے اس کا لب و لہجہ بہت جارحانہ رکھا گیا۔ چند دوستوں نے اس لب و لہجے پر تنقید بھی کی مگر فیس بک پر موجود دوستوں کی غالب اکثریت نے اس مقدمے کی بھرپور وکالت کی اور اس پوسٹ میں بلند کی گئی چیخ میں اپنی آواز شامل کرکے چیخ کی گونج کو مزید بڑھا دیا۔ اسی شام سینئر کالم نگار ہارون الرشید صاحب نے اس مقدمے کی تائید بھی فرمائی اور ساتھ ہی خبر بھی دی کہ آپریشن سے متاثرہ علاقوں سے ایسی شکایات آرہی ہیں اور اس پر ایکشن بھی ہونے والا ہے۔ 21 دسمبر کو ایک افسر متاثرہ گاؤں پہنچے اور علاقے کے ایک گرینڈ جرگے میں اہل علاقہ سے پیش آنے والے واقعے پر معذرت بھی کی اور آئندہ کے لئے اس طرح کے واقعات کے تدارک کا یقین بھی دلایا۔ نہایت قابل غور بات یہ ہے کہ جس روزافسر نے گرینڈ جرگے سے معذرت کی تب تک نہ پی ٹی ایم کا کوئی وجود تھا اور نہ ہی منظور پشتین یا علی وزیر نام کے کسی "لیڈر" کو کوئی جانتا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ فوج نے کسی پی ٹی ایم کے دباؤ میں آکر نہیں بلکہ پاکستان کے عام شہریوں کے احتجاج کو اہمیت دیتے ہوئے مسئلے کو مسئلہ بھی سمجھا اور سامنے آنے والی شکایت کو درست تسلیم کرتے ہوئے اس پر معذرت بھی کی۔ گویا فوج جائز شکایات پر کان دھرنے اور ان کے تدارک کی پالیسی پر عمل پیرا تھی جو نہایت اطمینان کی بات تھی۔ انہی دنوں کئی دوستوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں اور کمنٹس کی صورت اس بات کی بھی شہادت دی کہ آپریشن سے متاثرہ علاقوں میں قائم چیک پوسٹوں پر اہلکاروں کے رویے میں بھی مثبت تبدیلی آئی ہے۔ وزیرستان والے واقعے کے ایک ماہ بعد 13 جنوری 2018ء کو کراچی میں ایک پولیس افسر راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا۔ یہ واقعہ وزیرستان یا آپریشن سے متاثرہ کسی اور ایجنسی میں پیش نہیں آیا تھا لیکن دو چیزوں نے اسے وزیرستان سے جوڑ دیا۔ ایک یہ کہ مقتول "محسود" تھا اور دوسرا یہ کہ راؤ انوار نے نقیب اللہ کو "دہشت گرد" قرار دیدیا تھا۔ اس واقعے پر اٹھنے والا احتجاج سہراب گوٹھ سے اسلام آباد پریس کلب تک آیا تو یہاں منظور پشتین بطور لیڈر سامنے آئے اوراس واقعے کی بنیاد پر "پختون نیشنلزم" کے احیا کے لئے سرگرم ہوگئے۔ مسئلہ نقیب اللہ کا تھا اور نقیب اللہ کے والد فوج کی یقین دہانی کے نتیجے میں گھر چلے گئے۔ ظاہر ہے یہ منظور پشتین کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا، چنانچہ نقیب اللہ کے والد کے خلاف بھی زہر اگلنا شروع کردیا گیا۔ نوجوان منظور پشتین نے آپریشن سے متاثرہ علاقوں کو درپیش حقیقی مسائل کو اپنا ایجنڈا بنا لیا مگر واردات ان کے ساتھ یہ ہوگئی کہ افغان حکومت کی پشت پناہی رکھنے والے علی وزیر اور محسن داوڑ جیسے عناصر نے ان کی تحریک ہائی جیک کرلی۔ فوج نے منظور کی جائز شکایت کو تسلیم بھی کیا اور ان کے تدارک کے لئے فوری ایکشن بھی کیا مگر علی وزیر اور محسن داوڑ تو کسی اور ایجنڈے پر تھے۔ سو انہیں منظور پشتین کی ان تین شکایات سے کوئی غرض نہ تھی جو آپریشن سے متاثرہ علاقوں کے شہریوں کو لاحق مسائل تھے۔ علی وزیر اور محسن داوڑ کی دلچسپی تو ان "مسائل" میں تھی جو افغان حکومت کو پاکستان کی فوج سے لاحق تھے۔ چنانچہ فوج کے خلاف زہر افشانی روز کا معمول بن گئی۔ ایک تجزیہ کار کے طور پر میرے لئے یہ سوال بے پناہ اہمیت کا حامل ہے کہ کیا فوج نے آپریشن سے متاثرہ علاقوں کی جائز شکایات پر کان دھرے اور ان کا تدارک کیا؟ جواب اثبات میں ہے۔ اور اس حد تک اثبات میں ہے کہ جب پی ٹی ایم کا نام و نشان بھی نہ تھا تو محض عام شہریوں کے سوشل میڈیا احتجاج پر ہی دسمبر 2017ء میں معذرت کرلی تھی۔ اور جب منظور پشتین نے پی ٹی ایم قائم کرنے کے بعد ایسے مزید مسائل کی نشاندہی کی جو علاقے کے لوگوں کو لاحق تھے تو ان کے حل کے سلسلے میں بھی سنجیدہ اور بڑے اقدامات کئے۔ گویا منظور پشتین کے ایجنڈے کو اہمیت بھی ملی اور ان کے پیش کردہ مسائل کے حل کا سنجیدہ آغاز بھی ہوا مگر علی وزیر اینڈ کمپنی کا ایجنڈا تشنہ تکمیل رہ گیا۔ اور یہ ایجنڈا وزیرستان کے شہریوں سے نہیں بلکہ افغان حکومت کو درپیش مروڑ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ علی وزیر اور محسن داوڑ کی شرانگیزیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اب پی ٹی ایم کی حیثیت مظلوم شکایت کنندہ کی نہیں بلکہ اس فریق کی ہوگئی ہے جس سے ریاست کو شکایات ہیں۔ ایسے میں کسی کو اچھی لگیں یا بری مگر آپشنز دو ہی رہ جاتی ہیں۔ یا تو منظور پشتین اپنی تنظیم سے لاحق شکایات کو اسی سنجیدگی کے ساتھ دور کریں جس سنجیدگی کے ساتھ ان کی شکایات دور کی گئیں یا پھر ریاست این ڈی ایس کے ایجنڈے سے نمٹے۔ گزشتہ ہفتے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں اور گزشتہ روز پشاور میں خیبر پختون خواہ کی یونیورسٹیز کے طلبہ سے خطاب میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسی جانب واضح اشارہ دیا ہے۔ سو امتحان اب منظور پشتین کی قیادت کا ہے کہ وہ پی ٹی ایم سے لاحق شکایات کا ازالہ کر پاتے ہیں یا نہیں؟ اس امتحان میں منظور پشتین کو کامیاب ہونا پڑے گا کیونکہ اب پی ٹی ایم کی حیثیت شکایت کنندہ کی نہیں بلکہ تجاوز کرنے والے کی ہے۔ اب شکایات دور کرنے کی باری منظور پشتین کی ہے!