کابل کا وظیفہ خوار
کل شب کسی نیوز چینل پر کراچی میں منعقد ہونے والے ایک سیاسی سیمینار کے ٹکر دیکھنے کو ملے۔ ٹکرز کے مطابق مقررین نے باچا خان اور ان کے فرزند خان عبدالولی خان مرحوم کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ ایسے فرزندان حر صدیوں میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔ مقررین نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان دونوں رہنماؤں کی خدمات کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی کیونکہ وہ تاریخی طور پر ناقابل فراموش ہیں۔ ان ارشادات کے پس منظر میں ایک معصوم سا سوال ہے کہ باچا خان اور ان کے فرزند کی "خدمات" کو دو ممالک کے عام شہری اور دہلی کے چند خواص کے سوا اس گلوبل ورلڈ میں جانتا کون ہے؟ پورے گلوب کو بھی چھوڑ دیجئے، صرف عالم اسلام کی سطح پر بھی دیکھا جائے تو ہمارے مسلمان عرب پڑوسی بھی ان کی مزعومہ خدمات سے کتنے آگاہ ہیں؟ اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں ان دونوں ہستیوں سے زیادہ ہمارے کچھ فنکار گلوبل تعارف رکھتے ہیں تو پھر ان حضرات کی خدمات عظمت کے اس مقام سے بہت دور ہیں جس کے لئے "تاریخی طور پر ناقابل فراموش" جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ مجھے اس بات سے ہرگز انکار نہیں باچا خان اور خان عبد الولی خان پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے نیشنلسٹ لیڈر تھے مگر ان کے مرتب کردہ اثرات کو کسی طور بھی مثبت یا تعمیری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاریخی طور پر ہماری سیاسی قیادت تین گروپوں میں بٹی رہی ہے۔ ایک وہ گروپ رہا ہے جس نے ہمیشہ قومی سیاست کی، انہوں نے ان ایشوز کو اپنے اغراض و مقاصد بنایا جو ملک کے ہر شہر و قصبے میں رہنے والے شہریوں کے مسائل ہیں۔ جب وہ بات کرتے ہیں تو "عوام" لفظ کا استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کی مراد ملک کے طول و عرض میں پھیلے تمام شہری ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ گروہ ہے جو مذہب کی بنیاد پر سیاست کرتا ہے۔ ان کے اغراض و مقاصد عوامی کے بجائے مذہبی ہوتے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ عوام پر مہنگائی یا کوئی اور سیاسی آفت نہ آنے دی جائے گی بلکہ ان کا دعوی ہوتا ہے کہ اسلام پر آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مہنگائی یا بیروزگاری جیسے عوامی مسائل پر تو یہ چند درجن یا چند سو افراد کا مظاہرہ فرما کر خانہ پری کر لیتے ہیں لیکن جوں ہی کوئی مذہبی ایشو انہیں مل جائے یہ ملین مارچ سے کم پر قانع نہیں ہوتے۔ یہ 70 لاکھ کی گاڑی سے اتر کر کسی شانِ اسلام کانفرنس کے سٹیج پر چڑھ جاتے ہیں جہاں یہ خود کو بوریہ نشیں فقیر بتا کر یہ خوفناک خبر دیتے ہیں کہ جو اسلام قیامت تک کیلئے آیا تھا اس کا قیامت تک پہنچنا خطرے سے دوچار ہوگیا ہے اور جسے بچانے کے لئے بس وہی من جانب اللہ مامور ہوئے ہیں، سو اسلام کو بچانے کیلئے لازم ہے کہ ان کا ساتھ دیا جائے۔ قائدین کا تیسرا گروہ وہ ہے جو لسانیت کی بنیاد پر سیاست کرتا آرہا ہے۔ ان کے اغراض و مقاصد ایک خاص قوم کی حد تک محدود ہوتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں عوام یا اسلام کے بجائے ایک خاص لسانی حلقے کا ذکر ملتا ہے۔ انہوں نے جو بھی چاند تارے توڑ کر لانے ہوتے ہیں وہ بس ایک خاص قوم کے لئے ہی لانے ہوتے ہیں۔ باچا خان اور خان عبد الولی خان مرحوم اس تیسرے گروہ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان کا ذکر سن کر فوری طور پر جو دیگر نام ذہن میں آتے ہیں وہ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو یا نواز شریف نہیں ہیں بلکہ نواب خیر بخش مری، عطاء اللہ مینگل اور جی ایم سید وغیرہ ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ تو یہ کوئی قومی سطح کا ایجنڈا رکھنے والے لیڈر تھے اور نہ ہی انہیں "عوام" یعنی پاکستان کے جملہ شہریوں سے کوئی غرض تھی۔ یہ دشتِ سیاست سے عنقا کے جو بھی غول کے غول شکار فرماتے "پختونوں " کے لئے ہی فرماتے۔ اب یہاں ایک اور دلچسپ حقیقت دیکھتے جایئے کہ سیاسی قائدین کا پہلا گروہ کچھ ایسی ٹھوس چیزوں کے وعدے کرتا ہے جو خارج میں مادی وجود رکھتی ہیں۔ مثلا روزگار، بجلی، مواصلات، تعلیم اور صحت وغیرہ جبکہ ان کے برخلاف مذہبی یا لسانی قائدین کے پاس ٹھوس کچھ نہیں ہوتا۔ ایک نے روحانیت کے معاملات سنبھال رکھے ہیں تو دوسرے نے "حقوق" کا لولی پاپ۔ قائدین کا اولین گروہ عوام سے ووٹ مانگتا ہے اور اس کے بدلے اپنی ٹھوس چیزوں کا وعدہ کرتا ہے۔ جبکہ مذہبی یا لسانی قائدین ووٹ سے زیادہ زور "قربانی" پر دیتے ہیں۔ انہیں اپنے پیروکاروں سے سب سے پہلے قربانی چاہئے اور اس قربانی کے بدلے بھی ایک نے "جزائے خیر" دینی ہے جبکہ دوسرے یعنی باچا خان والے گروہ نے وہ سبز باغ دینے ہوتے ہیں جہاں ہر طرف عنقا پرندے کے غول اڑ رہے ہیں۔ میں ماننے کو تیار ہوں مگر مجھے بتایا تو جائے کہ آخر وہ کیا کچھ ہے جو ایک پختون کے طور پر مجھے باچا خان یا ولی خان سے ملا ہے اور جو اتنا زیادہ ہے کہ "تاریخ میں ناقابل فراموش" ہے؟ باچا خان، ولی خان، نواب خیر بخش مری، جی ایم سید، عطاء اللہ مینگل، رسول بخش پلیجو، قادر مگسی اور الطاف حسین نے سوائے نسلیں تباہ کرنے کے اور کیا کیا ہے؟ آپ لیاقت علی خان سے لے کر عمران خان تک آجائیں، ہر وزیراعظم نے کچھ نہ کچھ قوم کو دیا ہی ہے۔ جھگڑا کم یا زیادہ کا ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کہ ہر ایک نے کچھ نہ کچھ ٹھوس چیز قوم کو دی ہے۔ کیا قوم پرست لیڈر بھی کوئی ایسی ٹھوس چیز دکھا سکتے ہیں جو انہوں نے اپنی لسانی اکائی کو دی ہو؟ آپ غفار خان سے لے کر منظور پشتین تک آجائیں سوائے سراب، سبز باغ اور عنقا کے حرام ہے جو انہوں نے کچھ دیا ہو۔ قربانیاں ان سب نے اپنی اپنی قوم سے وافر لے رکھی ہیں۔ خیر بخش مری سے لے کر نواب بگٹی تک ہر بلوچ قوم پرست نے معصوم بلوچوں کو مروایا، جی ایم سید سے لے کر قادر مگسی تک سندھی قوم پرستوں نے معصوم سندھیوں کی جانیں ضائع کیں، الطاف حسین نے مہاجروں کی پوری ایک نسل تباہ کردی اور ولی خان سے لے کر منظور پشتین تک پختون قوم پرستوں نے بھی سوائے معصوم جانیں ضائع کرنے کے کچھ نہیں کیا۔ اگر کچھ کیا تو بس یہ کہ پاکستانی عوام کی قومی وحدت کو پارہ پارہ کرکے اجتماعی عوامی حقوق کے حصول کی منزل کھوٹی کی، وہ حقوق جو آئین نے طے کر رکھے ہیں، اور جنہیں اجتماعی شعور اور جدوجہد کے ذریعے حاصل کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ اور جو مجھے کسی قوم پرست نے نہیں بلکہ قومی وحدت کی بنیاد پر سیاست کرنے والے رہنماؤں نے دینے ہیں۔ ماضی میں بھی قومی وحدت کے علمبرداروں نے دیئے ہیں سو مستقبل کی امید بھی انہیں سے ہے۔