بیوقوف، سمجھدار اور پاگل
خرد کی زبان سے قدرتی آفات پر انسان کا سب سے بڑا دشمن ہونے کا الزام بارہا سنا ہوگا۔ اور یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جب یہ الزام گونجتا ہے تو سننے والے پورے جوش و خروش کے ساتھ اس کی تصدیق میں سر ہلاتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر اصل حقیقت دیکھی جائے تو روح کانپ اُٹھتی ہے۔ چھ بڑی قدرتی آفات، قحط، سیلاب، طوفان، زلزلہ، سونامی اور گرمی نے انسانی تاریخ میں جو بڑی تباہیاں مچائی ہیں اگر ان کے مجموعی عدد کو دیکھیں تو 10 کروڑ 28 لاکھ انسانوں کا قتل ان کے گلے پڑتا ہے، جبکہ تاریخ کی صرف بڑی جنگوں اور قتلِ عام کے اعداد شمار جمع کئے جائیں تو حضرتِ انسان نے صرف ان دو قسم کے واقعات میں 58 کروڑ 64 لاکھ قتل کئے ہیں۔ چلئے جانبداری سے کام لیتے ہیں اور انسان کو ایک بڑی رعایت دیتے ہوئے تاریخ کے سب سے بڑے قدرتی قاتل وبائی امراض کا گوشوارہ طلب کرتے ہیں۔ وبائی امراض نے اپنے دس بڑے حملوں میں 24 کروڑ 75 لاکھ لوگ قتل کئے ہیں۔ اب ان سات بڑے قدرتی قاتلوں کا مجموعی عدد 35 کروڑ تین لاکھ قتل بنتا ہے جو انسان کے جنگی کارناموں سے اب بھی 23 کروڑ 61 لاکھ کم ہے۔ پھر اس بات کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ قدرتی آفات کو روکنا تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود انسانی بس سے باہر ہے، پھربھی وہ سالانہ اربوں ڈالر اسکی روک تھام کے طریقے ڈھونڈنے پر صرف کرتا ہے، جبکہ وہ جنگ جس کا یہ تنہا ذمہ دارہے اور جو اس کی سب سے بڑی قاتل ہے، اسے شروع کرنے کے لئے یہ بہانے ڈھونڈتا ہے، اب اگر سہیل وڑائچ سے انکا زبان زدِ عام جملہ مستعار لوں تو یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیایہ کھلا تضاد نہیں؟ جنگ شروع بہت آسانی سے ہوجاتی ہے، تکبر، اَنا اور معاشی مفادات اسکا دیباچہ بنتے ہیں، تاریخ کھنگال ڈالئے ماہر سے ماہر جنگی ماہرین نے بھی جنگ کے آغاز سے قبل اس کے اختتام کے لئے جتنے بھی اندازے لگائے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جنگ شروع تو اپنی مرضی کی تاریخ پر کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے اختتام کی تاریخ تلاش کرتے جرنیلوں کو اندھیرے نگل جاتے ہیں۔ انسانیت کا سب سے بڑا قتل عام کرنے والے منگول آج کی دنیا میں اجنبی ہیں۔ وہ صرف تاریخ کے مدفن میں ملتے ہیں۔ تاریخ کا ایک بڑا قتلِ عام کرنے والے جاپانی آج سب سے زیادہ نفرت جنگ سے ہی کرتے ہیں۔ تاریخ کے دو بڑے قتل عام سہنے والے چینی جنگ سے گریز کی حکمتِ عملی پر کار بند ہیں۔ اور یہ دونوں ہی قومیں سیاسی عظمت اور معاشی ترقی کی راہ کے سب سے تیز مسافر ہیں۔ آج کی دنیا میں امریکہ اور برطانیہ کے بعد کوئی تیسرا ملک دکھائے جس نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد جنگ پر رکھی ہو!۔ ساٹھ سال تک امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہونے والے یورپ کو بھی یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ جنگ نہیں تعلقات کے ذریعے فائدے کے حصول کا دور آپہنچا ہے۔ یہ بات سمجھ آتے ہی اس نے امریکہ اور برطانیہ کو افغانستان میں تنہا چھوڑ کر گھر کی راہ لی تھی کہ نہیں؟ امریکہ میں تین ہزار لوگ نائن الیون میں مرے تو وہ چوالیس ملکوں کی مدد سے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ تکبر اس درجے کا کہ ہم جیسے نحیف سے پوچھا "میرے ساتھ ہو یا میرے خلاف؟ " ہم نے ایسا ساتھ دیا کہ گھٹنوں تک افغان دلدل میں پھنسا کر اس کی حالت یہ کردی ہے اگر ہاتھ جوڑ کر ہم سے مزید ساتھ نہ دینے کی اپیل کرتا ہے تو مرتا ہے اور مزید ساتھ مانگتا ہے تب بھی مرتا ہے۔ اس کے غرور کا سر اس سے زیادہ اور کیا نیچے ہوگا کہ یہ افغانستان پر چڑھائی کے چند ماہ بعد بون کانفرنس سے فیصلہ یہ کروا کر اٹھا کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک افغانستان میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔ اور آج حالت یہ ہے 2008ء سے 2018ء تک کے ان دس سالوں میں وہ ہماری یہی منتیں کرتا جارہا ہے کہ فار گاڈ سیک طالبان سے ہمارے مذاکرات کروا دیں۔ یعنی بون کانفرنس کے اعلامئے کے ذریعے ہمیں جس مداخلت سے روکا تھا، اسی مداخلت کا پچھلے دس سال سے تقاضا چل رہا ہے۔ ایک کھرب ڈالرز سے اوپر خرچ کرنے کے باوجود آج حالت یہ ہے کہ امریکہ سے آنے والے حکام کو کابل ایئرپورٹ سے اپنے سفارتخانے تک جانے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہرگز نہیں کہ ہیلی کاپٹر کا خرچ فی گھنٹہ صرف پچاس روپے آتا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ کابل شہر کی سڑکوں کو اپنے لئے غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ جی ہاں ! اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل این جی اوز کا سٹاف کابل شہر میں نقل و حرکت کی لوگر میں بیٹھے طالبان کمانڈر سے پیشگی اجازت لیتا ہے، جس کے لئے رابطے کا ایک باقاعدہ نظام کار وضع کیا گیا ہے۔ یہ سب دیکھ اور سن کر ہنسی چھوٹتی ہے کہ اس ماڈرن ورلڈ میں اگر امریکہ جیسی سپر طاقت کی بھی اوقات یہ رہ گئی ہے تو خدا کسی کو سپر طاقت ہی نہ بنائے۔ اگر یاد ہو تو گزشتہ برس اگست میں ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے ایک گیدڑ بھبکی داغی تھی۔ سال بعد 2018ء کا اگست ہمیں یہ احساس دلا کر گزر گیا کہ امریکہ کا مسلسل تیسرا صدر بھی افغان معاملے میں بے بس ہے۔ بش بیوقوف اور اوباما دانشور تھا جبکہ ٹرمپ پاگل ہے۔ یوں گویا افغان مسئلے کا من چاہا حل پانے میں امریکہ کے بیوقوف، سمجھدار اور پاگل تینوں ہی فیل ہیں !