13 جولائی کا انتظار
جمہوری نظام اور اس کا لازمی جزو یعنی سیاسی جماعتیں برٹش راج کی دین ہیں۔ یوں تو برٹش راج کے آخری سالوں میں کئی سیاسی جماعتیں وجود میں آچکی تھیں لیکن جو اپنے پورے تاریخی تسلسل کے ساتھ آج بھی پورے قد کے ساتھ موجود ہیں وہ بھارت کی کانگریس اور پاکستان کی مسلم لیگ ہیں۔ ہر چند کہ مسلم لیگ کا قیام غیر منقسم ہندوستان میں عمل میں آیا تھا لیکن ظاہر ہے کہ تحریک پاکستان کی کامیابی کے ساتھ یہ آل انڈیا مسلم لیگ سے پاکستان مسلم لیگ بن گئی۔ پاکستان کے سیاسی مستقبل نے کشمکش کی جو افسوسناک شکل اختیار کی اس میں پاکستان کے ابتدائی سالوں، مسلم لیگ اور سیاسی جرنیلوں کا کردار بہت اہم ہے۔ میری مراد صرف وہی جرنیل ہیں جو حلف تو سیاست میں ملوث نہ ہونے کا اٹھاتے ہیں لیکن کیریئر وہ کسی سیاستدان والا ہی جیتے ہیں۔ جہاں تک غیر سیاسی یعنی خالص پیشہ ور جرنیلوں کا تعلق ہے تو انہیں اس قوم نے پہلے بھی سلیوٹ سے نوازا ہے اور آئندہ بھی نوازتی رہے گی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان پاکستان کے مستقبل کو غلط رخ پر ڈالنے کے سب سے بڑا ذمہ دار ہیں۔ اس ملک میں سیاستدانوں کے خلاف غداری کا کارڈ استعمال کرنے والے وہ پہلے فوجی سربراہ ہیں۔ اس ضمن میں نہ صرف یہ کہ انہوں نے مادر ملت فاطمہ جناح تک کو غدار قرار دیا بلکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد بھی انہوں نے ہی ڈالی۔ سیاسی عزائم والے ایوب خان کا ایک اہم اقدام پاکستان مسلم لیگ کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس کے مقتدرہ حصے پر قبضہ بھی ہے۔ اس زمانے کی مسلم لیگ گویا پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی سرمایہ تھی۔ کیونکہ یہ قائد اعظم کی وہی جماعت تھی جس نے پاکستان بنایا تھا اور قائد اعظم کی رحلت کے بعدبھی یہ تحریک پاکستان کے قائدین و کارکنوں کی منظم اجتماع گاہ تھی۔ ایوب خان بخوبی جانتے تھے کہ اگر مسلم لیگ منظم اور مستحکم رہی تو پاکستان کو ایسا جرنیلستان بنانا ممکن نہیں رہے گا جہاں جرنیل من مانیاں کر سکیں اور کوئی مزاحمت نہ ہو۔ چنانچہ اسی سوچ کے تحت انہوں نے ملک کی اس سب سے اہم ترین سیاسی اکائی پر حملہ کیا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اس کام میں ذو الفقار علی بھٹو پانی و بجلی، تجارت اور خارجہ امور کے وزیر کی حیثیت سے ایوب خان کے مشن میں شریک رہے۔ آج لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر کیوں نہ بن سکا۔ جب ایوب خان نے قائد اعظم کی اس جماعت کو ہی منتشر کردیا جو قائد اعظم کے خوابوں کی امین تھی تو خواب تو منتشر ہونے تھے سو ہوگئے۔ یہی مسلم لیگ اگلے مرحلے میں جنرل یحی خان کے کام آنی تھی مگر انہیں تو فرصت نہ تھی۔ لیکن جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ایوب خان کی میراث مسلم لیگ کو بھی پیر صاحب پگارا سمیت سنبھال لیا۔ پیر صاحب پگارا اس قدر وفادار ثابت ہوئے کہ ساری زندگی ہر دوسرے تیسرے ہفتے یہ ضرور فرمایا کرتے تھے "میں تو جی ایچ کیو کا آدمی ہوں " محمد خان جونیجو ضیاء الحق کی زیر قبضہ و پیرپگارا کی زیر صدارت مسلم لیگ کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ پیر پگارا تو پوری ایمانداری سے جی ایچ کیو کے آدمی رہے لیکن محمد خان جونیجو پکے جمہوری نکلے۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے جنرل ضیاء سے پوچھ لیا "وردی کب اتارو گے؟ " اور جنرل ضیاء کے اوسان خطاء ہوگئے۔ ضیاء نے اپنی مسلم لیگ سندھ سے پنجاب شفٹ کرنے کا فیصلہ کر تے ہوئے نواز شریف کے سر پر دست شفقت رکھ لیا اور یہی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ جس مسلم لیگ پر پچیس سال سے جرنیلوں کا قبضہ تھا وہ اب لمبے عرصے کے لئے واپس سیاستدانوں کی ہونے جا رہی تھی۔ ضیاء الحق کو تو قدرت نے اٹھا لیا جبکہ اسلم بیگ کا تو چل چلاؤ تھا ایسے میں اصل درد سر جرنیلوں کا ارسطو ہی تھا۔ نواز شریف نے سب سے پہلے تو جرنیلوں کو ان کے ارسطو جنرل حمید گل سے محروم کیا۔ جنرل صاحب افغان جہاد کی نسبت سے میرے لئے استاد کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں کہ آمروں کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی جرنیل وہی تھے۔ اور وہ اس کا برملا اعتراف بھی کیا کرتے تھے۔ ارسطو کے جانے کے بعد کی تاریخ تو نواز شریف کے حریفوں نے خود ہی ایک جملے میں سمیٹ رکھی ہے "نواز شریف نے کسی بھی آرمی چیف سے بنا کر نہیں رکھی" اسے دو بار اقتدار سے باہر کیا اور دوسری بار اس سے مسلم لیگ بھی واپس لینے کی کوشش یوں کر ڈالی کہ نون کی جگہ قاف لگاکر یہ جماعت چوہدری برادران کے سپرد کردی۔ وہ پانچ سال تک اس کا لطف لیتے رہے لیکن جب نواز شریف 2007ء میں واپس آئے تو جرنیل مسلم لیگ کو واپس نواز شریف کے کنٹرول میں جانے سے نہیں روک سکے۔ چوہدری برادران سیاسی یتیمی کا شکار ہوگئے، اور مسلم لیگ ایک بار پھر نہ صرف یہ کہ نواز شریف کی ہوئی بلکہ اسی کے پلیٹ فارم سے اس نے تیسری بار حکومت بھی کرکے دکھا دی۔ اب نہایت قابل غور بات یہ ہے کہ جرنیلوں نے 1962ء میں قائد اعظم کی جس مسلم لیگ پر قبضہ کرلیا تھا اس قبضے کو نواز شریف نے نہ صرف یہ کہ 1988ء میں جنرل ضیاء سے چھڑایا بلکہ جب جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر مسلم لیگ کو ایوب خان اور جنرل ضیاء کی میراث سمجھ کر واپس حاصل کرنے کی کوشش کی تو مشرف کے جبڑوں سے بھی اسے نواز شریف ہی چھڑا لایا۔ 1988ء سے سر توڑ کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح مسلم لیگ سیاستدانوں سے واپس حاصل کرلی جائے مگر وہ نواز شریف سے یہ جماعت چھین نہیں پا رہے۔ دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کی وہ پیپلز پارٹی جو عوام کی پارٹی کہلاتی تھی اور جس کی شناخت اینٹی اسٹیبلیشمنٹ جماعت کے طور پر تھی وہ زرداری کے ہاتھ لگنے کے نتیجے میں کن کے ہاتھ لگ چکی ہے سب جانتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات تو نہیں کہ جس مسلم لیگ کو نواز شریف نے مزاحمت کا پلیٹ فارم بنادیا ہے جبکہ بھٹو کی پیپلز پارٹی وہاں کھڑی ہے جہاں 1988سے قبل مسلم لیگ ہوا کرتی تھی۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ زرداری بوجھ اور نواز وزن ہے۔ جو وزن اور بوجھ کا فرق نہیں جانتے وہ 13 جولائی کا انتظار فرمائیں !