یورپ کی ڈائری
نسیم احمد باجوہ کا لندن سے فون آیا، میرے ایک کالم پر گفتگو کرتے رہے۔ میں انھیں بالکل نہیں جانتا تھا، فون پر پہلا تعارف ہوا، وہ وکیل ہیں۔ پچاس برس قبل لندن گئے اور وہیں کے ہوگئے مگر پاکستان کو دل سے لگا کر رکھا، اعلیٰ قلم کار بھی ہیں۔
پاکستان آئے تو ملاقاتیں شروع ہوگئیں، اب تو خیر میں ان کا واقف حال ہوں۔ عرض کرتا چلوں، لکھنا اور تنہائی لازم وملزوم ہے۔ محفل یاراں میں تحریر ممکن نہیں ہوتی۔ انسان کیوں لکھتا ہے، کیسے لکھتا ہے، کیوں سوچتا ہے، قطعیت سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
مغربی کلچر نے نسیم احمد کو مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصبات سے آزاد کردیا ہے اور یہ غیر معمولی تبدیلی ہوتی ہے۔ ورنہ مغربی ممالک میں برسوں رہنے کے باوجود اکثر لکھاری اپنی تحریروں میں ذاتی تعصب پر قابو نہیں رکھ پاتے۔
ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ملک میں سچ بولنا اور لکھنا جان جوکھم کا کام ہے۔ مغربی ممالک میں لاکھ مسائل سہی لیکن انسانی سوچ اور فکر آزاد ہے، برطانیہ ایسے ممالک میں سرفہرست ہے۔ ایسی آزادی، جس کا تصور ہمارے جیسے معاشرے میں ممکن نہیں۔ باجوہ صاحب کی کتاب "یورپ کی ڈائری" پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ ان کے کالموں کا مجموعہ ہے، چند دلچسپ اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔
"تم نے لوٹے تخت و تاج" وسطی ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست (بھوپال)کے فرمان روا (جو نواب کہلاتے تھے) اقبال کے مداحوں میں شامل تھے۔
انھیں نہ صرف کئی بار اقبال کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا بلکہ انھیں ایک معقول رقم بطور ماہانہ وظیفہ دینے کا اعزاز بھی شامل تھا۔ اقبال جس شاہی مہمان خانے میں ٹھہرائے جاتے اس کانام شیش محل تھا۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر یورپی تہذیب پر اتنی شدت اورتسلسل سے پتھر صرف وہی برسا سکتے تھے۔ اسی قیام گاہ میں 22اگست 1935کی رات "مسولینی" کے عنوان سے نظم لکھی۔ اس نظم کے آخری دو شعر لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں:
تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لوٹی کشت دہقاں، تم نے لوٹے تخت و تاج
پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کشی
کل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج
"غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر": میرے جو قارئین نیم حبشی، نیم فرانسیسی دانش ور فرانزفینن کی لکھی ہوئی کمال کی کتاب The wretched of the Earthسے یا جناب سجاد باقر رضوی صاحب کا لکھا ہوا بلند پایا ترجمہ افتادگان خاک پڑھ چکے ہیں، وہ اس نکتہ ٔ نظر سے بخوبی واقف ہوں گے کہ جس طرح سال ہا سال پنجرے میں رہنے والا پرندہ قوت پرواز کھو بیٹھتا ہے۔
اسی طرح صدیوں سے محکوم رہنے والی قوم کی خوئے غلامی اتنی پختہ ہو جاتی ہے کہ وہ ذہنی طور سے اس قابل نہیں رہتی کہ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہونے کے تقاضے پورے کر سکے۔ اقبال نے اس شاہین کو جو کرگسوں (گدھوں اور کوؤں) کے درمیان پل کر جوان ہوا، فریب خوردہ شاہین ہونے کا طعنہ بجا طور سے دیا ہے۔ اقبال نے اس شعر کے دوسرے مصرع میں لکھا ہے کہ اس بے چارے کو کیا خبر کہ راہ و رسم شاہ بازی کیا ہوتی ہے؟
الف سے ایمان دار: اس کالم نگار نے 75سال پہلے نارووال کے ایک پرائمری اسکول میں پھٹے ہوئے گرد آلود ٹاٹ پر بیٹھ کر شمس العلماء محمد حسین آزاد کا لکھا ہوا باتصویر اردو کا پہلا قائدہ کھولا تو پہلے صفحہ پرلکھا ہوا تھا، الف انار، ب بلی، یہاں سے اردو کے حروف ابجد کی تعلیم شروع ہوتی تھی۔ اب نہ ایک انار اور سوبیمار والا معاملہ رہا، چوں کہ اب انار سو ہیں اور بیمار ایک، اور نہ کسی کی گود میں بلی دیکھ کر نظم لکھنے والے اقبال رہے۔
اب ہم جس زمانہ میں سانس لے رہے ہیں وہاں چار دانگ عالم میں کرپشن اور اس کے خلاف چلنے والی تحریکوں اور مزاحمتی کارروائیوں کی دھول اڑ رہی ہے۔
فضا اتنی گرد آلود ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ چور اتنا بے خوف اور نڈر ہو چکا ہے کہ گھپ اندھیرے میں اپنے ہاتھ پر چراغ رکھ کر نکلتاہے۔ چورکو چوری کا مال آسانی سے نظر آ جاتا ہے مگر جن کی عمر بھر کی کمائی چرائی جاتی ہے انھیں چور دکھائی نہیں دیتا۔ ہے نا کمال کی بات!
"مرزا جواد بیگ کی یاد میں": عالمی سطح کے روسی ناول نگار ٹالسٹائی Tolstoy کا مشہور قول آپ نے کئی بار پڑھا ہوگا۔ اجازت دیجیے کہ میں اسے ایک بار پھر دہرا دوں۔ اگر جیل کے قیدیوں کو اپنا جیلر اپنے ووٹوں سے چن لینے کا حق دے دیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آزاد ہو گئے ہیں۔
"کراچی کے فولاد سے سیالکوٹ کے ریشم تک": کبھی کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ کالم نگار اپنے آپ کو سزا دینے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈتا رہتا ہے۔
پہلے ہی میری جان کے لیے عذابوں کی کمی نہ تھی کہ اب میں نے بڑے ذوق و شوق سے ان میں کراچی اسٹیل مل کے مزدوروں اور اوکاڑہ کے مزارعین کوبھی شامل کر لیا۔ نصف صدی سے وطن عزیز سے چھ ہزار میل دور رہنے والا بوڑھا شخص ان محنت کشوں اور افتادگان خاک کی ترجمانی اور وکالت کا بوجھ نہ اٹھاتا تو اس کی زندگی کے آخری دن چین کی بانسری بجاتے، رقص و سرود کی محفلوں میں شرکت کرتے، اور موسیقی سنتے گزر جاتے۔
یہ بھی ایک معمہ ہے کہ میں جوں ہی یہ کالم لکھنے بیٹھتا ہوں تو کیا وجہ ہے کہ میرے دماغ میں فارسی کے شعر اور محاورے موسم بہار میں پھولوں کے اوپر اڑنے والی تتلیوں کی طرح گردش کرنے لگتے ہیں۔ محنت کشوں سے عمر بھر کا رشتہ جو چار ستونوں پر کھڑا ہے وہ ہیں، محبت، عزت، عقیدت اور اپنائیت۔ یہ رشتہ میرا عمر بھر کا سرمایہ ہے۔
"چیری کے پھول": 1960کی بات ہے جب میں نے تھل کے لق و دق صحرا میں ایک نخلستان (جوہر آباد) میں اپنے والدین کے گھر میں ایک سال گزارا۔ ایم اے کا امتحان دینے کے بعد نتیجے کا انتظار موسم گرم کے تین ماہ پر محیط تھا۔ خدا جنت نصیب کرے جناب ظفر الاحسن مرحوم کو جس نے تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خواب کو عملی جامہ پہنایا، صحراؤں کو آباد کیا۔ تین نئے شہر بسائے (ان میں ایک جوہر آباد تھا)۔ اس نے جوہر آباد کے مرکزی بازار میں جاپان سے وہ خوب صورت درخت منگوا کر لگوائے جن پر سرخ پھول لگتے تھے۔
باغ جناح لاہور کی طرز کا اوپن ایئر تھیٹر بنوایا(نہ معلوم ان 65 سالوں میں اس کی قسمت کبھی جا گی یا نہیں؟) اور ایک اچھی لائبریری بھی۔ میں نے اس لائبریری سے بڑا استفادہ کیا اور اسے بنانے والوں کے لیے ہر کتاب لیتے وقت دعائے خیر مانگی۔ جو کتابیں پڑھیں ان میں سے تین آج بھی یاد ہیں: پہلی روسی ادیب Chekhov کے افسانے اور ان میں بالخصوص The Cherry Orchard، قرہ العین حیدر کا "آگ کا دریا" اور انھی کا ترجمہ کیا ہوا کمال کا ناول غیر معروف امریکی ناول نگار William Saroyan کا لکھا ہوا The Human Comedy. اسکول کے زمانہ میں حفیظ جالندھری سے لے کر اقبال کے کلام کے مجموعوں کے علاوہ منشی پریم چند کا ہر افسانہ پڑھا، بار بار پڑھا اور وقت نکال کر اب بھی پڑھتا ہوں تاکہ انسان دوستی کے جذبہ کو ترو تازہ رکھ سکوں۔
جتنا بین الاقوامی تجربہ، باجوہ صاحب کو دیار غیر میں رہنے سے حاصل ہوا، اس کو اپنے وطن کی خاک سے آسودہ کیا، تب جا کر یہ خوبصورت کالم تحریر ہوئے۔