یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
مسلمانوں اور یہودیوں کی جس جنگ کو سید الانبیاء ﷺ نے اس دنیا کے اختتام سے پہلے حق و باطل کا سب سے بڑا معرکہ بتایا ہو اور جس کی کوکھ سے جنم لینے والے کردار "دجّال" سے اسقدرڈرایا ہو کہ صحابہ کرامؓ بتاتے ہیں کہ جب کبھی بھی رسول اکرمﷺ کی زبان پر اس کا ذکر آتا تو ہم خوف سے کانپنے لگتے اور خیال کرتے کہ وہ شاید ابھی مدینہ کی کسی گلی سے برآمد نہ ہو جائے۔ حضور نبی کریم ﷺنے یہاں تک فرمایا ہے کہ سیدنا آدم ؑ سے لے کر اب تک کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی اُمت کو "دجّال"کے فتنے سے نہ ڈرایا ہو۔ اس خالصتاً اسلام اور کفر کے معرکے کی سرزمین "فلسطین" کو گذشتہ ستر سالوں سے عرب قوم پرستی میں ڈوبی ہوئی سیکولر لبرل فلسطینی قیادتوں نے جس طرح "عرب وطنیت" کا معاملہ بناکر رکھا تھا، اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا کہ اسرائیل کے پہلے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان کے بعد گولڈا میئر اور ایریل شیرون جیسے متعصب یہودی وزرائے اعظم کے کتنے سالوں بعد اب تعصب اور مسلمان دشمنی میں غضبناک ترین نئے وزیراعظم نفتالی بینٹ(Naftali Bennett)کو اقتدار کی کرسی پر پہنچانے والے، یہی سیکولر لبرل مسلمان ممبرانِ پارلیمنٹ ہوں گے اور انکی سیاسی پارٹی "یونائیٹڈ عرب لسٹ" (القائمہ العربیہ الموحدۃ) کا سربراہ منصور عباس بھی اسکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہوکر اسرائیلی کابینہ میں عرب افیئرز کے ڈپٹی وزیر کا حلف بھی اٹھائے گا۔
تین جون 2021ء، وہ دن تھاجب تل ابیب کے مشرق میں واقع میونسپلٹی "رامات گان" کے ایک پرتعیش ہوٹل میں کیمروں کی روشنیوں کے درمیان اسرائیل میں رہنے والے مسلمانوں کی تاریخ کا وہ بدترین لمحہ آیا، جب گذشتہ ستر سال کی خون آشامی کے باوجود منصور عباس نے اعلان کیا، کہ ہم اسرائیل کی حکومت میں شمولیت کا معاہدہ کر چکے ہیں۔ ان مسلمانوں کو یقیناعلم ہوگا کہ نئی بننے والی اس حکومت کی قیادت ایک ایسے وزیراعظم کے ہاتھ میں ہوگی، جو پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں سے زیادہ متعصب اور اسرائیل کو صرف اور صرف یہودیوں کا گھر تصور کرتا ہے۔ منصور عباس کی پارٹی اسرائیل کے ایک صحرائی خطے نیگو (Negev)کے عرب بدوؤں میں بہت مقبول ہے اور مغربی کنارے پر آباد سیکولر لبرل مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ یہ بدو ہمیشہ اپنے مزاج کے اکھڑ پن، تہذیب سے دوری اور مسلسل ایک سے دوسرے مقام کی جانب ہجرت کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اس وقت اسرائیل کی پارلیمنٹ جسے کنیسٹ(Knesset)کہتے ہیں، اس میں اس پارٹی کے چار مسلمان اراکین منصور عباس، ماذن غنائم، ولیدطحہٰ اور سعید الحرومی ہیں۔ یہ پارٹی گذشتہ چالیس سال سے الیکشن لڑتی آئی ہے، لیکن ایک دو سیٹوں کے ساتھ ہمیشہ اپوزیشن میں بیٹھتی اور حکومت سے دور رہتی۔ لیکن اب عربوں کی مفادات کا "تحفظ"یہودیوں کے ساتھ مل کر کرنے جا رہی ہے۔
کس قدر مضحکہ خیز اور شرمناک بات ہے کہ اسرائیل میں بسنے والے یہودی خود کو اسرائیلی یا کسی اور قومی نام سے نہیں پکارتے بلکہ صرف "یہودی" کہتے ہیں، جبکہ وہاں آباد مسلمان خود کو مسلمان نہیں بلکہ عرب یا فلسطینی کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1948ء سے لے کر آج تک عالمی میڈیا، مسلمان ممالک کا میڈیا، یہاں تک کہ اسرائیل میں موجود مسلمانوں کے اخبارات، رسائل اور ریڈیو، ٹیلی ویژن بھی اس جنگ کو "عرب اسرائیل "جنگ کہتے چلے آئے ہیں۔ اسی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے اس موجودہ نئے اتحاد کی خبریں بھی "یہودی عرب اتحاد" کی ہیڈ لائن سے اخباروں میں شائع ہوئیں اور الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی گئیں۔ مسلمانوں کے خون اور اُمتِ مسلمہ کے غیور مسلمانوں کے جذبات سے غداری کرکے نفتالی بنیٹ کو وزیراعظم کا ووٹ دینے والے یہ چاروں فلسطینی "سیکولر لبرل جمہوریت پرست نام نہاد مسلمان"اراکینِ پارلیمنٹ جس حکومت کا حصہ ہوں گے اس کی کابینہ کے اراکین کا تعارف بھی یہاں بتانا اس لیئے ضروری ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان سیکولر لبرل مسلمانوں نے کس طرح متعصب مذہب پرست یہودیوں کا ساتھ دیا۔ اور ان غدارسیکولر مسلمانوں کی وجہ سے آئندہ اسرائیل، یروشلم اور اس سے ملحقہ علاقوں کا نقشہ کیا ہوگا اور کسقدر ظالم قیادت وہاں پر برسرِ اقتدار آئے گی۔
نیا وزیراعظم نفتالی بینٹ کا باپ امریکہ سے اس لق دق صحرا نماعلاقے "حیفہ" میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر، یہودی مادرِ وطن اور آخری مسیحاکی عالمی حکومت کے خواب لے کر یہاں آیاتھا۔ نفتالی 25اپریل1972ء کوحیفہ میں پیدا ہوا۔ عملی زندگی کا آغاز فوج سے کیا اور مسلمانوں کے قتل عام پر مامور دو فوجی کمانڈو یونٹوں سیریت متکال (Sayeret Matkal) اور مگالان (Megalon)کا سربراہ رہا۔ یہ شخص "قانہ" کے قتل عام کا براہ راست ذمہ دار تھا، جب لبنان میں بہت سے شہری اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لیئے ہوئے تھے اور اس نے وہاں راکٹ فائر کرکے 106لبنانی عورتیں، بچے اور بوڑھے شہیدکر دیئے تھے۔ فوج کے بعداس نے نیویارک میں ایک سافٹ ویئر کمپنی بنائی، اربوں ڈالر کمائے اور یہ سب سرمایہ لے کر اسرائیل آگیا اور پھر یہاں یہودیوں کا گھر (Jewish Home) نام سیاسی پارٹی بنائی اور اس کے تحت الیکشن جیتنے کے بعد 2013ء سے لے کر 2021ء تک 7 سال مسلسل وزیر رہا۔ یہ شخص گذشتہ دس سالوں سے ایک ہی نعرہ بلند کرتا چلا آرہا ہے کہ اسرائیل کو فوراً یروشلم شہر کو اپنے ملک میں ضم کر لینا چاہیے۔ اس یہودی اورسیکولر مسلمان کے اتحاد والی کابینہ کا دوسرا رکن وزیر خارجہ یائر لپیڈ (Yair Lepid)ہے۔
یہ شخص اسرائیل میں ایک ٹی وی اینکر ہوا کرتا تھا۔ اس کا عمومی چہرہ ایک سیکولر اور لبرل والا ہے، لیکن یہ صیہونی یہودیوں کے صرف اتنا ہی خلاف ہے کہ شدت پسند یہودیوں کی مراعات کو ختم ہونا چاہیے۔ اس کابینہ میں وزیر دفاع بینی گینٹز (Beny Gantz)ہے جو کبھی اسرائیلی فوج کا سربراہ ہوا کرتا تھا۔ یہ شخص بھی ان تمام حکومتوں کا حصہ رہا ہے جنہوں نے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ اس کابینہ کا وزیرخزانہ وہ شخص ہے جو ان متنازعہ گھروں میں رہتا ہے جو یروشلم میں مسلمانوں کو بے دخل کر کے بنائے گئے ہیں، جنہیں سیٹلمنٹ (Settlements)کہتے ہیں۔ یہ علاقے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق بھی غلط اور ناجائز ہیں۔ لیکن اسرائیل کی نئی حکومت کا یہ وزیر خزانہ ایک ایسے ہی گھر میں رہنے کو ترجیح دے رہا ہے جو عالمی برادری کے تحت بھی ناجائزہیں۔ اس کابینہ کا وزیر انصاف گیڈون سار (Gideon Saar)ہے۔ یہ نیتن یاہوکی پارٹی میں تھا، لیکن نیتن یاہونے نے اسے کبھی زیادہ آگے بڑھنے نہیں دیا۔ لیکن اپنے خیالات کے اعتبار سے یہ قدیم صیہونیوں کا ہمنوا ہے۔ ان تمام یہودی وزیروں کے درمیان کابینہ میں منصور عباس کی کرسی بھی موجود ہوگی۔ اس نے کابینہ کا رکن بنتے ہی کہا ہے کہ "ہماری شناخت فلسطینی عرب ہوگی اور ہم ریاست اسرائیل کے وفادار شہری ہوں گے"۔
اس مرحلے کو گذرے آج کئی دن ہو چکے ہیں۔ یہ المیہ برپا بھی ایک ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں 65بچوں کی ہلاکت کے زخم ابھی تازہ تھے، بلکہ غزہ کے مسلمان ابھی تک اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھے تھے اور پوری اُمت کا ہر فرد جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یہ اُمت ایک جسد واحد یعنی جسم کی مانند ہے وہ بھی ابھی تک مضطرب تھا۔ ایسے حالات میں یہ خبرانتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ تھی۔ اسرائیل کی حکومت میں مسلمان ارکان کی شمولیت اس موت کے پروانے پر دستخط ہیں جس کے بارے میں سید الانبیاء ﷺ نے اس علاقے میں بسنے والے عربوں کے بارے میں مکمل تباہی کی پیش گوئی کی ہے۔ آپؐ کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عرب قوم مکمل تباہ و برباد ہوکر دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گی اور پھر اسکے خلا کو پر کرنے کیلئے جہاد کے لیئے قافلے ہر طرف سے یہاں آنے کے لیئے روانہ ہوں گے اور ان قافلوں میں وہ علاقے جنہیں افغانستان اور پاکستان کہتے ہیں پیش پیش ہوں گے۔