یہ محض اتفاق نہیں ہے
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ مسلم امہ کا وہ خطہ جہاں آخری بڑی جنگ کے دو میدان سجنے ہیں، اسکے مشرق و مغرب کے دونوں سروں پر گزشتہ بیس سال سے مذہبی شدت پسندی کی لہر عوامی پذیرائی اور جمہوری راستے سے ملک پر قابض ہے اور دن بدن اس شدت پسندی کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور عوام کی مسلمانوں سے نفرت میں تیزی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
مسلم امہ کا یہ خطہ دراصل اسلامی دنیا کا مرکز و محور ہے جسے "Central Homeland"کہا جا سکتا ہے۔ صحرائے سینا کے مشرقی کنارے یا جزیرہ نمائے عرب کے شمالی کونے سے لے کر خلیج بنگال تک کا خطہ، بلاک یا وسیع قطعہ زمین وہ علاقہ ہے جس پر سید الانبیاء ﷺکی بعثت سے خلافت راشدہ، بنو امیہ، بنو عباس سے ہوتی ہوئی مسلمانوں کی مرکزیت، خلافت عثمانیہ تک قائم رہی ہے۔ اس خطے کا بیشتر حصہ خلافت راشدہ میں ہی اسلامی اقتدار کے زیر سایہ آگیا تھا۔ اسکے جنوب میں وسیع سمندر ہے اور اسکے شمال میں چین اور روس۔
افریقہ اور مشرق بعید کے مسلمان ممالک ہمیشہ سے اس مرکز و محور علاقے کی سیاست، معاشرت یہاں تک کہ اقتدار کی کشمکش سے دور رہے ہیں۔ اسی خطے میں بسنے والے مسلمان ہی باقی امت کیلئے ہر طرح کی قیادت مہیا کرتے رہے ہیں۔ تمام فقہی مسالک یہیں سے پھوٹے اور آج کی جدید دنیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ، طاغوت کے خلاف جہاد اور اسلامی انقلاب کی پرچم بردار قیادتیں بھی اسی خطے میں پیدا ہوئیں۔ یہیں سے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی، حماس اور حزب اللہ نے جنم لیا۔
ملا محمد عمر کی اسلامی ریاست اور آیت اللہ خمینی کا اسلامی ایرانی انقلاب بھی اسی خطے اور منطقے کے چہرے کا جھومر ہیں۔ یہی خطہ ہے جسکے مغربی کنارے سے لے کر مشرقی کنارے تک ایک وسیع میدان جنگ برپا ہونے کی پیشگوئی سید الانبیاء ﷺ نے فرمائی۔ ایک وسیع تسلسل ہے ان احادیث کا جن میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت اسوقت تک برپا نہ ہوگی جب تک یہ جنگیں برپا نہ ہو جائیں۔
کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ اس خطے میں صرف دس ماہ کے وقفے سے دو ایسے ملک وجود میں آئے جو دنیا بھر میں قومی ریاستوں کے تصور سے بالکل مختلف، اپنی قومیت کی اساس اور بنیاد مذہب کو سمجھتے تھے، 14 اگست 1947ء کو پاکستان، جسکی بنیاد اسلام اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل جس کی بنیاد یہودیت تھی۔ ان دونوں ملکوں کی قیادتوں نے انکی بنیاد رکھتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ ہمارا نظام حکومت ہمارے مذاہب کی تعلیمات کے مطابق ہوگا۔
پاکستان میں قرآن وسنت اور اسرائیل میں تورات اور تالمود۔ جیسے پاکستان میں تحریک پاکستان کے مقاصد کو پس پشت ڈال کر ایک سیکولر، لبرل اور جمہوری پاکستان کا شروع دن ہی سے آغاز ہوگیا تھاتو ایسا کچھ اسرائیل میں بھی ہوا۔ اسکے بعد ان دونوں ممالک میں پہلے دن ہی سے مذہبی طبقے نے اپنی اپنی شریعتوں کے نفاذ کے لیے آواز اٹھانا شروع کر دی۔ انکا مطالبہ تھا کہ صرف حکومتی سطح پر اس بات کا اعلان کافی نہیں کہ ہم ایک مذہبی ریاست ہیں، بلکہ اسکا عملی نفاذ ضروری ہے۔
پاکستان میں قرارداد مقاصد اور اسرائیل میں پارلیمنٹ (کینسٹ) کا یہ اعلان کہ ہمارا آئین تورات ہے، دونوں مدتوں تک کاغذی حیثیت سے آگے نہ بڑھ سکے۔ جس طرح 1949ء میں ہمارے ہاں دستور کو اسلامی بنانے کی ایک تحریک شروع ہوئی اسی طرح ٹھیک ایک سال بعد 1950ء میں اسرائیلی مذہبی قیادت کے چیف ربی موردی چائی ایلیہو(Mordechi Eliyaho) کی سرکردگی میں تحریک نفاذ قوانینِ تورات شروع ہوئی۔
اب یہ تحریک اسرائیل کی سب سے سرگرم تحریک بن چکی ہے۔ اسکا بانی جب جون 2009ء میں مرا تو اسکا جنازہ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ اسکے کارکن آج بھی ہفتے کے دن اسرائیل کے شہروں میں نکل آتے ہیں اور اس دن جو دکان کھلی ہو یا کاریں سڑک پر ہوں انہیں نذر آتش کر دیتے ہیں یا سخت پتھراؤ کر کے تباہ کر دیتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ ایک اور ملک بھی معرضِ وجود میں آیا جسکی بنیاد تو سیکولر لبرل اور جمہوری تھی لیکن اسکی پیدائش سے 22 سال پہلے ہی 1925 میں ایک مذہبی شدت پسند تنظیم آر ایس ایس نے جنم لیا تھا جس نے بھارت کی سیکولر، لبرل شناخت سے انکار کیا اور اسے ایک ہندو ریاست بنانے کی جدوجہد کا اعلان کیا۔
اسرائیل کے شدت پسند مذہبی طبقے اور بھارت کے شدت پسند مذہبی طبقے نے مسلمانوں کو بحیثیت امت اپنا دشمن قرار دیا۔ دونوں کی تاریخ میں اپنے ان رہنماؤں کا قتل شامل ہے جنہوں نے مسلمانوں سے ذرا سا بھی نرمی کا رویہ رکھا۔ آر ایس ایس کے نتھورام گوڈسے نے 30 جنوری 1948ء کو مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا اور 4 نومبر 1995ء کو پچیس سالہ ایگال عامر (Yigal Amir) جو یونیورسٹی میں قانون کا طالب علم تھا، اس نے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین (Yitzhah Rabin) کومار دیا۔ گاندھی پر الزام تھا کہ وہ عوام کو مسلمانوں کے قتل عام سے روکتا ہے اور اسحاق رابین پر الزام تھا کہ اس نے اوسلو معاہدے میں مسلمانوں کے مقبوضہ علاقے واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اسحاق رابین کے خلاف جس لیڈر نے سب سے زیادہ احتجاج کیا اس کا نام بینجمن نیتن یاہو تھا۔ اس نے کہا کہ اسحاق رابین اور اسکی کابینہ کا نام یہودیوں کی تاریخ سے خارج کر دینا چاہیے۔ اسکا تعلق لیکوڈ پارٹی سے ہے۔ یہ پارٹی ان تمام افراد نے بنائی تھی جو 1950ء میں قانونِ تورات کا پرچم لے کر اٹھے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لیکوڈ پارٹی ان شدت پسند گروہوں کا سیاسی چہرہ ہے۔ اسی طرح آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ بی جے پی ہے۔ دونوں جماعتیں الگ مذاہب کی علمبردار ہیں لیکن دونوں کا دشمن مشترک ہے اور وہ ہیں مسلمان۔
بی جے پی ایک تباہ شدہ رام مندر کی تعمیر چاہتی ہے اور لیکوڈ اور دوسری اسرائیلی پارٹیاں تباہ شدہ ہیکل سلیمانی کی ازسرنو تعمیر دیکھنا چاہتی ہیں۔ رام مندر پر بنائی گئی بابری مسجد گرائی جا چکی ہے جب کہ ہیکل سلیمانی پر موجود قبتہ الصخریٰ اور مسجد اقصیٰ ابھی تک قائم ہیں۔ دونوں ممالک میں شدت پسندوں کے برسرِ اقتدار آنے کا وقت بھی ایک ہے۔ 1998ء میں بھارت میں بی جے پی طاقت میں آئی اور 1999ء میں اسرائیلی میں شدت پسند گروہوں کی حکومتوں کا آغاز ہوا۔ آج 2019ء میں بنجمن نیتن یاہو پانچویں بار الیکشن جیت کر اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن گوریان کے ریکارڈ کو توڑ چکا ہے۔
وہ شاید نہ جیتتا اگر امریکہ یروشلم کو دارالحکومت تسلیم نہ کرتا، گولان پر اسرائیلی قبضے کا قانونی اعلان نہ ہوتا، غزہ پر ایک بار پھر بمباری نہ ہوتی اور نیتن یاہو یہ اعلان نہ کرتا کہ وہ جیتنے کے بعد اسرائیل کو ایک سیکولر قوم پرست ریاست نہیں بلکہ مکمل یہودی ریاست بنانے کا اعلان کرے گا اور تمام مقبوضہ عرب علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرکے ان پر یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔ یہی کچھ بھارت کے الیکشنوں میں ان دنوں دہرایا جانے والا ہے۔
کیا یہ 70 سالہ تاریخ محض ایک اتفاق ہے۔ کیا گزشتہ بیس برسوں میں دونوں ملکوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور اسکی جمہوری طور پر عوام میں پذیرائی ایک روٹین ہے۔ کیا دنیا کا کوئی سیاسی مبصر اور دانشور یہ پیش گوئی کرسکتا ہے کہ بھارت اور اسرائیل میں ہندو اور یہودی شدت پسندوں کی مسلمانوں سے نفرت ختم ہو جائے گی۔ شاید کوئی ایک بھی ایسا نہ کہہ سکے۔ تو پھر اس امت کو غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے کہ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں، مالک کائنات کے اس عظیم منصوبے کا حصہ ہے جسکے تحت قیامت سے قبل ان دونوں ریاستوں نے نیست و نابود ہونا ہے اور محمد عربی ﷺکے دین نے غالب آنا ہے۔