یاجوج ماجوج کے آخری معرکے کی تیاریاں
گیارہ جنوری 2007ء ایک ایسا دن تھا جس نے دنیا بھر کے عسکری ماہرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ امریکی عسکری ماہرین جو اپنی قوت و طاقت کا آخری مرکز و محور "خلا میں اپنی بادشاہت" کوسمجھتے تھے، سب کے سب انگشتِ بدندان رہ گئے۔ اس دن چین کے خلائی مرکز "زی چنگ" (Xichang) سے خلا کی سمت ایک بلاسٹک میزائل نے اڑان بھری۔ اس میزائل کو "متحرک تباہ کن گاڑی"(Kinetic Kill Vehicle) کہا جاتا ہے۔ میزائل تیزی سے پرواز کرتا ہوا زمین کے مدار سے نکلا اور خلا میں زمین سے 863کلومیٹر بلندی پر، چین کے موسمیاتی سیٹلائٹ "فینگین ون سی" (Fengyun 1c) پر حملہ آور ہوا اور اسے مکمل طور پر تباہ کردیا۔ اس دن زمین پر موجود واحد عالمی طاقت کہلانے والے "امریکہ" کی خلا میں موجوداکلوتی بادشاہت ختم ہو گئی۔ اس دن تک دنیا کے اکثرممالک کے پاس یہ ٹیکنالوجی تو میسر تھی کہ وہ خلا میں اپنے سیٹلائٹ بھیجیں، موسم کا حال معلوم کریں، جاسوسی کریں، زمین پر گاڑیوں کے لیئے رستوں کی رہنمائی حاصل کریں، ٹیلی ویژن اورا نٹرنیٹ کی نشریات کا بندوبست اور ایسے لاتعداد روزمرہ زندگی کے کام سرانجام دیں، لیکن کسی دوسرے ملک کے سیٹلائٹ پر حملہ کرنے، اسے تباہ کرکے زمین پراس کے تحت چلنے والے تمام سسٹم کو جام (Jam) کر کے رکھ دیں، ایسی صلاحیت صرف اور صرف امریکہ کے پاس تھی۔
یوں تو امریکہ نے خلا میں کسی سیٹلائٹ تباہ کرنے والے میزائل بنانے کے تجربات 1956ء سے ہی شروع کر رکھے تھے، لیکن خلائی سیٹلائٹ تباہ کرنے میں اسے کامیابی13ستمبر 1985ء کو حاصل ہوئی، جب امریکہ نے زمین سے 555کلومیٹربلندی پر موجود اپنے "گاماریز" (Gama ray) کے ذریعے زمین سے معلومات حاصل کرنے والے سیٹلائٹ کو تباہ کیا۔ یہ تجربہ ایک F.15طیارے کے ذریعے کیا گیا۔ امریکہ کے "ایڈورڈز" (Edwards) ائر بیس سے اس میزائل کو لے کر ایک ایف 15طیارہ اڑا، اڑتیس ہزار فٹ فضاء میں بلند ہوا اور پھر اس نے خلا کی جانب اس تباہ کن میزائل کو اچھال دیا، جس نے اپنے ہدف کو خلا میں تباہ کردیا۔ اس قوت و طاقت کے حصول کے بعد امریکی خاموش ہو کر بیٹھ گئے کہ اب وہ جب اور جس وقت چاہیں گے زمین پر چلتی پھرتی، دوڑتی بھاگتی زندگی کو ایسے روک دیں گے جیسے کسی مشین کا فیوز نکالا جاتا ہے۔ لیکن بائیس سال بعدچین کے اس تجربے سے امریکہ کی عسکری قوت میں جو ہلچل برپا ہوئی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 21فروری2008ء کو امریکی بحریہ کے ایک جہاز سے ایک میزائل خلا میں بھیجا گیا جس نے امریکہ کے ناکارہ جاسوس سیٹلائٹ USA193 کو خلا میں تباہ کر دیا۔ یوں امریکہ جو خلا کا واحد اجارہ دار تھا اب ایک متحارب فریق بن گیا۔
خلا کی طاقت و قوت اور خلا سے زمین پر حملہ آور ہونے کی استعدادآج کی جدید دنیا میں اصل اختیارات کی علامت ہے۔ لیکن ایسی ہی قوت کے زمین پر حملہ آور ہونے اور قبضے کو قرآن پاک نے "یاجوج و ماجوج" کے حملوں سے تشبہیہ دی ہے۔ اللہ فرماتا ہے "یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے حملہ آور ہوں گے" (الانبیائ: 98)۔ علامہ اقبالؒ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا تھا
کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیرِ حرفِ ینسلون
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قربِ قیامت کی صرف ایک ہی نشانی کو انتہائی وضاحت سے کوکھول کھول کربیان فرمایا ہے اور وہ یاجوج اور ماجوج ہیں۔ ان کا ٹھکانہ، ان کو روکنے کے لیے ذوالقرنین ؑ کا دیوار بنانااور پھر ان کا زمین پر کھولے جانا ہے سب کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ذوالقرنین ؑکے تین سمتوں کی جانب سفر ہیں، جن کا تذکرہ" سورۃ کہف"میں ملتا ہے۔ ایک مشرق، دوسرا مغرب اور تیسرا شمال کی سمت۔ تیسری جانب سفر کے دوران انہیں ایک قوم "یاجوج و ماجوج" کے بارے میں بتایا جاتا ہے جو زمین میں فساد برپا کرتی ہے اور ذوالقرنین ؑ ان کو روکنے کے لیے ایک دیوار تعمیر کردیتے ہیں۔ سید الانبیاء ﷺ نے فرمایا "یاجوج ماجوج حضرت آدمؑ کی نسل سے ہیں، اگر وہ چھوڑ دیئے جائیں تو دنیا کے معاش میں فساد ڈال دیں " (طبرانی)۔ دنیا کے معاش میں فساد اور بلندیوں سے حملہ آور ہونے کو اگر باہم ملا کر دیکھیں توہمارے سامنے موجودہ دنیا میں یاجوج اور ماجوج واضح ہو جائیں گے۔ اورانہی کی جانب قرآن نے اشارہ کیا اور اس آیت کی وضاحت اقبالؒ نے اپنے شعرمیں کی۔ یعنی اللہ کے احکامات کی منکر وہ قومیں جو زمین کی معیشت پر قابض ہیں اور جن کا حملہ بلندیوں یعنی خلا سے ہوتا ہے۔ یعنی "معاشی قوتیں " جن کا کنٹرول بلندیوں پر ہے۔
جدید دنیا میں ہماری ساری زندگی سیٹلائٹ کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے۔ ہمارے جہاز اسی کی مدد سے اڑتے ہیں، بینکاری کا نظام، میڈیا، ٹریفک یہاں تک کہ جنگوں کے ہتھیار بھی سیٹلائٹ کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں خلا میں موجود سیٹلائٹ کا کنٹرول ہوگا، وہی پوری دنیا کو کنٹرول کرے گا۔ دن بدن انسانوں کا تمام انحصار خلا میں موجود ان سیٹلائٹوں پر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کوئی ایک سیٹلائٹ بھی خراب ہوجائے تو اس سے متعلق دنیا کا سارا نظام رک جاتا ہے۔ ٹرینیں چلنا بند ہوجائیں، بجلی کی سپلائی منقطع ہوجائے، کمپیوٹر اپنی یاداشت بھول جائیں۔ اگر خلا میں یہ سیٹلائٹ تباہ کر دیئے جائیں تو انسان سو سال پرانی زندگی میں واپس آجائے گا، جہاں بینکوں کے کھاتے کاغذوں پر منتقل ہو جائیں، گاڑیوں میں لوگ نقشہ بچھا کر یا لوگوں سے پوچھ کر راستہ تلاش کریں گے، جہازوں اور سمندری جہازوں میں قطب نما موجود ہوں اور قطبی تارے سے مدد لے کر سفر طے ہوگا۔ جنگوں کے ہتھیار بھی زیادہ سے زیادہ بندوقوں، توپوں اور ٹینکوں تک واپس چلے جائیں اور ہدف پربھی اندازے سے ہی نشانہ لگایا جائے۔
خلا پر بادشاہت اور کنٹرول کی یہ جنگ آج اپنے عروج پر ہے۔ جوبائیڈن کی پہلی سیکورٹی میٹنگ میں جو واحد معاملہ زیرِ بحث آیا وہ یہ تھا کہ خلا میں چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا کیسے مقابلہ کیا جائے۔ کیونکہ چین نے یہ طاقت حاصل کر لی ہے کہ وہ خلا میں امریکی سیٹلائٹ کو نشانہ بنا کرامریکی زمینی افواج (Terrestrial)کی حرکت کو جام کر سکتا ہے۔ جوبائیڈن کے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ پلان رکھا گیاجس کے تحت اس نے امریکی افواج کی ایک نئی برانچ "خلائی فوج"(Space Force) بنانے کا آغاز کیا تھا۔ چونکہ سارا میڈیا ٹرمپ کے خلاف تھااس لیے اس وقت اسکے اس تصور کو لطیفوں کی نذر کر دیا گیا، لیکن گذشتہ چند دنوں سے اخبارات میں یہ سنجیدہ گفتگو ہو رہی ہے کہ اگر خلا میں امریکی بالادستی قائم کرنے کیلئے چین سے بہتر طاقتور میزائل تیار نہ کیے گئے تو چین خلا اور زمین دونوں میں اپنی عسکری بالادستی قائم کر لے گا۔ یاجوج اور ماجوج کے بارے میں کتب ِ احادیث میں پچاس سے زیادہ احادیث ملتی ہیں۔ زمین پر ان کے قبضے اور حملے کے آخری معرکے کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا "وہ کہیں گے، ہم نے زمین والوں کو قتل کر دیااب آؤ آسمان والوں کو قتل کریں، چنانچہ وہ لوگ آسمان کی طرف اپنے تیر چلائیں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کو خون سے سرخ کر کے ان کے پاس واپس کردیگا" (جامع ترمذی: 2240)۔
کون ہے جو آج چودہ سو سال پہلے ان سب باتوں کی خبر دے سکتا تھا۔ یہ باتیں تو کوئی پچاس سال پہلے بھی کرتا تو لوگ حیرت کا اظہار کرتے۔ لیکن مخبرِ صادق، ہادیٔ برحق سیدالانبیاء ﷺ کی حقانیت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ قیصر و کسریٰ کی فتح سے لے کر یاجوج ماجوج کی خلائی تسخیر تک آپ نے جو بات کی آج حق ثابت ہورہی ہے۔