ٹرانسجینڈر ایکٹ: تاریخ، تدوین، حقائق (2)
سیکولر، لبرل اور روشن خیال نظریات کی آبیاری یوں تو کیمونزم کے زوال سے شروع ہوئی تھی، لیکن اس کو ملکی سطح پر فروغ پرویز مشرف دور کی حکومتی آشیرباد سے ملا۔ اس حکومتی سرپرستی کی وجہ سے سیاسی قیادت میں ملحد، سیکولر، لبرل افراد کھل کر سامنے آنے لگے۔ اسی دور میں پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے اراکین ٹرانسجینڈر کمیونٹی اور "LGBT" کے حقوق کے حوالے سے ہیومن رائٹس کمیشن، عورت مارچ اور دیگر تنظیموں کے ہمدرد کے طور پر مسلسل کام کرتے نظر آنے لگے۔
پاکستان میں مغربی ایجنڈے اور بیرونی فنڈنگ سے کام کرنے والی این جی اوز نے انہی ممبرانِ اسمبلی اور سینیٹرز کو ساتھ ملا کر ٹرانسجینڈر سے متعلق قانون کی تیاری کا کام شروع کیا اور ان دونوں نے آپس میں ایک ورکنگ گروپ بھی بنا لیا۔ اس گروپ کی پہلی میٹنگ 2017ء کے آغاز میں اسلام آباد میں ہوئی۔ اس میٹنگ کی گروپ فوٹو 9 مئی 2018ء کے "ایکسپریس ٹربیون" نے شائع کی۔ یہ تصویر وفاقی محتسب کے دفتر کے باہر سیڑھیوں پر لی گئی تھی۔ اس تصویر کو ایک سال بعد 9 مئی 2018ء کو اس لئے شائع کیا گیا، کیونکہ یہی وہ دن تھا جب ٹرانسجینڈر ایکٹ منظور ہوا تھا اور اب یہ گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آ گیا اور اعلان ہوا کہ یہ ایکٹ تو دراصل انہی ہم جنس پرستی کے حامی افراد کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں یہ بل پاکستان پیپلز پارٹی نے پیش کیا۔ پیش کاروں میں نوید قمر، فرحت اللہ بابر، روبینہ خالد اور ڈاکٹر کریم خواجہ نمایاں تھے۔ تقریباً ایک سال تک اس بل پر خاموشی سے کام ہوتا رہا مگر اخبارات و جرائد اور الیکٹرانک میڈیا تک کو بھی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی گئی۔ ایک پُرزور پراپیگنڈہ سے، اسمبلی میں ایک عمومی فضا بنا دی گئی تھی کہ دراصل یہ بل تو صرف پاکستان کی سب سے کچلی ہوئی کمیونٹی "خواجہ سرائوں" کی فلاح و بہبود کیلئے لایا جا رہا ہے۔ اس فضا میں ہر کوئی ہمدرد بن گیا اور پھر اس بل کو پہلے سینٹ سے منظور کرایا گیا اور پھر 9 مئی 2018ء کو ایاز صادق نے بحیثیت سپیکر انتہائی عجلت میں اس کو منظور کروایا۔
ووٹنگ سے پہلے "سپیکر" محترم کی دو منٹ کی گفتگو سننے کے قابل ہے۔ اس نے کہا کہ پورے ہائوس میں ایک ایسی مثبت فضا ہے، جو اس بل کو منظور کرنا چاہتی ہے اور صرف تین اراکین نے اتنا کہا ہے کہ بل کو کسی کمیٹی میں بھیجا جائے۔ ایسی صورت میں ایوان کا مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے، اس لئے میں بل کو ووٹنگ کیلئے پیش کرتا ہوں۔ اب وہ "ذلّت آمیز" مرحلہ آن پہنچا جب "ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018ء" متفقہ طور پر پارلیمنٹ سے منظور ہو گیا اور اس کی مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہ آیا۔
بل کے منظور ہونے کے چند دنوں بعد ہی شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ ختم ہو گئی اور نگران حکومت آ گئی۔ الیکشنوں کا زور شور، عمران خان کی نوزائیدہ حکومت اور کرونا وغیرہ کے ہنگاموں میں اس بل کے بارے میں زیادہ گفتگو نہ ہو سکی، اس لئے یہ نظروں سے اوجھل رہا۔ لیکن مارچ 2020ء میں"انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ" نے اپنی رپورٹ میں اس ایکٹ کا بھانڈا پھوڑ دیا اور بتا دیا کہ پاکستان اب ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جو ہم جنس پرستوں (LGBT) کو حقوق فراہم کرنے کے راستے پر مثبت انداز میں رواں دواں ہیں۔
یہ ایکٹ اس شاطرانہ انداز سے تحریر کیا گیا ہے کہ ایک عام اور سادہ سے شخص، بلکہ قانون کے عمومی طالب علم کو اس میں موجود قانونی موشگافیوں کی وجہ سے بالکل معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ اس میں ہم جنس پرستوں کے تحفظ کی راہ کیسے ہموار کی گئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس ایکٹ کا نام ہی "ٹرانسجینڈر ایکٹ" رکھا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جو ایسے تمام افراد کیلئے استعمال ہوتی ہے جو پیدائشی طور پر مکمل مرد یا مکمل عورت ہوں مگر اپنے طبعی میلان اور نفسیاتی رجحانات کی وجہ سے بعد میں ایسا روپ اختیار کر لیں جو ان کی پیدائشی جنس سے مختلف ہو۔ عالمی سطح پر اس لفظ کی تعریف یوں کی جاتی ہے:۔
"Transgender is an umbrella term used for people, whose gender identity (self identification as male or female) is different from their assigned sex at the time of birth."
"ٹرانسجینڈر ایک مجموعی اصطلاح ہے جو ان لوگوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے، جن کی جنسی شناخت (خود بتائی گئی مرد یا عورت) اس شناخت سے مختلف ہو جو انہیں پیدائشی طور پر دی گئی تھی"۔ یہ تعریف عالمی مرکز "National Center for Transgender Equality" کی wex definition ٹیم نے تحریر کر رکھی ہے۔ یہ ادارہ بنیادی طور پر ہم جنس پرستوں یعنی (LGBT) کے حقوق کے تحفظ کیلئے عالمی سطح پر سرگرم عمل ہے۔ کمال ہوشیاری اور چالاکی سے اسی تعریف کو اٹھا کر من و عن "ٹرانسجینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018ء" میں درج کر دیا گیا اور ساتھ ہی ہم جنس پرستوں کے تحفظ کو مزید یقینی بنانے کیلئے دو اصطلاحات "خواجہ سراء" اور "کوئی بھی شخص" شامل کر کے بائیس کروڑ عوام کیلئے جنسی تبدیلی کا راستہ ہموار کیا گیا۔ یہ تعریف ایکٹ کے سیکشن (III-M)2 میں یوں درج ہے۔
"A Transgender man, transgender woman, Khawaja Sira or any person whose gender identity or gender expression differs from the social norms and cultural expectations based on the sex they were assigned at the time of their birth."
"ٹرانس جینڈر مرد، ٹرانس جینڈر عورت، خواجہ سراء یا کوئی بھی شخص جس کی صنفی شناخت یا صنفی اظہار، ان ثقافتی توقعات اور سماجی معیار سے مختلف ہو جن کو پیدائشی جنسی شناخت سے منسوب کیا جاتا ہے"۔ ٹرانس جینڈر کی تعریف کرتے ہوئے قانون میں خواجہ سراء اور "Any Person" کے دو خانے (Categories) شامل کر کے بائیس کروڑ عوام کو یہ حق دے دیا گیا کہ اگر آپ پیدائش کے وقت مکمل مرد تھے مگر اب آپ کا جی چاہتا ہے کہ آپ عورت کی طرح جئیں تو پھر آپ نادرا جا کر خود کو ٹرانسجینڈر مرد یا ٹرانسجینڈر عورت کے طور پر رجسٹرڈ کروا لیں۔
اگر قانون بنانے والوں کی نیت صرف خواجہ سرائوں کی فلاح و بہبود ہوتی تو پھر اس ایکٹ کا نام "خواجہ سراء پروٹیکشن ایکٹ" ہونا چاہئے تھا، لیکن ان شاطروں کو علم تھا کہ ایسا کرنے سے وہ قانونی طور پر پھنس جائیں گے اور پھر ہم جنس پرستوں کو اس فہرست میں کسی طور پر شامل نہیں کر سکیں گے، اس لئے قانون کا نام ہی "ٹرانس جینڈر" رکھ دیا گیا۔ ایسا کرنے سے پاکستان عالمی "ہم جنس پرست" کمیونٹی (TRANS) سے بھی منسلک ہو گیا اور قانونی راستہ بھی نکل آیا۔
قانون کے دوسرے باب میں ٹرانسجینڈر کی اسی تعریف کے تحت نادرا اور دیگر تمام اداروں کو قانونی طور پر پابند کیا گیا ہے کہ کوئی بھی مکمل مرد یا مکمل عورت خود کو ٹرانس جینڈر مرد یا عورت کے طور پر رجسٹر کروانا چاہتا ہے تو بغیر کسی میڈیکل چیک اپ صرف اسکی ذاتی گواہی اور شناخت "Self Perceived Gender Identity" کی بنیاد پر ہی اسے اس کی مرضی کا شناختی کارڈ جاری کیا جائے گا۔
ایسے شخص کو اپنے آپ کو ٹرانس جینڈر مرد یا عورت ثابت کرنے کیلئے کسی دلیل یا ثبوت پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستان کا ہر وہ شخص جو پیدائشی طور پر مکمل مرد ہے، لیکن اب وہ ہم جنس پرستی کیلئے عورت کا روپ دھارے ہوئے ہے، اسے پورا قانونی حق مل چکا ہے کہ وہ ایک ٹرانسجینڈر عورت کے طور پر شناختی کارڈ حاصل کر سکے۔ (جاری ہے)