Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Thi Khabar Garm Ke Ghalib Ke Urain Ge Purze

Thi Khabar Garm Ke Ghalib Ke Urain Ge Purze

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے

پاکستان کے غیر سرکاری، نجی الیکٹرانک میڈیا کی تاریخ صرف بیس سال پرانی ہے لیکن ان بیس سالوں میں اس میڈیا نے پاکستانی معاشرے میں جو ہیجان برپا کیا ہے وہ شاید کئی سو سالوں کی پریشانیوں، اُلجھنوں اور ناکامیوں سے بھی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔

آج سے پچاس سال قبل پنجابی کے مشہور شاعر انور مسعود کی کتاب "میلہ اکھیاں دا" شائع ہوئی تو اس وقت، آزاد خود مختار پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات کا طوطی بولتا تھا۔ اس کتاب میں ان کی ایک مشہور نظم "اخبار" بھی ہے۔ اس نظم کے آخری دو اشعار اخبارات کی سنسنی خیزی اور ہیجان انگیزی کے انسانی ذہن پر خوفناک اثرات کے بارے میں ہے۔

ایڈے قہر سمے دیاں انور جہیڑا خبراں ویکھے

آپے اپنیاں ہڈیّاں بالے آپے بہہ کے سیکے

میرے جہیا نہ مورکھ کوئی پڑھیا لکھیا بندہ

دُکھاں دی میں پنڈ خریدی پَلیوں پیسے دے کے

"جو کوئی اس قدر قہر والے دَور کی خبریں پڑھتا ہے، اس کی حالت ایسے ہی ہے جیسے کوئی خود اپنی ہڈیوں کو جلا کر آگ تاپتا ہے۔ میرے جیسا پڑھا لکھا جاہل اور بے وقوف بھی کون ہو گا جس نے خود پیسے دے کر دُکھوں کی یہ پٹاری (اخبار) خریدی ہے"۔

اس دَور کے اخبارات کی خبریں، سکینڈلز، جھوٹ، بہتان، افتراپردازی اور منفی پراپیگنڈہ صرف پڑھے لکھے لوگوں تک ہی محدود تھا۔ لیکن جدید الیکٹرانک میڈیائی انقلاب نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ گھروں کی لائونج میں جو سکرین پی ٹی وی نے سجا رکھی تھی، اور جو مرنجا مرنج ڈرامے، شاندار موسیقی، مزاحیہ شو اور دیگر پروگرام پیش کر کے لوگوں کی شامیں پُرسکون کیا کرتی تھی اس پر ایک دَم قبضہ کر لیا اور وہاں ایسے لوگوں کو لا بٹھایا جن کی گفتگو سے ایسے شعلے لپکتے تھے کہ جیسے ابھی یہ سٹوڈیو میدانِ جنگ میں تبدیل ہو جائے گا۔

الیکٹرانک میڈیا کا ٹاک شو، ایسا خوفناک عفریت ثابت ہوا، جس نے اپنے آغاز ہی سے مقبول ڈرامہ، موسیقی، مزاحیہ شو، غرض کہ سٹیج ڈرامہ تک کو آئوٹ کر دیا۔ عوام میں سیاسی لیڈروں کو براہِ راست دیکھنے کی ایک پیاس موجود ہوتی ہے۔ جسے وہ بڑے بڑے جلسوں میں شرکت کر کے اور رات گئے تک ان کی تقریریں سن کر پوری کیا کرتے تھے۔

ٹی وی چینلوں کی بدولت اب یہ لیڈر انہیں اپنے گھر کی لائونج میں موجود چند انچ چوڑی سکرین پر نظر آنے لگ گئے تھے۔ لوگوں کی اسی دسترس نے جہاں ٹی وی چینلوں کا کاروبار خوب چمکایا وہاں چینل کی متعصب پالیسی، اینکروں کا ذاتی بغض اور ریٹنگ کی دوڑ نے ایک ایسا طوفان برپا کیا کہ لوگ سکون کی نیند سے محروم ہوتے چلے گئے۔

پاکستان کے ٹی وی چینلوں کے اس بیس سالہ دَور کا اگر کوئی عمیق گہرائی سے مطالعہ کرے تو اس محقق کو ایک انبار ایسی بے بنیاد خبروں کا ملے گا، جو اچانک بریکنگ نیوز کے کھاتے میں پھیلا دی گئیں، ایسے بے شمار سکینڈل ملیں گے جنہیں وقتی ضرورت کے تحت اُچھالا گیا اور لوگوں کی کردار کشی پر تو شاید دفتر کے دفتر لکھے جا سکیں۔ بیس سال سے یہ سب کچھ اس لئے چل رہا ہے کیونکہ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام اپنے وطن اور اس کے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں اور اسی فکر میں غلطاں وہ اپنا تمام کاروبار چھوڑ کر اور اس بات کی پروا کئے بغیر کہ وہ یہ سب دیکھ کر بے سکون ہو جائیں گے، پھر بھی ٹاک شو دیکھتے ہیں، بریکنگ نیوز سنتے ہیں اور بے سروپا سکینڈلوں پر کچھ دیر کے لئے یقین بھی کر لیتے ہیں۔

پاکستانی میڈیا کے ان بیس سالوں کو اگر ایک محاورے میں سمیٹنا ہو تو انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں اس کی ترجمانی کے لئے شاندار محاورے موجود ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں"Making mountain out of a molehill" جس کا اُرزدو زبان میں متبادل ہے "رائی کا پہاڑ بنانا"۔ الیکٹرانک میڈیا کے ان لاتعداد رائی کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ موجودہ فارن فنڈنگ کیس ہے، جس کا فیصلہ آٹھ سال بعد الیکشن کمیشن نے بالآخر سُنا دیا اور میڈیا کو پورے آٹھ سال مہیا کئے، تاکہ وہ اس قوم کو سُولی پر لٹکائے رکھے۔ لیکن آخر کار فیصلے کی حالت غالب کے اس شعر جیسی نکلی:

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے

دیکھنے ہم بھی گئے، پہ تماشہ نہ ہوا

پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں میں جماعتِ اسلامی، تحریک انصاف اور کسی حد تک پاکستان عوامی تحریک ایسی پارٹیاں ہیں جو اپنے لئے عوام سے براہِ راست فنڈز وصول کرنے کا ایک نظام رکھتی ہیں اور باقاعدہ ان فنڈز کا حساب کتاب ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ ورنہ گذشتہ پچھتر سالوں میں بڑی سے بڑی سیاسی پارٹی خواہ "قدیمی" مسلم لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، نون لیگ، ق لیگ ہو یا نیشنل عوامی پارٹی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ہو یا جمعیت العلمائے اسلام، کسی نے ان کو عوام سے فنڈ مانگتے نہیں دیکھا ہو گا۔

ہر ایک کے اپنے "ڈونرز" ہیں جو ان پر سرمایہ نچھاور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے اندر یہ تصور بھی عام ہے کہ چونکہ ان سیاسی پارٹیوں میں بڑے بڑے زمیندار اور سرمایہ دار ہوتے ہیں، اس لئے انہیں چندہ اکٹھا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تحریک انصاف چونکہ اپنے آغاز سے ہی زمینداروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لئے ایک جاذبِ نظر پارٹی نہیں تھی، اس لئے اسے اپنے معاملات چلانے کے لئے براہِ راست لوگوں سے چندہ مانگنا پڑا۔ اس طرح سے چندہ اکٹھا کرنے کا رواج پہلے صرف جماعتِ اسلامی کے ہاں تھا جو "اعانت" کے نام سے فنڈ اکٹھا کرتے تھے۔

ایم کیو ایم بھی کراچی شہر سے چندہ اکٹھا کرتی تھی مگر نہ چندہ دینے والا فریاد کناں ہوتا، اور نہ ہی چندہ وصول کرنے والا شکریے کے الفاظ بولنا اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ بس "شہرِ خموشاں" میں سب چلتا تھا۔ آج اگر تمام سیاسی پارٹیوں کو صرف ایک ہفتے کی مہلت دی جائے کہ تم اپنے قیام سے لے کر اب تک جمع ہونے والے چندے کا حساب لے کر آئو تو اس حکم کا حشر بھی بالکل ویسا ہی ہو گا جیسا اس ملک کے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے احکامات کا ہوتا ہے یا کسی لیڈر سے اس کے اثاثوں کی منی ٹریل مانگنے کا ہوتا ہے۔ ہر کوئی اسے سیاسی پارٹیوں کی آزادی پر حملہ، جمہوریت کی بساط اُلٹنے کے مترادف اور آمرانہ اقدام قرار دے گا، اور ایسا کرنے میں سب سے پیش پیش ٹی وی چینل والے ہوں گے، جنہیں رائی سے پہاڑ بنانے کا فن خوب آتا ہے۔

اس قوم کی بدقسمتی کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھنے والے تجزیہ نگار، سیاسی قائدین اور ان کی گفتگو کا راستہ متعین کرنے والے اینکر پرسن سب کے سب پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ انہیں قانون کی تمام موشگافیاں معلوم ہیں اور وقتاً فوقتاً یہ پاکستان کے اعلیٰ ترین ماہرینِ قانون کو بھی بلاتے رہتے ہیں۔

ان تمام "عظیم اذہان" کو بخوبی علم تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس الیکشن ایکٹ 2017ء کے آرٹیکل 204 کے تحت صرف دو اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر کسی پارٹی کو کسی غیر ملکی شخص نے فنڈ دیئے ہیں تو وہ انہیں ضبط کر سکتا ہے اور اگر مناسب خیال کرے تو عمران خان سے اس کا انتخابی نشان "بلا" چھین سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ تھا سب قیاس آرائیاں اور دور کی کوڑیاں تھیں، جنہیں ملا کر آٹھ سال ہیجان برپا کیا گیا۔ پوری قوم کو سُولی پر لٹکا کر ریٹنگ حاصل کر کے اشتہارات کی آمدن حاصل کی گئی۔

الیکشن کمیشن کا فیصلہ ان لوگوں کے لئے مایوس کن ہے جو سنسنی پسند کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بظاہر "مایوس" فیصلے کے بعد بھی کچھ عظیم دانشور 1970ء کی دہائی میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ اس فیصلے کی بنیاد پر حکومت تحریک انصاف پر ویسے ہی سپریم کورٹ سے پابندی لگوائے گی، جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے دس فروری 1975ء کو نیشنل عوامی پارٹی پر لگوائی تھی۔ ان "عقلمندوں" کو اندازہ نہیں کہ اس سے پہلے عراق کے سفارت خانے سے اسلحہ برآمد ہوا تھا، اکبر بگٹی نے پاکستان توڑنے کا لندن پلان افشا کیا تھا اور پھر سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا کر پابندی لگوائی گئی، جس کے نتیجے میں حیدر آباد بغاوت کیس بھی چلایا گیا تھا۔

خواہشات رکھنا جرم نہیں لیکن ماہرینِ نفسیات ہر بڑی نفسیاتی بیماری کی ایک بنیادی وجہ بیان کرتے ہیں اور وہ ہے "حقائق سے ماورا خواب دیکھنا" جن سے انسان میں وسوسے (Delusions) جنم لیتے ہیں اور پھر یہ وسوسے خفقان، واہموں اور فریبِ نظر (Hallucination) میں بدل جاتے ہیں۔ اس قوم کی بھی کیا قسمت ہے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan