تھا جس کا انتظار
استقبال کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ کس قدر طویل انتظار تھا جو اس دفعہ آئی ایم ایف کی معاشی رتھ پر سوار ہو کر آنے والے اس دولہا کو کرنا پڑا۔ یوں تو پاکستانی وزارت خزانہ کی سجی سجائی سیج ایسے دولہوں کی ہمیشہ منتظر رہی ہے، لیکن اس دفعہ تو انتظام کا عالم مختلف ہے۔
پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ عقد طے ہو جاتا تھا اور اسکی شرائط کے مطابق گھر کا سازوسامان گروی رکھا جاتا تھا، آرائش میں تبدیلیاں کی جاتی تھیں جس سے عقد کی شرائط طے ہوتی تھیں وہی عروسی سیج پر بیٹھتا۔ لیکن اس دفعہ کمال یہ ہے کہ شرائط بہت پہلے طے ہوئیں، ان پر عملدرآمد بغیر کسی اعلان کے خاموشی کے ساتھ کیا جانے لگا۔ دولہا بظاہر خوش وخرم امریکہ سے شادی کی تاریخ طے کر کے لوٹا ہی تھا کہ دونوں فریقین نے کہا، نہیں، اسکے چال چلن ٹھیک نہیں ہیں۔
ہمیں پرانے، آزمودہ اور قابل بھروسہ دولہے کو ہی خزانے کی عروسی سیج پر ایک بار پھر سے بٹھانا ہوگا۔ شادیانے بجے، شہنائیاں گونجیں، وزارت خزانہ کی راہداریوں میں منتظر اہلکاروں نے ماحول سے گرد صاف کی، عالمی معاشی نظام کی تال پر رقص کرنے والوں اور معاشی منصوبہ بندی کی راہداریوں میں کھڑے تالیاں بجاتے خدام اور خواجہ سراؤں نے جشن کا اعلان کر دیا۔ یہ نوشہ میاں تو دیکھے بھالے ہیں۔
نوشہ میاں! عبدالحفیظ شیخ، اسی بوسٹن یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں جہاں سے جان پرکنز (John perkins) نے ڈگری حاصل کرکے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے لیے ایک معاشی غارت گر Economic Hit manکا کردار ادا کرنا شروع کیا اور ایک دہائی جنوبی امریکہ اور مشرق بعید کے ممالک میں چھوٹے پسماندہ ملکوں کی معیشتوں کو قرض کی دلدل میں جکڑنے کے بعد جب اسے ضمیر کی خلش نے مجبور کیا تو اس نے ایک کتاب Confessions of an Economic Hitman لکھ کر پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔
یہ کتاب دو دہائی تک چھپنے سے محروم رہی، لیکن جب وہ منظر عام پر آئی تو دنیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی خونخوار جکڑ بندیوں سے آگاہ ہوئی۔ جبکہ عبدالحفیظ شیخ کی مشہور کتاب ارجنٹائن کے ملک میں نجکاری (privatization) کے شاندار تجربے پر لکھی گئی ہے جو پوری دنیا میں آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر کام کرنے والے معیشت دانوں کو راستہ دکھاتی ہے کہ کس طرح کسی ملک کے اثاثوں کو پہلے پرائیویٹ ہاتھوں میں دیا جاتا ہے اور پھر سرمایہ کاری کے نام پر وہ آہستہ آہستہ بیرونی سرمایہ کاروں کی ملکیت ہو جاتے ہیں اور ان سرمایہ کاروں کے پیچھے سرمایہ ان بیس سودی بینکوں کا ہوتا ہے جو دنیا کی معیشت کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
آپ حفیظ شیخ کی ملازمت کے ممالک کی فہرست غور سے دیکھیں تو آپ کو انکے معاشی تجربے کا اندازہ ہو جائے گا۔ ان میں اکثر وہ ملک ہے جن کی معیشت جو 60 اور 70 کی دہائی میں آرام و سکون سے چل رہی تھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جکڑ بندیوں کے تحت قرضوں کی دلدل میں ایسی دھنسی کے اس سودخور عالمی مالیاتی نظام کی غلام ہو کر رہ گئی۔ ارجنٹائن، بوٹسوانا، تنزانیہ، گھانا، فلپائن، ویت نام، تھائی لینڈ اور اردن جیسے ممالک جو آج اس دلدل میں ایسے جکڑے ہیں کہ ہاتھ پاؤں تک نہیں مار سکتے، وہاں حفیظ شیخ صاحب نے ورلڈ بینک کے نمائندے کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔
عبدالحفیظ شیخ کی آمد کے بعد پاکستان کی معیشت کا گھوڑا جس شاہراہ پر بگٹٹ دوڑے گا، اس پر اس گھوڑے نے اپنے سفر کا نیا آغاز عمران خان کی حکومت کے آنے سے پہلے پینسلوینیا یونیورسٹی کے معاشی غارت گر مفتاح اسماعیل نے کر دیا تھا اور اس گھوڑے کو ایسی کھائی کی جانب دھکیل دیا تھا جہاں سے باہر بھی آئی ایم ایف ہی لا سکتی تھی۔
دنیا بھر کے وہ ممالک جن میں حفیظ شیخ جیسے لوگ ورلڈ بینک کے مشن پر ہوتے ہیں اور جو قرضوں کی دلدل میں جکڑے جا چکے ہوتے ہیں اوران کیلئے قرضوں کی ادائیگی مشکل ہوتی ہے تو وہاں آئی ایم ایف اپنا مشہور "structural adjustment programme" ساخت اور ہم آہنگی کا پروگرام لے کر آتی ہے۔ یعنی آپ اپنی معیشت کو ان خطوط پر استوار کریں جیسی آئی ایم ایف کی مرضی ہے۔ ان اصلاحات کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپکی معیشت میں بس اتنی ہی جان رہے کہ آپ قرضوں کی قسط ادا کر سکیں۔
یہ اس پروگرام کے دو اہم بنیادی خدوخال اور تبدیلیاں ہوتی ہیں جو مقروض ملکوں سے کروائی جاتی ہیں اور انہیں معیشت کی مضبوطی کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ اس میں پہلی تبدیلی یا فیصلہ یہ کروایا جاتا ہے کہ آپ اپنی کرنسی کی قدر یا قیمت میں کمی کریں۔ اسکا مقصد یہ بیان ہوتا ہے کہ اس ملک کا مال سستے داموں خریدا جا سکے گا اور زیادہ ملے گا اور دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ یہ ملک اپنے بینکوں کی شرح سود میں اضافہ کریں تاکہ اس کے پاس اتنا سرمایہ اکٹھا ہو سکے کہ آپ قسط ادا کر سکیں۔ ان دونوں کاموں کا آغاز عمران خان کی حکومت اور اسد عمر کے آنے سے پہلے اس لیے کروا دیا گیا تھا تاکہ آنے والی حکومت کو ایسی دلدل میں اتار دیا جائے تو پھر آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر باہر نکلنا ہم ناممکن بنا دیں گے۔
آئی ایم ایف کے آکٹوپس میں رہتے ہوئے اگر کوئی ملک آزادانہ معاشی پالیسی اور باعزت زندگی کے خواب دیکھتا ہے تو کم از کم اس مانیٹری دنیا(Monetary world) میں ناممکن ہے۔ پوری دنیا کی کوئی معیشت ایسی نہیں ہے جسے قرض کی دلدل میں جکڑ کر اسے معاشی غلام نہ بنایا گیا ہو۔ اس معاملے میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ سے لے کر افریقہ کے جبوتی تک ہر ملک اس عالمی مالیاتی نظام کے شکنجے میں ہے۔
ایک زمانے میں ملکوں کے پاس یہ سہولت میسر تھی کہ وہ کیمونسٹ دنیا کا حصہ بن کر سودی مالیاتی نظام سے باہر رہ جاتے، لیکن اب تو شکنجہ بہت مضبوط کر دیا گیا ہے۔ اس شکنجے سے صرف وہ ملک نکل سکتے ہیں جو اس بات پر اتفاق کرلیں کہ انہوں نے صرف انہی وسائل میں زندگی گزارنی ہے جو انہیں میسر ہیں۔ انہیں چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے اور وسائل سے زیادہ ترقی کے خواب نہیں دیکھنا۔ لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں آئی ایم ایف کے خریدے ہوئے سیاستدان ملک میں مصنوعی ترقی کا ایک خوبصورت جال بنتے ہیں جس میں معیشت کا پرندہ پھڑپھڑاکر دم توڑ جاتا ہے۔
یہ مصنوعی ترقی قرض در قرض منصوبوں سے ہوتی ہے اور منصوبے بھی وہ جنکی کوئی پیداواری صلاحیت نہیں ہوتی، وہ کسی انسان کی صلاحیت میں اضافہ نہیں کرتے۔ لیکن شہر کھوکھلی ترقی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ شاندار سڑکیں، موٹروے، ایئرپورٹ، میٹرو، چکا چوند روشنیاں وغیرہ۔ مل نہ کارخانہ، سکول نہ کالج، ہسپتال نہ ڈسپنسری کچھ بھی تو نہیں ہوتا لیکن آپ کی معیشت گروی ہو چکی ہوتی ہے۔ اس گروی معیشت سے نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا ایسے تمام قرضوں سے انکار جو عوام سے پوچھے بغیر صرف چند لوگوں کے فائدے پر خرچ کئے گئے۔ لیکن یہ ہمت شاید عمران خان میں تھی اور نہ ہی اسد عمر کی تعلیم اور ٹریننگ انہیں مغربی سودی مالیاتی نظام کے سامنے سر اٹھانے دیتی تھی۔
شروع شروع بڑے ہاتھ پاؤں مارے گئے اس دلدل سے نکلنے کے لیے لیکن بے سود۔ آخرکار اسی آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ ایسے میں شرائط قرضہ لینے والا نہیں قرضہ دینے والا عائد کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کیلئے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پہلی شرط یہ تھی کہ خزانے پر ہمارا بندہ بیٹھا ہوگا جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ہم جو چاہتے ہیں وہ بخوشی نافذ العمل ہو۔