سید علی گیلانی ؒ کا پاکستان
اب کون اتنے ایمان، یقین اور جذبے کے ساتھ یہ نعرۂ مستانہ بلند کرے گا اور لاکھوں کشمیریوں کو اس نعرے کا دیوانہ بنائے گا? "ہم پاکستانی ہیں ? پاکستان ہمارا ہے"۔ اس پُرجوش ہجوم کے سامنے جب اس عظیم قائد نے یہ عظیم نعرہ بلند کیا تھا تو سب سے پہلے اس نے دو فقروں میں اپنے اور اس نعرے کا جواب دینے والے لاکھوں لوگوں کے دلوں کو ایک شرک سے بھی پاک کیا تھا۔ سیّد علی گیلانی ؒنے اپنے "محبوب پاکستان" کے بارے میں فرمایا۔"ہم پاکستان کے حکمرانوں سے بھی، سیاسی قیادت سے بھی اور وہاں کی عوام سے بھی یہ مطالبہ کریں گے کہ پاکستان اسلام کیلئے حاصل کیا گیا ہے اور اس کو اسلام کیلئے ہی استعمال کیا جانا چاہئے۔" (سیّد علی گیلانی ؒکے اس فقرے کے بعد کشمیریوں کے پُرجوش ہجوم میں ایک غلغلہ بلند ہوتا ہے)۔ اس کے بعد کشمیر کی وادیوں میں آزادی کا ضیغم گونجتا ہے۔"وہاں سوشلزم نہیں چلے گا (لوگ نہیں کہتے ہیں تو سیّد کہتا ہے، دونوں ہاتھ بلند کر کے کہو) لوگ پکارتے ہیں "نہیں چلے گا، نہیں چلے گا"۔ سیّدپھر نعرہ زن ہوتا ہے، سیکولر ازم نہیں چلے گا، نیشنل ازم نہیں چلے گا، امریکہ کا آرڈر نہیں چلے گا، صوبائیت اور قومیت نہیں چلے گی، وہاں صرف اور صرف اسلام چلے گا۔" لوگوں نے سیّد کے نعروں کا بھر پور جواب دیا تو اللہ کی ذات پر توکل رکھنے والے اس مردِ درویش نے ہجوم سے کہا، سب بولو "انشاء اللہ" یہ نعرہ تین دفعہ لگوایا۔
یہ ایک نعرہ نہیں سیدالانبیاء ؐ کی سُنت اور اللہ کی ذات پر کامل ایمان کا اعلان تھا۔ اس کے بعد سیّد علی گیلانی ؒنے پاکستان سے اپنے رشتے کی غرض و غایت واضح کی، فرمایا "اور اسلام کی نسبت سے، اسلام کے تعلق سے، اسلام کی محبت سے، ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔"پاکستان سے محبت کا اس قدر پُرجوش نعرہ صرف وہی شخص بلند کر سکتا ہے جس کا دل اللہ کی حاکمیت اور فرمانروائی کے علاوہ قومیت، رنگ، نسل، زبان، علاقہ، سوشلزم، سیکولر ازم، امریکی ورلڈ آرڈر کی جمہوریت اور علاقائی عصبیت کے شرک سے پاک ہو۔ سیّد علی گیلانی ؒنے اس مملکتِ خدادادِ پاکستان کی بنیادیں استوار ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں۔ کون تھا جو اس وقت یہ جرأت بھی کر سکتا کہ ہم ایک ایسا ملک حاصل کرنے جا رہے ہیں جس میں معاشی ترقی ہو گی، فکری آزادی ہو گی، جمہوری اقدار ہوں گی۔
پاکستان کے آرکائیوز ایسی ہزاروں تقریروں، قراردادوں اور روئیدادوں سے بھرے ہوئے ہیں جو 23 مارچ 1940ء کی قرار داد لاہور سے لے کر 14 اگست 1947ء کی صبح آزادی تک قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے مسلم لیگی لیڈر نے کی تھیں۔ ہر کسی کے ہونٹوں پر صرف اور صرف ایک ہی نعرہ تھا کہ ہم مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن چاہتے ہیں، جہاں ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کا دین نافذ کرنے میں آزاد و خودمختار ہوں۔ اگر ان مسلم لیگی رہنمائوں میں سے کوئی ایک بھی معاشی مجبوری یا فکری آزادی کا تذکرہ بھی کرتا، تو لوگ اُسے سٹیج سے اُتار دیتے۔ مسلم لیگ کے لیڈر تو اس قدر جذباتی نعرہ بازی کرتے تھے کہ پورے پنجاب میں مسلم لیگ کو "مسلم لیک" کہتے تھے۔"لیک" پنجابی میں "لکیر" کو کہتے ہیں۔ وہ فضاء میں اُنگلی سے ایک لیک یعنی لکیر کھینچتے اور کہتے "یہ مسلم لیگ ایک لکیر ہے، جو اس طرف ہے وہ مسلمان ہے اور جو دوسری طرف ہے وہ کافر۔"
ہم بہتر سال تک یہ سبق بھولے رہے، لیکن کشمیری حریت پسندوں نے یہ سبق یاد بھی رکھا اور ایک لاکھ شہداء کی قربانی سے اس "سرو زبُستانِ اسلام" کی آبیاری کی۔ دُنیا بھر میں آزادی کی تحریکیں اپنے خطے کیلئے چلتی ہیں لیکن کشمیر اس دھرتی کا نام ہے جس نے ایک ایسے خواب کی تکمیل کیلئے سو سال تحریک چلائی جس کا نام "پاکستان" تھا۔ وہ خطہ ان سے الگ تھا مگر وہ اس کے ساتھ اس لئے شامل ہونا چاہتے تھے کیونکہ وہ اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ وہاں اسلام نافذ ہو گا۔ سیّد علی گیلانی ؒکا کمال یہ تھا اس نے زندگی بھر کشمیریوں کا یہ خواب ٹوٹنے نہیں دیا۔ یہ بہت مشکل ذمہ داری تھی۔ وہ پاکستان جس میں بسنے والوں کے خواب خود ٹوٹ چکے ہوں۔ جو نسلی تعصب اور صوبائی منافرت کے طوفان میں اس قدر گھر جائیں کہ ان کی آدھی آبادی کے خواب خلیج بنگال کے گہرے پانیوں کے سپرد ہو جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آبادی جس بنگالی قومیت کا نعرہ لے کر اُٹھی تھی اسی کی نفی کرتے ہوئے انہیں "بنگلہ دیشی" کہہ کر نفرت سے الگ کر دیا گیا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ جس ملک میں انگریز بہادر کی کھینچی ہوئی لکیروں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور یادش بخیر سرحد میں صوبائی عصبیت کے خاردار پودے دھرتی کا سینہ برباد کر چکے ہوں، جہاں سیکولر ازم اور لبرل ازم کا بیج اس پرویز مشرف کی آمریت میں بویا جائے جس نے خود اور جس کی زیر سایہ سپاہ نے "نظریۂ پاکستان" کے تحفظ کی قسم اُٹھائی ہو۔
جس ملک کی سیاسی اشرافیہ امریکہ کے ورلڈ آرڈر کی اس قدر غلام ہو کہ وہ ایسے ہر قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرے جو اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہو۔ ایسے ملک کیلئے محبت کے جذبے کو قائم رکھنا، اس کیلئے نوجوانوں کو شہادتوں کے نذرانے دینے کیلئے آمادہ کرنا اور اپنے شہیدوں کو پاکستان کے پرچم میں دفن کرنے کی روایت کو برقرار رکھنا، یہ حوصلہ، یہ عزم اور یہ استقلال صرف سیّد علی گیلانی ؒکا خاصہ تھا، جو مرتے دَم تک قائم رہا۔ وہ کبھی پاکستان سے مایوس نہیں ہوئے اور نہ کبھی کشمیریوں کی لازوال جدوجہد سے دلبرداشتہ۔ عظیم قائدین کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ اگر ان کی نظروں میں منزل کا تعین ہو تو پھر وہ راستے کی کٹھنائیوں اور لوگوں کے طعنوں سے دلبرداشتہ ہو کر اپنا راستہ کھوٹا نہیں کرتے۔ جبکہ سیّد علی گیلانی ؒکی منزل تو انبیاء کا مشن تھا، اللہ کی زمین پر اللہ کے احکامات کا نفاذ۔ ایسا تو انسانی تاریخمیں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ دُنیا بھر کی تمام اقوام نے اس فیصلے کو بے دلی سے ہی سہی، قبول کرلیا تھا کہ ڈھائی ارب انسانوں کی دُنیا میں پانچ کروڑ مسلمانوں کو تقریباً دس لاکھ تیس ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ اس لئے دیا جائے کہ وہاں صرف اور صرف مسلمان آباد ہوں گے اور پھر جہاں مسلمان آزاد و خودمختار ہوں، وہاں اللہ ان پر ایک اہم ذمہ داری عائد کرتا ہے، "اگر ہم زمین میں ان کے پائوں جما دیں تو یہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں " (الحج: 41)۔
اللہ نے ہمارے پائوں پاکستان کی زمین پر جما دیئے، لیکن ہم نے اللہ کے کسی ایک حکم کو بھی اس زمین پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کی۔ پھر ہم سے ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر چھین لیا گیا۔ اس کے باوجود ہمارے حالات بدلے نہ خیالات۔ مگر ہماری منافقتوں کے باوجود کشمیری اس سرزمین کی محبت میں جان دیتے رہے۔ سیَد علی گیلانی ؒ نعرہ زن رہے مگر زندگی کے آخری ایام میں اس بیمار قائد کی نظروں کے سامنے میرے اللہ نے یقین کا ایک اور دروازہ کھول دیا تھا، ایمان کی پختگی کا ایک اور راستہ وا کر دیا تھا۔ تاریخ نے بہت بڑی گواہی دی کہ روس کے خلاف افغانوں نے جنگ پاکستان کی مدد سے جیتی تھی، لیکن امریکہ کے خلاف فتح مبین میں وہی پاکستان امریکہ کا نان نیٹو اتحادی تھا۔ اللہ نے اس جنگ کو تھوڑے سے بھروسے اور تھوڑے سے شرک سے بھی پاک کر دیا۔ پاک ہے وہ ذات توکل کو ہر شرک سے پاک کر دیتا ہے۔ سید علی گیلانی ؒکا پاکستان وہ کعبہ ہے جس میں نسل، رنگ، صوبائیت، سیکولر، لبرل ازم کے لا تعداد بُت سجے ہوئے ہیں۔ یہ بُت اس کعبہ کے مکین خود صاف کر لیں تو بہتر ہے ورنہ اللہ کی طرف سے بدترین عذاب ان کی راہ دیکھ رہا ہے جبکہ ذلّت و رسوائی کا ایک عذاب تو ہم پر پہلے سے مسلّط ہے۔
اللہ نے دُنیا میں ذلّت و رُسوائی کا ایک کلیہ بتایا ہے، "تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے سے انکار کرتے ہو، تم میں سے جو لوگ ایسا کریں گے ان کی سزا اور کیا ہے کہ دُنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں " (البقرہ: 95)۔ اللہ کھلی نافرمانی والوں کو ڈھیل دیتا ہے اور روزِ حشر ان سے معاملہ کرے گا لیکن وہ قومیں جو اسے اپنا الٰہ یعنی حاکم مانیں مگر اس حاکم کی نہ مانیں تو انہیں دُنیا میں ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔ کیا ہم ذلیل و خوار نہیں ہیں۔