Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Strategic Gehrai Ke Dushman

Strategic Gehrai Ke Dushman

سڑیٹیجک گہرائی کے دشمن

جیسے جیسے افغانستان میں ذلّت آمیز شکست کے بعد امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے دن قریب آرہے ہیں، بہت سے لوگوں کے شکموں میں طرح طرح کے مروڑ اٹھنا شروع ہوگئیہیں۔ شکست تو امریکہ اور اسکے حواریوں کی ہوئی ہے لیکن ماتمی چہرے آپ کو زیادہ تر پاکستان اور ہندوستان میں ملیں گے۔ بنارس کے گھاٹوں، کاشی وشوا ناتھ کے مندروں اور ناگ پور کے راشٹریہ سیوک سنگھ کے ٹریننگ سینٹروں میں یہ ماتم اپنی دو سو ساٹھ سالہ (260) پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ 14جنوری 1761ء کا پانی پت کسے یاد نہیں۔ ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کبھی بھی ہندو مذہبی اور نسلی اتحاد اس قدر وسیع اور مؤثر نہیں ہواتھا جیسا بالا جی باجی راؤ کے مرہٹہ عروج میں ہوا۔ عظیم مغلیہ سلطنت چند مربع کلومیٹر کے علاقے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ شاہ عالم ثانی کے بارے میں یہ محاورہ زبان زد عام تھا "شاہ عالم۔۔ از دلّی تا پالم"۔ پالم وہ جگہ ہے جہاں ان دنوں دلّی کا ایئرپورٹ ہے۔ صدیوں پرانا "ھندوتوا" کا خواب، گپتا سلطنت کی نشاۃِ نو کا خواب، ہندوستان کو ایک گیروے رنگ کے ہندو پرچم تلے متحد کرنے کا خواب۔ یہ سب خواب ہی تو تھے، جو اس وقت ٹوٹے، جب یہ اپنی تکمیل کے آخری مرحلے میں تھے۔ ھندوتوا اور اکھنڈ بھارت کے پرچم بردارکب بھولتے ہیں، جب پانی پت میں پورے ہندوستان کی اجتماعی ہندو طاقت، چار لاکھ افرادی قوت، ہاتھیوں، گھوڑوں، رتھوں اور اسلحہ سے لیس فوج کی صورت کھڑی تھی۔ جس کے مقابلے میں سرزمینِ افغانستان سے احمد شاہ ابدالی، ایک عالمِ دین شاہ ولی اللہ کے بلانے پر صرف 41800سپاہی لے کر آیا تھا اور اس نے صدیوں کی تیاری اور زمانوں کی منصوبہ بندی کو خاک میں ملا دیا تھا۔

گزشتہ ڈھائی سو سال سے آج تک افغان قوم کا برصغیر کے مسلمانوں کی مدد کو یوں ٹوٹ کر آنا، ایک متعصب ہندو کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہے۔ لیکن اب اس ماتم کدے میں دو اور گروہ بھی شریک ہو چکے ہیں۔ ایک نظریاتی کیمونسٹ جو 1979ء کے دسمبر میں خوشی سے ایسے اچھل رہے تھے، جیسے اب جلدہی پوری دنیا پر کیمونسٹ انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ پاکستان کا انقلابی کیمونسٹ تو مونچھوں پر تاؤ دے کر دھمکیاں دیتا پھرتا تھا کہ وہ دیکھو روس کی افواج افغانستان میں داخل ہو گئی ہیں، انہیں طورخم اور چمن کے بارڈرعبور کرتے ہوئے دیر نہیں لگے گی اور پھر تمہارے اس نظریاتی اسلامی ملک میں نہ تمہارے مدرسے رہیں گے اور نہ داڑھیاں۔ تم تاجکستان اور ازبکستان کے مسلمانوں کی طرح قصۂ ماضی بن جاؤ گے۔ لیکن صرف آٹھ سال بعد سوویت افواج افغانستان سے ایسے بھاگیں کہ ساتھ ہی کیمونسٹ سپرپاور کو بھی لے ڈوبیں۔ کیمونسٹوں کے دلوں سے کوئی 15مئی 1988ء کے دن کے زخم کیسے کھرچ سکتا ہے، جس دن ذلّت آمیر شکست کے بعد ایک نظریاتی سوویت فوج افغانستان سے نکلنا شروع ہوئی تھی۔ ھندوتوا اور اکھنڈ بھارت کے پروانوں کے زخم کی ہمراہی میں "یادش بخیر" کیمونسٹوں کے زخم کو بنے ہوئے بھی تیس سال ہوچکے ہیں۔ اب تواس ماتم کدے میں جدید سیکولر، جمہوریت پرست لبرل بھی شامل ہوچکے ہیں۔

ان کا دکھ تو بہت شدید ہے۔ انہوں نے تو 1992ء سے یہ تصور دل میں مضبوط کر لیا تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب دنیا میں صرف ایک ہی طاقت ہے، ایک ہی سپر پاور اور ایک ہی فرمانروا ہے جس کا نام "امریکہ" ہے۔ اللہ کے لشکروں سے بے بہرہ اور نا آشنا یہ لوگ بہت پر اعتماد تھے۔ ظاہر بات ہے کہ تمام عقلی دلائل ان کے اعتماد میں ہی اضافہ کرتے تھے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ افغانستان میں موجود صرف ساٹھ ہزار طالبان کے مقابلے میں دنیا کے تمام ممالک ایک ساتھ متحدہ طور پر آجائیں اور اڑتالیس ملک تواپنی فوجیں بھی اتار دیں اور پھر بھی ان سب کو شکست ہوجائے۔ یہ شکست ہضم نہیں ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے مکمل طور پر نکلنے سے پہلے طرح طرح کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں، نفرتوں کے گڑھے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں، ایک ایسی فضا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں پاکستان کو افغانستان سے ایک بار پھر دور کیا جائے۔

تاریخ سے نابلد، جغرافیے سے نا آشنا اور اسلامی اخوت کے تصور سے بے بہرہ یہ تینوں زخم خودہ طبقات، جنہیں اندازہ تک نہیں کہ سرزمینِ افغانستان کا اس خطے پاکستان سے رشتہ کتنا گہراہے اور نہ صرف یہ کہ پاکستان بلکہ پورے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے دل بھی کیسے صدیوں سے افغانوں کے ساتھ دھڑکتے چلے آئے ہیں۔"سٹریٹجک گہرائی" (Strategic Depth)کا تصور یہ دانشور اور سیاست دان لوگ، برطانوی ہند کی فائلوں، جنرل منٹگمری کی تقریروں اور افغانستان کے "بفرزون" کے پلان سے نکالتے ہیں۔ اس طرح کا پراپیگنڈہ نوّے کی دہائی میں افغانوں کی سوویت یونین پر فتح کے تاثر کو زائل کرنے کے لیئے تخلیق کیا جاتا تھا۔ تجزیے یوں کئے جاتے تھے کہ امریکہ اور مغربی جمہوری طاقتوں نے اپنی سرد جنگ کے سب سے بڑے حریف سوویت یونین کو شکست دینے کے لیئے افغان مجاہدین کی مدد کی اور یہ جنگ برطانوی ہند پالیسی والی سٹریٹیجک گہرائی کا تسلسل ہے۔ تاثر یہ دینا مقصود تھا کہ یہ کوئی جہاد نہیں تھا اور نہ ہی یہ اللہ کی مدد اور نصرت کی علامت ہے، یہ تو "چارلی ولسن کی جیت ہے"۔ مگرمیرے اللہ نے بیس سال بعدامریکہ اور اس کے حواریوں کو بدترین شکست سے دو چار کرکے ان کے منہ ہمیشہ کے لیئے بند کردیئے۔ لیکن دل میں شکست کی ٹیسیں اٹھتی ہیں تو بیچارے اپنی پٹاری سے نفرت کا کوئی نہ کوئی سانپ ضرور نکالتے ہیں۔

افغانستان اور پاکستان کے عوام کو گمراہ کرنے کے لیئے سب سے زہریلا سانپ "سٹریٹجک گہرائی" کا سانپ ہے۔ اس کے ذریعے بیچارے افغانوں کو یہ پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان نے اپنے مفاداور بھارت سے اپنی دشمنی کی وجہ سے تمہیں استعمال کیا ہے۔ دراصل پاکستان تمہیں اپنا پچھواڑا (Backyard) سمجھتا ہے جسے محفوظ کرنے کے لیئے اس نے دنیا سے مل کر لاکھوں افغانوں کا خون بہایا اور تمہیں لڑوایا۔ دوسری جانب یہی "دوغلے چہرے" پاکستانی عوام میں یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اس سٹریٹجک گہرائی کی مہم جوئی کی وجہ سے پاکستان میں ہیروئن آئی، کلاشنکوف آئی وغیرہ وغیرہ۔ یہ حقائق توڑنے اور جھوٹ بولنے میں کمال رکھتے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ 1979ء سے لے کر 1988تک سوویت یونین اور افغان ایجنسیوں کی مدد سے پاکستان دھماکوں سے گونج رہا تھا، لیکن 1988ء میں جیسے ہی سوویت افواج نکلیں تو اس وقت سے لے کر گیارہ ستمبر 2001ء تک بارہ سال کا ایک ایسا پرامن دور ہے جب کوئٹہ کی جناح روڈ اور پشاور کے قصہ خوانی بازار کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں۔ افغانستان کے مسلمانوں اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے درمیان جو اخوت ہے، دراصل وہ ایک ایسی "سٹریٹجک گہرائی"ہے جسے کسی پاکستانی حکمران یا افغانستانی دانشور کی تصدیق کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ اخوت ہے کہ علامہ اقبال اپنی زندگی کے آخری ایّام میں افغانستان صرف اس لیئے گئے تھے کہ اگر ان کے خوابوں کی تعبیر پاکستان وجود میں آگیا تو افغان ملت اس نوزائیدہ ملک کی پشت پناہ ہو۔ وہیں انہوں نے کہا تھا

فکرِ رنگانم کند نذرِ تہی دستانِ مشرق

پارۂ لعلے کہ دارم از بدخشانِ شما

"تمہارے بدخشاں سے جو لعل کا ٹکڑا میرے پاس ہے اسے میری رنگین فکر مشرق نے تہی دستوں کو نذر کر دی"۔ غزنی شہر میں داتا گنج بخش علی بن عثمانؒ کے والد عثمان بن علیؒ کا مزار، ابوالحسن خراسانیؒ کے خرقوں کی کرامات اور شہاب الدین غوری کی فتح۔ مولانا جامی کی نعت مولانا روم کی مثنوی، ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے جد امجد اور برصغیر میں مدفون ہزاروں اولیاء اللہ کا قدیم وطن "افغانستان" وہ زنجیر ہے جس سے پاکستان اور افغانستان کے عوام بندھے ہوئے ہیں۔ جب 1979ء میں روس افغانستان میں داخل ہوا تو سوات اور بنیر کے پہاڑوں کے درمیان ایک کٹیا میں رہنے والے ایک صاحبِ نظر نے کہا تھا، روس مار کھائے گا، پھر امریکہ آئے گا، مار کھائے گااور پھر ایک دن وہ آئے گا جب افغانستان اور پاکستان ایسے ہوں گے جیسے ایک ملک۔ درویش کی دو پیش گوئیاں تو پوری ہوچکیں تیسری کا انتظار ہے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Kya Sinfi Tanaza Rafa Hoga?

By Mojahid Mirza