Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Siraj Ul Haq Ba Muqabla Irfan Siddiqui (1)

Siraj Ul Haq Ba Muqabla Irfan Siddiqui (1)

سراج الحق بمقابلہ عرفان صدیقی (1)

پاکستان کی سیاسی زندگی گذشتہ پچاس سال سے اس قدر تلخ ہو چکی ہے کہ یہاں اپنا نقطۂ نظر بیان کرنا خود کو ایک ایسے خوفناک جنگل میں اُتارنا ہے جہاں طعن و تشنیع، گالی گلوچ، ذاتیات اور اہلِ خانہ تک کی کردار کشی جیسی بلائوں کا آپ کو سامنا کرنا پڑے گا۔

عرفان صدیقی جیسے صاحبِ علم اور حسنِ کردار سے آراستہ شخص کو جب سراج الحق صاحب کے بیان پر مخالفانہ تبصرہ کرنا پڑا، تو انہوں نے کالم کے آغاز میں ہی سراج الحق صاحب کی تعریف و توصیف کر کے خوبصورت پیش بندی کی اور انیسؔ کے اس شعر کو نثری قالب میں ڈھالا۔

خیالِ خاطر احباب چاہئے ہر دم

اُنیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

سراج الحق صاحب کی درویشی اور قلندری کا بھی انہوں نے تذکرہ کیا اور پھر انہیں"عالی مقام" کے منصب پر سرفراز کرنے کے بعد ہی اپنے لئے ان سے اختلاف کی گنجائش نکالی۔ عرفان صدیقی صاحب کے ساتھ میرا ایک گونا احترام اور محبت کا رشتہ ہے اور میں ان کی نفاستِ طبع کا مداح ہوں۔

مجھے اس بات کا بھی مکمل ادراک ہے کہ سراج الحق صاحب خود نہ بھی چاہیں، مگر ان کے بیان سے اگر کوئی اختلاف کی جرأت کرے تو پھر جماعتِ اسلامی کی "جدید سوشل میڈیائی ذرّیت" اس "ناہنجار" کے ساتھ "ہولناک" سلوک کرتی ہے۔

جماعتِ اسلامی کی سوشل میڈیا ٹیم تو ایک "لفظ" بھی زبان سے نکالنے کی معافی نہیں دیتی۔ آپ نے خواہ ان کے حق میں لکھتے ہوئے ایک عمر گزاری ہو مگر وہ ایکدم آپ کے گذشتہ کئی دہائیوں کے تعلق پر پانی پھیرتے ہوئے، آپ کو سیدھا سیدھا، "منافق"، بِکائو اور گمراہ کے القابات سے نواز دیں گے۔ ان کی دشنام طرازی کی "لغت" میں جو فصاحت و بلاغت ہے، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے جدید "لونڈوں" کو یہ "دولتِ علم" میّسر ہی نہیں ہے۔ عبداللہ بن ابی کے نقشِ جدید تک یہ سب کچھ کہہ ڈالتے ہیں۔

یہ المیہ صرف جماعتِ اسلامی کے ساتھ ہی درپیش نہیں ہے بلکہ ہر وہ مذہبی سیاسی جماعت درجہ بدرجہ اس مرض کا شکار ہے، جو انتخابی سیاست کی "غلاظت نگری" میں اُتر چکی ہے۔ ان میں سب سے کم عمر جماعت تحریکِ لبیک پاکستان ہے۔ آپ ان کے سوشل میڈیا پر ایک نظر دوڑا کر دیکھ لیں تو آپ کو اور کچھ نیا ملے نہ ملے، مگر آپ کی گالیوں کے ذخیرہ الفاظ میں خاطر خواہ اضافہ ضرور ہوگا۔

یہی عالم مولانا فضل الرحمن کے عقیدت مندوں کا ہے۔ ان "علماء و فضلاء" کی گالیوں کا ذخیرہ الفاظ تو عربی و فارسی لغت سے "مرصّع" ہے۔ نون لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی والوں کو ایسی "علمی بصیرت" واقعی میّسر نہیں ہے، جس میں یہ تمام مذہبی جماعتیں بدرجۂ اتم کمال رکھتی ہیں۔ یہ "مذہبی سیاسی میڈیا ماہرین" انتہائی آسانی سے کسی پر کافر، قادیانی، یہودیوں کا ایجنٹ، کے فتوے لگا سکتے ہیں۔

اس طرح کے فتوے پی ٹی آئی، نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے "کارندے" لگانے کی جرأت ہی نہیں کر پاتے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر انہوں نے ایسا کوئی فتویٰ لگایا تو پھر مقابلے میں ان تمام مذہبی جماعتوں کے دارالافتاء کھل جائیں گے، جس کے نتیجے میں کئی "سرفروش" اگر جوش میں آ کر ان کی جانب بندوقیں تان لیں، تو پھر موت یقینی ہے۔

عرفان صدیقی صاحب کے کالم کا پہلا پیرا ان کے اسی خوف کی عملی تصویر نظر آتا ہے۔ میں نے ایک دفعہ مرحوم منور حسن صاحب، امیر جماعتِ اسلامی سے دست بستہ کہا تھا کہ جماعتِ اسلامی کو کم از کم پانچ سال کے لئے تمام تر سیاسی سرگرمیاں ترک کر کے صرف اپنے اراکین کے تزکیہ پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے تاکہ جماعتِ اسلامی کا وہ دور سنہرا لوٹ آئے کہ جب خلقِ خدا پکار پکار کر کہا کرتی تھی کہ ہم جماعتِ اسلامی والوں کو بھلے ووٹ دیں یا نہ دیں ہم ان کے اخلاق، حسنِ سیرت، کردار اور ایمانداری کی گواہی ضرور دے سکتے ہیں۔

ان تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا جنگجوئوں کا عالم اس قدر غضب ناک ہے کہ اگر آپ مولانا فضل الرحمن، سراج الحق یا سعد رضوی کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالیں، ان تینوں کی پالیسیوں پر بھی تنقید نہ کریں، بالکل خاموش رہیں، مگر آپ سے ایک غلطی سرزد ہو جائے کہ آپ ان کے کسی انتخابی مخالف مثلاً "عمران خان" کے ہی کسی موقف کے حق میں کوئی بات کہہ دیں تو پھر دیکھیں"میڈیا کے مذہبی جرنیل" فوراً آپ پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیں گے، آپ کی کردار کشی شروع کر دیں گے اور پھر ان کا ہر کارکن ثواب سمجھ کر اس میں شریک ہو جائے گا۔

ان سے پوچھو کہ میں نے کہ کیا آپ کے اکابرین کو کچھ کہا، کیا آپ کی کسی پالیسی پر تنقید کی تو یہ ایک دم آگ بگولا ہو کر بولیں گے تم نے"فلاں ابن فلاں" کا ساتھ دیا، اس لئے اب ہمارے نزدیک تم بھی "فلاں ابن فلاں" ہو۔ کاش! یہ تمام مذہبی جماعتیں اپنے تمام سوشل میڈیا محبّان کو اپنے "پیجز" اور اکائونٹس پر رسول اکرم ﷺ کی یہ حدیث اور قرآنِ پاک کی یہ آیت لکھنے کا حکم دیں تو عین ممکن ہے یہ سدھر جائیں۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، "مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے" (صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔ اس کے ساتھ ہی اگر قرآنِ پاک کی یہ آیت بھی تحریر ہو جائے، "بے شک اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا" (المنافقون:6)۔ یعنی آپ گالی دینے سے فاسق ہو جاتے ہیں تو پھر آپ ہدایت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے لئے یہ آیت اور حدیث کافی ہے۔

اس موضوع پر بہت کچھ ہے جو ضبطِ تحریر میں لانا لازمی ہے۔ فساد خلق سے ڈر کر اگر مذہبی سیاسی جماعتوں کی نسلوں کی غلطیوں کی طرف اشارہ نہ کیا گیا تو روزِ حشر ہم سب لکھنے والے اس کے لئے جواب دہ ہوں گے، کیونکہ یہ وباء اب زہر کی طرح تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کے نوجوانوں میں سرایت کر چکی ہے۔ لیکن اس دفعہ میری مشکل بہت آسان ہے کیونکہ مجھے سراج الحق صاحب کے بیان اور اس کے جواب میں عرفان صدیقی صاحب کے کالم دونوں میں سے مجھے سراج الحق صاحب کے بیان کا دفاع کرنا ہے، اس لئے عین ممکن ہے اس دفعہ میں جماعتِ اسلامی کی گولہ باری سے بچ جائوں گا۔

رہا عرفان صدیقی صاحب کا معاملہ تو ان کے نہ تو پروانے اور فروزانے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی سوشل میڈیا سیل ہے، جس کا "گالی بریگیڈ" ان کے دفاع پر مامور ہو۔ اس لئے مجھے ان کی جانب سے کوئی خوف نہیں۔ ویسے بھی ان جیسے وسیع القب اور عالی ظرف لوگ تو پاکستانی معاشرے کا جھومر ہیں۔ شریف خاندان سے اپنی تمام تر محبتوں اور وابستگیوں کے باوجود ان کی مجھ سے محبت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ بلکہ عین ان ایّام میں، جب میں شہباز شریف کے زیرِ عتاب تھا تو ان کے حج کے سفر نامے کی کتاب شائع ہوئی، جس پر پاکستان ٹیلی ویژن نے ان سے ایک انٹرویو کا اہتمام کرنا تھا۔

عرفان صدیقی صاحب نے ٹیلی ویژن والوں کو ہدایات دیں کہ میں اس کتاب پر صرف اوریا مقبول جان کو انٹرویو دوں گا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ارباب حل و عقد مشکل میں پڑ گئے کہ مجھے کیسے بلائیں، تو انہوں نے کہا، اوپر والوں کی ناراضگی کی فکر مت کرو، میں سنبھال لوں گا۔ اس رشتے اور تعلق کی نزاکت اور عرفان صدیقی صاحب کی محبتوں کے احترام کے ساتھ میں ان سے اختلاف اور سراج الحق صاحب کے بیان کی حمایت کی جسارت کر رہا ہوں، جو خالصتاً علمی، تاریخی اور نظریاتی ہے۔ (جاری ہے)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari