سازش یا مداخلت: تحقیقاتی کمیشن
پاکستان کی گزشتہ تاریخ میں عوامی سطح پر دو بڑے طوفان ایسے برپا ہوئے ہیں، جنہوں نے نہ صرف پاکستانی سیاست کا دھارا بدلا ہے، بلکہ ایک طوفان کے نتیجے میں تو یہ ملک ہی آدھا رہ گیا۔ لیکن گزشتہ ایک ماہ سے جس تیسرے طوفان کا آغاز ہوا ہے، اس طوفان کی شدت، آغاز ہی سے ان دونوں سیاسی طوفانوں سے کہیں زیادہ ہے۔
پہلا طوفان اس وقت آیا جب دس جنوری 1966ء کو تاشقند میں ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان 1965ء کی سترہ روزہ جنگ کے سلسلے میں مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا۔ ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت وزیر خارجہ تھا، اس نے اس معاہدے کو جیتی ہوئی جنگ میز پر ہارنے کے مترادف قرار دیا اور 31 اگست 1966ء کو وزارت سے استعفیٰ دے کر ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا نعرہ لگاتا ہوا راولپنڈی سے ٹرین پر سوار ہوا، ٹرین صبح کو لاہور پہنچی، راستے میں استقبال ہوئے، لیکن لاہور کے استقبال نے ہوا کا رُخ بدل دیا، اور گزشتہ دس سالوں سے جدوجہد کرتی ہوئی متحدہ اپوزیشن عوام کی نظروں سے غائب ہو گئی اور اس کے بعد اکیلا بھٹو ہی میدانِ سیاست میں گونجتا نظر آیا۔
دوسرا طوفان اس وقت اُٹھا جب سات مارچ 1977ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے، لیکن نتائج آنے پر پاکستانی قومی اتحاد نے اسے بدترین دھاندلی قرار دیتے ہوئے، تین دن بعد ہونے والے صوبائی الیکشنوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ یہ بائیکاٹ اس قدر کامیاب تھا کہ اس دن پورے پاکستان کے پولنگ اسٹیشنوں پر ہُو کا عالم طاری رہا۔
اس کے بعد آنے والے اگلے چار مہینوں کی تحریک نے اس ملک کی سیاست کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ مگر ان دونوں طوفانوں کی شدت سے کئی گنا زیادہ طاقت ور وہ ردّعمل تھا جو نو اپریل 2022ء کو پورے ملک کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر اور بیرون ملک پاکستانیوں نے بیک وقت ظاہر کیا۔ ان کے غم و غصے سے لگتا تھا جیسے کسی نے ان کی ذاتی توہین کر دی ہو۔ ایسا اچانک ردّعمل اس سے پہلے آج تک نہیں دیکھا گیا، جو پورے ملک کے شہریوں اور بیرون ملک پاکستانیوں نے ایک ساتھ ظاہر کیا ہو۔ ایسا فوری ردّعمل صرف 27 دسمبر 2007ء کو بے نظیر کی موت کے سانحے کے بعد دیکھنے میں آیا تھا، مگر اس کی شدت صرف سندھ تک محدود تھی۔
موجودہ طوفان کا راستہ یوں تو صرف اور صرف فوری الیکشن ہی بدل سکتے ہیں، کیونکہ ایسی صورت میں عوامی غم و غصہ کی قوت یقیناً الیکشنوں کی جانب مڑ جائے گی اور یہ طوفان اس سیلاب کی طرح ہو جائے گا جیسے دریا کے شور کو نہروں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ لیکن جن قوتوں نے یہ میلہ سجایا ہے وہ ابھی تک اس بات پر یقین نہیں کر پا رہے کہ یہ "تام جھام" کو اتنی جلدی اُجاڑ دیا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ انہیں بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ یہ "کٹھ پُتلی" تبدیلی ان کے کسی کام نہیں آ سکے گی۔ اس لئے کہ ایسے حالات میں حکومت سے فیصلے کرنے کی قوت چھِن جایا کرتی ہے اور عوامی ردّعمل کا خوف حکمرانوں کو دیوار سے لگا دیتا ہے۔ اس حالتِ نزع میں ایک ماہ سے پورے ملک کے عوام سُولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔ انہیں یقین نہیں آ رہا کہ ان کے ساتھ یہ کیا اور کیسے ہو گیا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں حقائق کو جتنا چھپایا جائے گا، معاملہ اتنا ہی مزید اُلجھے گا اور طرح طرح کی بے سروپا باتیں پورے ملک میں مسلسل ہیجان پیدا کرتی رہیں گی۔
اس ہیجان کو ختم کرنے کا واحد حل عوام کو اس سارے معاملے سے فوری طور پر مکمل باخبر کرنا ہے۔ ایسی کوئی بھی معلومات، جس کے خفیہ رکھنے سے ملک میں انتشار اور افراتفری بڑھنے کا اندیشہ ہو، اسے فوراً طشت از بام کر دینا چاہئے، چاہے اس کے نتیجے میں کسی کی بھی عزت نیلام ہوتی ہو تو ہو جائے۔ کیونکہ پاکستان کے استحکام، سلامتی اور عزت و وقار سے قیمتی کوئی شے نہیں ہے۔ حکومت نے ایک کیمشن کے قیام کا اعلان کیا ہے۔
ایک صاف اور شفاف کمیشن صرف ایک ہفتے کے اندر عوام کے سامنے مکمل رپورٹ لا سکتا ہے، اگر اس کی تحقیق کی شرائط (Terms of Reference) صحیح مرتب کی جائیں۔ میں ترتیب وار ان شرائط کا بتا دیتا ہوں، جن کے جوابات اور شواہد صرف ایک ہفتے میں اکٹھے کئے جا سکتے ہیں۔
(1) کیا امریکہ دُنیا بھر کے ممالک میں خفیہ یا بظاہر حکومتوں کو تبدیل کرتا یا تبدیل کرنے کے لئے اس پر اثر انداز ہوتا ہے؟ اس کے جواب کے لئے امریکہ کے اپنے نیشنل سکیورٹی آرکائیوز اور دُنیا بھر کے ممالک میں لکھی گئی کتابوں اور رپورٹوں میں متعلقہ مواد موجودہے۔
(2) کیا امریکہ پاکستان میں کبھی حکومتوں کو تبدیل کرنے، حکمرانوں کو قتل کرنے، سخت پابندیاں لگانے، ناراض ہونے پر سزا دینے میں ملوث رہا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی امریکی نیشنل سکیورٹی آرکائیوز میں تفصیلاً موجود ہے اور لاتعداد امریکی رہنمائوں کی کتابوں میں بھی بے شمار شواہد موجود ہیں جو لیاقت علی خان اور ضیاء الحق کی موت سے لے کر پریسلر ترمیم، کارگل جنگ، نواز شریف کی جدہ منتقلی، بے نظیر مشرف معاہدے تک کمیشن کو تمام مصدقہ مواد مل جائے گا۔
(3) کیا موجودہ خط میں یہ الفاظ تحریر ہیں کہ "اگر عدمِ اعتماد کامیاب ہو گئی اور عمران خاں کی حکومت ختم ہو گئی تو آپ کو معاف کر دیا جائے گا"۔ اس ایک فقرے کا جواب اگر "نہ" میں ہے تو مزید تحقیق کو روک دیا جائے اور اگر "ہاں " میں ہے تو پھر اگلے سوال یہ ہو سکتے ہیں۔
(4) کیا عدمِ اعتماد کی اس تحریک، جس کا خط میں تذکرہ ہے، اس سے پہلے امریکی سفارت کار پی ٹی آئی کے ناراض اراکین اور اپوزیشن اراکین سے ملتے رہے؟ اگر ملتے رہے ہیں تو پھر ریفرنس کے طور پر دیکھا جائے کہ ایسا جب انہوں نے یوکرین یا دیگر ممالک میں کیا تو پھر وہاں عدمِ اعتماد آ گیا یا حکومت تبدیل ہو گئی۔ شواہد سے اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
(5) کیا ان ملاقاتوں کے بعد تحریک عدم اعتماد، جس پر گزشتہ دو سالوں سے اپوزیشن میں اتفاق رائے نہیں ہو رہا اس نے اچانک زور پکڑا؟ تمام اتحادی ایک ساتھ کیسے جمع ہوئے؟ اس کا جواب تو بے معنی ہے، کیونکہ سب جانتے تھے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف گررہا ہے، اور ایک سال کے بعد مزید گر جاتا، لیکن عمران خاں کی حکومت گرا کر اسے سیاسی شہید بنا کر نون لیگ اور دیگر پارٹیوں نے اچانک اپنے پائوں پر کلہاڑی کیوں ماری۔
(6) کیا اس عدمِ اعتماد کے لئے پوری اسٹیبلشمنٹ بالکل ویسے ہی متحرک ہوئی جیسے دیگر ممالک میں ہوتی ہے یا جیسے گزشتہ ستر سالوں میں پاکستانی حکام امریکی احکامات کے سامنے سرنگوں ہوتے رہے ہیں؟
(7) خط میں جس عدمِ اعتماد کا تذکرہ ہوا ہے کیا وہ واقعی وقوع پذیر ہو گیا؟ جواب یقیناً ہاں میں ہے۔ اگر ایسا ہو گیا ہے تو کیا خط کے مطابق ہمیں معاف کر دیا گیا ہے، ناراضگی ختم ہو گئی۔ اس کا فوری جواب تو آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر سے آٹھ ارب ڈالر تک کے اضافے سے مل جائے گا اور امریکی وزیر خارجہ کے پاکستانی وزیر خارجہ کو فون سے ہی اندازہ ہو سکتا ہے۔ پھر بھی کمیشن امریکہ اور یورپ میں مقیم پاکستانی سفارت کاروں سے روّیوں کی تبدیلی سے متعلق دریافت کر سکتے ہیں۔
یہ اتنی سی کہانی ہے، جس کی تفتیش و تحقیق صرف اور صرف تین دنوں میں مکمل ہو سکتی ہے۔ کمیشن کو آزاد، خودمختار اور شفاف تحقیق کرنی چاہئے اور ہر وہ دستاویز جو کمیشن کے سامنے پیش کی جائے، اس کو عوام کے سامنے لانا چاہئے۔ دُنیا کے ہر ملک میں ایک عرصے کے بعد خفیہ معلومات عوام کے سامنے لانے کے قوانین موجود ہیں اور اگر فوری ضرورت ہو تو انہیں عوامی مفاد میں فوراً سامنے لایا جاتا ہے۔
کوئی ادارہ، کوئی شخص یا کوئی حکومتی یا ادارہ جاتی سربراہ پاکستان کی بقائ، سلامتی اور مستقبل سے زیادہ محترم، مقدس اور اہم نہیں ہے۔ اس وقت جو طوفان برپا ہے اور جس میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اگر لوگوں کے سامنے سچ نہ بولا گیا تو جھوٹ کی اتنی دکانیں کھلیں گی کہ وہ پورے ملک میں آگ لگا دیں گے۔ ایسی آگ کو بجھانا پھر شاید کسی کے بھی بس میں نہیں رہے گا۔