قومی یہودی فنڈ سے’’ایلاد‘‘ تک (3)
یروشلم شہر میں یہودیوں کی دو ہزار سال بعد واپس آباد کاری کے پیچھے جہاں گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی صہیونی تحریک اور عالمی طاقتوں کی پشت پناہی ہے وہیں دنیا بھر کو اس جگہ کی اہمیت اور حیثیت سے آگاہ کرنے اور اسے ایک عالمی ورثہ قرار دلوانے کے لئے آثار قدیمہ کے تحفظ کا نعرہ ایسا خوش کن تصور ہے کہ ہر کوئی ماضی کی کھوج اور اس کی بھول بھلیوں میں کھو جاتا ہے۔ وہ ظالموں، قاتلوں اور حیوان صفت انسانوں کی تباہ حال بستیوں کو انسانی ورثے کے احترام کے طور پر دیکھتا ہے۔"ایلاد"کا قیام بنیادی طور پر اسی خوش کن مقصد کی آڑ لے کر ہوا۔"شہر دائودؑ " وہ مقام ہے جسے عبرانی میں عرف عام میں ایلاد کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں مسلمانوں کی ایک بستی "وادی حلوہ" ہے، جسے رومن زمانے میں سیلون کہتے تھے۔ جبکہ یہودی اس مقام کو "اردائود" یعنی شہر دائودی یا "ایلاد" کہتے ہیں اور اس کی بنیاد پر تورات و انجیل کے حوالے پیش کرتے ہیں کہ یہی وہ مقام تھا جہاں تین ہزار سال قبل حضرت دائود علیہ السلام نے جالوت(Goliar)جیسے ظالم، جابر اور طاقتور بادشاہ کو قتل کیا تھا اور یہیں پر اپنی عظیم الشان سلطنت کی بنیادی رکھی تھی۔ اسی جگہ کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ ؑ نے ایک مادر زاد اندھے کو بینائی عطا کی تھی۔
اسرائیلی حکومت نے سب سے پہلے اس مقام کو "عالمی ورثہ" (World Heritage) قرار دلوایا اور پھر اس مشترکہ ورثے کی اصل حالت میں بحالی کی آڑ میں وہاں پر صدیوں سے رہنے والے مسلمانوں کو متنازعہ بنایا گیا۔"ایلاد" کے بنیادی مقاصد میں اولین مقصد آثار قدیمہ کی بحالی، سیاحت اور اس علاقے میں قدیم شہر دائودی کے کھنڈرات کی کھدائی سے اصل شہر کے خدوخال برآمد کرنا رکھا گیا تھا لیکن ایک مقصد یہ بھی تحریر کیا گیا کہ اس علاقے میں یہودیوں کو آباد کرنا ہے۔ چونکہ عالمی ورثے کا تصور پوری دنیا میں ایک علمی، تحقیقی اور تہذیسی اہمیت کے طور پر مسلم کروا دیا گیا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے "یونیسکو" کو اس کا مستقل نگہبان بھی مقرر کر دیا گیا ہے، اس لئے اب کسی بھی آثار قدیمہ کے کھنڈر یا تہذیبوں کی باقیات کے تحفظ کے نام پر آپ کسی کو بھی بدنام یا نیک نام ٹھہرا سکتے ہیں یا پھر جاہل یا تہذیب یافتہ افغانستان پر حملے کے لئے دنیا میں بسنے والے کروڑوں لاتعلق انسانوں کو قائل کرنے کے لئے جو تیر سب سے کارگر تھا وہ یہ تھا کہ دیکھو انہوں نے ہزاروں سال پرانے بدھ کے مجسموں کو بامیان کے علاقے میں گرا دیا۔ یہ کس قدر غیر انسانی اور غیر مہذب لوگ ہیں۔ ایسے لوگوں کو نہ وہاں رہنے کا حق ہے اور نہ ہی حکومت کرنے کا۔
آثار قدیمہ کے تحفظ اور کھدائی کے نام پر اس تنظیم"ایلاد" کو ایک ایسا لبادہ (garb)مل گیا، جس کے تحت یہ جس جگہ سے کسی بھی شخص سے اور کسی بھی طرح کی کمائی سے چندہ اکٹھا کرے، اسے کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔"شہر دائودی" میں زمینیں خریدنے کی اجازت بھی آثار قدیمہ کے نام پر دی گئی اور اس تنظیم کے قیام ہی سے اسرائیلی حکومت نے اس بات کی پابندی ان پر سے ہٹا دی کہ وہ اپنے چندہ دینے والوں (donars)کا نام ظاہر کریں گے، حالانکہ اسرائیل کے قانون کے مطابق اگر کوئی رفاحی تنظیم بیس ہزار "شیکل" سے زیادہ چندہ کسی شخص سے لیتی ہے تو اس کا نام ظاہر کرنے کی پابند ہے، جبکہ 2006ء سے 2013ء تک ایلاد نے ہر سال 56ملین شیکل چندے کی صورت وصول کئے جو کل 450ملین شیکل بنتے ہیں۔ مگر ان کے نام ظاہر نہیں کئے۔ یوں تو امریکہ اور یورپ میں بسنے والا ہر یہودی خاندان بظاہر ایک علمی اور تہذیبی نظر آنے والے کام کے لئے چندہ دیتا ہے لیکن کچھ عرصہ سے میڈیا پر اس تنظیم کو فنڈ دینے والوں میں سے ان لوگوں کے نام بھی سامنے آنے لگے جو پوری دنیا میں اسلام اور مسلمان دشمنی کی وجہ سے مشہور ہیں۔
گزشتہ سال 21ستمبر 2020ء کو برطانوی اخبارات نے لکھا کہ مشہور فٹ بال کلب (چیلسی) کے مالک ابراہموچ نے برٹش ورجن آئی لینڈمیں قائم اپنی آف شور کمپنی کے ذریعے پانچ کروڑ پائونڈ ایلاد" کو دیے ہیں۔ یہ تمام سرمایہ اس علاقے "شیخ جراح" میں یہودی بستیاں آباد کرنے کے لئے دیا گیا تھا جہاں سے گزشتہ دنوں ہونے والی اسرائیل فلسطین گیارہ روزہ جنگ کا آغاز ہوا، اس کی اس "امداد" کی بنیاد پر اسے اسرائیل کی شہریت عطا کر دی گئی۔ اس سرمائے کی مدد سے دھوکہ دہی، فراڈ اور دیگر حربوں سے مسلمانوں کی وقف زمینیں ہتھیاکر یہودیوں کو آباد کیا جاتا رہا۔ دوسرا نام اور اہم گروہ جس کے بارے میں اخبارات نے رپورٹ شائع کیں وہ کلیمنٹ فائونڈیشن اور اس کے زیرسایہ کام کرنے والے سینٹر فار سکیورٹی پالیسی کے سربراہ فرینک گیفنی (Frank Gaffeny)کا ہے۔ یہ وہی تھنک ٹینک ہے جس نے ٹرمپ کو امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کے لیے کئی سو صفحات پر مشتمل منفی مواد فراہم کیا تھا۔ کلیمنٹ فائونڈیشن نے بدنام زمانہ مڈل ایسٹ فورم کو بھی مسلسل سرمایہ فراہم کیا جس کا سربراہ گریگ رومن (Gregg Romen) ہے جو ہمابرہ اور شطیلہ کے قتل عام کے ذمہ دار ایریل شیرون کا دست راست رہا ہے۔
مڈل ایسٹ فورم وہ تنظیم ہے جس نے دنیا بھر میں اسلام فوبیا کے علمبردار برطانوی ٹومی رابنسن کی رہائی کے لئے امریکہ اور یورپ میں تحریک چلائی جو فنس بری Finsbury پارک کی مسجد پر حملے اور آلمنڈ بری (Almond bury)کے سکول میں مسلمانوں کے بچوں پر حملے اور دیگر جرائم میں قید تھا۔ فرینک گیفنی نے اپنے تھنک ٹینک کے ذریعے تیرہ دفعہ اینڈریس بیروک (Andres Brcivik)کی تعریف کی جس نے ناروے میں فائرنگ کرتے ہوئے ستر لوگ قتل کئے تھے اور جس کی تصویریں نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملہ کر کے پچاس مسلمانوں کو شہید کرنے والے برینٹن ٹیرینٹ نے بھی اپنے کمرے میں لگائی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ "ایلاد" کو سرمایہ فراہم کرنے والوں میں ہرٹوگ (Hertug)فائونڈیشن بھی ہے۔ جو ڈیوڈ فریڈیم سنٹر چلاتی ہے اور ٹامی رابنسن کی رہائی کے بعد اسے امریکہ میں شہریت لے کر دیتی ہے۔ یہی فائونڈیشن ایک اور ادارے FIDFکو سرمایہ فراہم کرتی ہے جس کا سربراہ رابرٹ شل مین وہ شخص ہے جو ٹامی رابنسن کی برطانوی اسلام دشمن تنظیم کو بھی سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک نیٹ ورک ہے جو صہیونیت، اسلام فوبیا اور یروشیلم میں یہودیوں کی آباد کاری کے گرد گھومتا ہے۔
اس نیٹ ورک کے لئے دنیا بھر سے سرمایہ اکٹھا ہوتا ہے جس سے یروشیلم میں زمینیں خریدی جاتی ہیں، مکان بنائے جاتے ہیں، اسلحہ خریدا جاتا ہے اور سیکورٹی کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے، میڈیا میں مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے لیکن اس عالمی سطح کے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو امریکہ، یورپ اور دیگر قوتوں کی حمایت حاصل ہے اور دنیا بھر میں جدید تہذیب کے پروانے سیکولر لبرل دانشوروں کا قلم بھی ان کی حمایت میں رواں دواں رہتا ہے۔