قارون صفت دانشوری اور اللہ کی ناراضگی
علامہ اقبالؒ نے جب عین عفوانِ شباب میں اپنی شہرۂ آفاق نظم "شکوہ" تحریر کی تو وہ ایک خوگر حمد کا انتہائی مؤدب گلہ تھا۔ اس ساری نظم کا مرکزی شعر تھا:
رحمتیں ہیں تِری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
اقبالؒ کی نظم "شکوہ" ایک عام مسلمان کے جذبات کی ترجمانی تھی جو اس دَور میں ذِلّت و رُسوائی کا شکار تھا، لیکن "شکوہ" کے جواب میں لکھی جانے والی نظم "جوابِ شکوہ" اپنے اندر ایک الہامی کیفیت لئے ہوئے ہے۔ ایسے لگتا ہے پوری نظم ایک نعت ہے جو رسولِ اکرم ﷺ کی مکمل اتباع کو اُمت کے تمام مسائل کا حل بتاتے ہوئے اس آخری شعر کی جانب کشاں کشاں لئے جا رہی ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
رسولِ اکرم ﷺ سے وفا کا اصل مفہوم، جو قرآن نے بتلایا، وہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں آپؐ کی پیروی کی جائے۔ "اے نبیؐ! کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا" (آلِ عمران: 31)۔ یہ پیروی زندگی کے ہر شعبے میں لازم ہے، خواہ سیاست ہو یا تجارت، خاندان ہو یا قبیلہ۔ اللہ کی ناراضگی، عذاب یا آزمائش کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ آپ اللہ کے منکر ہو جائیں، ملحد بن کر اس کی ذات کا انکار کر دیں اور اپنی زندگیاں سیکولر، لبرل اور روشن خیال طرزِ معاشرت پر گزارنے لگیں۔ اللہ اپنے انکار پر انسان کو اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے دیتا ہے۔ وہ کسی کے رزق میں کمی نہیں کرتا، مگر وہ ایک بات کا اعلان کر دیتا ہے کہ تم اللہ کے وجود کا انکار اور احکامات کی ہنسی اُڑاتے ہو تو پھر، "وہ ان کی رسی دراز کئے جاتا ہے اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں" (البقرہ: 15)۔
اللہ ایسے لوگوں کی سزا و جزا، روزِ قیامت پر رکھ چھوڑتا ہے۔ لیکن دُنیا میں اللہ کا غصہ، ناراضگی اور غضب تو ہوتا ہی مسلمانوں کے لئے ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو واحد مالک و مختار ماننے کے بعد اسکے احکامات پر عمل نہیں کرتے۔ یہ روش بالکل ایسے ہے جیسے آپ کسی کلب کی ممبر شپ لیں، کسی ملٹری یا سول سروس کی اکیڈیمی میں داخل ہوں، ان کے قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کے عہد نامے پر دستخط کریں، مگر ڈھٹائی کے ساتھ کچھ قواعد کو مانیں اور کچھ کو نہ مانیں تو آپ سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ ایسے ہی ان مسلمانوں کو جو اللہ کے کچھ احکامات کو مانیں اور کچھ کا انکار کریں، اللہ دُنیا میں بھی سزا ضرور دیتا ہے۔ "تو کیا تم اللہ کے بعض احکامات کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو، تو جو تم میں سے ایسا کرے گا، تو اس کا بدلہ دُنیا کی زندگی میں ذِلّت و رُسوائی کے سوا اور کیا ہے" (البقرہ: 85)۔
یہ ہے اقبالؒ کے اس شکوے "برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر" کا قرآنی جواب، جسے اقبالؒ نے "جوابِ شکوہ" کے تمام اشعار میں منظوم کیا ہے کہ مسلمانوں کی ذِلّت و رُسوائی کی بنیادی وجہ اللہ سے وعدہ کر کے مُکر جانا ہے۔ سیکولر، لبرل اقوام نے اللہ کے احکامات ماننے کا کوئی وعدہ نہیں کیا اس لئے وہ اپنے انکار کی سزا آخرت میں بھگتیں گے۔ ہم نے وعدہ کو توڑ کر اللہ کے غضب کو دُنیا میں ہی دعوت دے رکھی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ "میں تمہیں دُنیا میں ذلیل و رُسوا رکھوں گا اور آخرت میں شدید عذاب دوں گا"۔
اگر ہم صرف اس بات پر ہی رُک جاتے کہ اللہ کے احکامات کی نہ مانتے تو اللہ ہمیں ذِلّت و رُسوائی تک ہی محدود رکھتا۔ لیکن ہمارے ملک میں روز دانشور، قلم کار، اینکر پرسن، تجزیہ نگار اور سائنسی پنڈت تک، کی اکثریت اپنی تحریروں سے اللہ کو للکارتے پھرتی ہے۔ یہ سیلاب، زلزلوں اور آفتوں کی ایسی توجیہات کرتے ہیں، جو اللہ نے قرآن میں اپنے غضب کا باعث بتائیں ہیں۔ اس میں اللہ کو ناراض کرنے والی اہم دلیل وہ ہے جو قارون نے حضرت موسیٰؑ کے سامنے دی تھی۔ جب حضرت موسیٰؑ نے قارون سے کہا کہ "یہ مال جو تجھے اللہ نے دیا ہے اس میں آخرت کے لئے خرچ کرو " تو قارون کا جواب تھا، "یہ تو مجھے میری دانش اور علم کی وجہ سے ملا ہے" (القصص: 78)۔
قارون اپنی معاشی ترقی پر نہ صرف خود تکبّر کرتا تھا، بلکہ اس دَور کے "دُنیا پرست دانشور" اسے کامیاب ترین انسان کہتے تھے۔ اللہ قرآن میں پورا منظر کھینچتا ہے، "پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا تو دُنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے، کاش! ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو قسمت کا بڑا دھنی ہے" (القصص: 79)۔
اس کے بعد اللہ کا غضب ہوا اور قارون کے انجام کا منظر یہ تھا کہ وہ زمین میں اپنے محل سمیت دھنسا دیا گیا اور وہ سب جو اس کی تعریفیں کر رہے تھے اسے بچا نہ سکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ایسے علم و تدبیر پر بھروسہ کرنیوالے قارون صفت انسانوں کے بارے میں بار بار فرماتا ہے، "جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس پر اپنی طرف سے فضل کر دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو میری تدبیر کی وجہ سے ایسا ہوا ہے" (الزّمر: 49)۔
آج آپ پاکستان میں آنے والے سیلاب کی ساری "سائنسی علمی" اور دانشورانہ بحثیں اُٹھا لیں، سب انسانی تدبیر، عقل و دانش اور علم کے گرد گھومتی ہیں اور ان میں سے اللہ سرے سے ہی غائب ہے۔ فلاں ملک نے ایسا کیا تو وہ سیلاب سے بچ گئے، ہم نے ایسا نہیں کیا اس لئے تباہی ہمارا مقدر بنی۔ کاش! یہ تدبیر کے غلام صرف گذشتہ چند سالوں میں آنے والے دو المیوں کا مطالعہ کر لیں کہ اللہ نے انسان کے علم و دانش و تدبیر کے بنائے ہوئے تمام انتظامات غارت کر دیئے اور ایک نئے طریقے سے عذاب بھیج دیا۔
جاپان نے خود کو زلزلہ پروف بنا لیا تو اللہ نے گیارہ مارچ 2011ء کو سونامی بھیج کر 360 ارب ڈالر کا انتظام غارت کر دیا اور 2020ء میں حفظانِ صحت کے اُصولوں کی معراج والے امیر ممالک میں کورونا بھیج کر پینسٹھ لاکھ سولہ ہزار لوگوں کو لقمۂ اجل بنا دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس قسم کے تکبّر کی مثال سورہ کہف میں دو باغ والوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے دیتا ہے۔ ان میں سے ایک کو اپنے بندوبست، تدبیر اور دولت پر فخر تھا اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ باغ میں جاری نہر اور حفاظتی بندوبست کی وجہ سے اس کا باغ کبھی تباہ نہیں ہو گا۔ اس نے اپنے "اللہ پر بھروسہ کرنے والے" ہمسائے سے کہا، "میں نہیں سمجھتا کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی آئے گی اور اگر میں اللہ کی طرف پلٹایا گیا تو اس سے بہتر پائوں گا" (الکہف: 36)۔
اس کے ساتھی نے اسے کہا کہ تُو شرک کر رہا ہے اور تُو نے اپنے باغ میں داخل ہوتے، ماشاء اللہ یعنی "اللہ نے چاہا" نہیں کہا تو عین ممکن ہے اللہ اس پر عذاب بھیج کر اسے چٹیل میدان کر دے۔ وہ شخص اپنی تدبیر کے تکبّر میں رہا اور پھر، "اس کے سارے پھل گھیر لئے گئے اور وہ اپنے تمام انتظامات اور لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور اس کا سارا باغ اوندھا اُلٹا پڑا تھا۔ اور وہ کہہ رہا تھا کاش! میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا" (الکہف: 48)۔
یہاں اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ مشرک انسان وہ بھی ہے جو اپنی عقل، دانش، تدبیر اور دولت پر مکمل بھروسہ کرتا ہے۔ جبکہ بدترین مشرک وہ ہے جو اللہ کے مقابلے میں اس دانش، عقل، تدبیر اور دولت کے سرِ عام گُن گاتا ہے اور جو لوگ دوسروں کو اللہ پر بھروسہ کرنے، اس سے استغفار کرنے اور اللہ سے عذاب ٹالنے کی درخواست کرنے کیلئے کہتے ہیں، یہ ان کا تمسخر اُڑاتا ہے۔ ایسا میرے ملک میں مسلسل ہوتا چلا آ رہا ہے، اور یہی تمسخر ہی تو ہے جو میرے ملک پر اللہ کی ناراضگی کا مسلسل باعث ہے۔