Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Peshawarana Khatrat Se Jismani Khud Mukhtari Aur Me Too Tak

Peshawarana Khatrat Se Jismani Khud Mukhtari Aur Me Too Tak

پیشہ ورانہ خطرات سے جسمانی خود مختاری اور "می ٹو" تک

جدید لائف سٹائل کا کمال یہ ہے کہ اس نے بلاامتیاز مذہب، اخلاق اور اقدار ہر اس شعبے، پیشے اور کام کاج کو عزت دی ہے جس سے سرمایہ کمایا سکتا ہے یا اس سے لائف سٹائل کی آسانیاں خریدی جاسکتی ہیں۔ کیونکہ سرمایہ ایک بنیادی قدر اور منزل مقصود تھی تو اس کو کمانے کے راستے میں جو دکھ، تکلیفیں اور پریشانیاں بھی آئیں وہ قابل تکریم ہوگئیں۔ ان دکھوں، تکلیفوں، پریشانیوں اور مصیبتوں کو جدید اصطلاح میں "Occupational hazards"(پیشے سے منسلک خطرات) کہا جاتا ہے۔ مثلا کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے افراد عموما سینے کے امراض کا شکار ہوتے ہیں اور کیمیائی مواد سے متعلقہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے جلدی امراض سے عمر بھر چھٹکارا نہیں پا سکتے۔

جدید لائف سٹائل کو پوری دنیا میں عزت و حرمت اور قانونی حیثیت دینے کی سب سے بڑی اور اہم تنظیم اقوام متحدہ ہے۔ اسی لیے اس ادارے نے اپنے دو ذیلی اداروں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے تحت دنیا بھر کے تمام پیشوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کیں، ان کے تحفظ کے لیے چارٹر بنائے اور ان کی بقاء اور سالمیت کے لیے عالمی معاہدے کئے۔ اسی طرح ان پیشوں سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اور جسمانی اثرات و امراض پر بھی وسیع کام کیا گیا۔ آئی ایل او تو پیشوں کے پیشہ ورانہ معاملات یعنی تنخواہ، نوکری کی سکیورٹی، انشورنس، پنشن اور استحصال تک محدود رہی جب کہ ڈبلیو ایچ او نے ہر پیشے کے ساتھ منسلک ان خطرات، بیماریوں اور پریشانیوں کا جائزہ لیا اور تدارک کے لیے کام کیا۔

اس ادارے کی تمام تر مطبوعات میں ہر پیشے سے منسلک "Occupational hazards" پر ایک سیریز جسے وہ Anthology کہتے ہیں، مرتب کی، جس کا عام اردو ترجمہ "مجموعہ" ہو سکتا ہے۔ ان میں خواتین سے متعلق مجموعے کا نام ہے: "Anthology on women health and environment" (مجموعہ برائے خواتین کی صحت اور ماحول)۔

اس میں ان تمام تر معزز، محترم، مکرم اور قابل عزت پیشوں کا ذکر ہے جو دنیا بھر کی خواتین اختیار کرتی ہیں اور سرمایہ کماتی ہیں۔ چونکہ گھریلو زندگی، بیوی ہونا، ماں بننا اور بچے پالنا ایک ایسا کام ہے جس سے سرمایہ نہیں کمایا جاتا، اس لیے بیوی یا ماں جو انگریزی کے ایک لفظ "House wife" میں باہم اکٹھے ہو جاتے ہیں، اس لیے ہاؤس وائف کا ان کتابوں میں کوئی ذکر نہیں۔ البتہ وہ پیشہ جسے دنیا کا سب سے قدیم پیشہ کہا جاتا ہے یعنی "جسم بیچنا" اس کا اور اس سے منسلک تمام خطرات کا ان دونوں اداروں کی کتابوں میں تفصیل سے ذکر بھی ملتا ہے اور دنیا بھر میں اس شعبے سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے طبی شعبے میں تحقیقات بھی مسلسل ہوتی ہیں اور ان سے بچاؤ کے لیے مہمات "campaigns" بھی چلائی جاتی ہیں تاکہ لوگوں میں اس پیشے کو اختیار کرنے کا خوف ختم ہو اور اس کے گاہکوں میں بھی کمی واقع نہ ہو۔

اس پیشہ سے منسلک خواتین کو انسانی تاریخ میں بے شمار تحقیر آمیز ناموں سے پکارا جاتا تھا جیسے اردو میں طوائف اور کسبی وغیرہ اور انگریزی میں "prostitute" کا لفظ اور اسی طرح کے بے شمار حقارت آمیز نعم البدل موجود تھے اور آج بھی ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کے کاغذات، انسانی حقوق کی تنظیموں کی زبان اور جدید لائف سٹائل کے جدید "مہذب" ادب نے انہیں "Sex Workers"یعنی جنسی کارکن کہہ کر پکارنا شروع کیا اور پھر تمام ممبران ممالک کو ان کی رجسٹریشن کے بارے میں کہا گیا اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین اور انجمنیں بنائی گئیں۔ انہیں پولیس کی دست برد اور مردوں کے جسمانی و نفسیاتی تشدد اور معاشی استحصال سے بچانے کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی گئیں۔

اس سارے عمل سے یہ تصور مضبوط ہوا کہ "جسم ایک عورت کی ذاتی ملکیت ہے" اور وہ اسے اپنی مرضی سے جسے، جہاں اور جس کے سپرد چاہے کر سکتی ہے، لیکن کوئی اسے مجبور نہیں کر سکتا، خواہ وہ اس کا شوہر ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں سے اس قدیم ترین پیشہ کے ساتھ منسلک "دلال" Pimp کے پیشے پر پابندیاں لگائی جانے لگیں۔ اس وقت دنیا کے ہر "مہذب" اور "جدید لائف سٹائل" کو اپنانے والے ملک میں دلال ہونا، دلالی کرنا، عورتوں کو جسم بیچنے کے لیے مجبور کرنا ایک قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ جبکہ پیرس کی شانزے لیزے پر کھڑی عورت آپ کو روک کر اپنے جسم کا سودا کر سکتی ہے اور اسے کوئی پکڑ نہیں سکتا۔

اسی طرح ایک عورت چند ہزار روپے جمع کرکے اپنی قسمت آزمائی کے لیے بنکاک، بھارت یا مشرقی یورپ کے ممالک سے ہجرت کر کے ایمسٹرڈم کے مشہور بازار حسن جسے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کہتے ہیں، وہاں دکان کرایہ پر لے کر اپنا جسم فروخت کر سکتی ہے۔ لیکن اگر انہی ممالک سے کوئی مرد یا عورت چند عورتوں کو ایک گروپ کی صورت یا کسی ایک عورت کو اس بازار یا پھر اس جیسے کسی اور بازار میں لے کر جاتا ہے تو اسے بدترین "انسانی سمگلنگ" یعنی Human traffickingکہا جاتا ہے۔ یہ ہے وہ تصور جو آج کی جدید عورت کو "با عزت۔ با غیرت" اور "با اختیار" زندگی گزارنے پر زور دیتا ہے۔

مدتوں اس پیشے سے منسلک خطرات پر تحقیقات ہوتی رہیں اور میڈیسن یعنی طب کا ایک شعبہ ان امراض کے لیے مخصوص رہا، ان کو STD) (Sexually transmitted diseases، یعنی "جنسی تعلقات سے جنم لینے والی امراض" کہا جاتا تھا، ان میں آتشک اور سوزاک نے اس قدر توجہ حاصل کی کہ اقوام متحدہ نے اس کے لئے بے شمار فنڈز مخصوص کیے۔ نوے کی دہائی میں ایڈز (Aids) آئی تو جہاں اس نئے مرض سے بچاؤ کے لیے طبی میدان میں تحقیق شروع ہوئی، وہیں ان جنسی کارکنوں یعنی سیکس ورکرز کو ایڈز فری ہونے کے حکومتی سرٹیفکیٹ کے طور پر کارڈز بھی دیئے جانے لگے تاکہ ان کے ذرائع آمدن میں کوئی کمی نہ آئے۔

دوسری جانب ان کی نفسیاتی صحت اور معاشرتی مرتبے اور مقام کے لیے ایک "زن بازاری" اور "گھریلو خاندانی عورت" کو تصوراتی طور پر اکٹھا کر دیا گیا۔ یعنی اگر ایک دلال ایک عورت کو مجبوراً جنسی فعل پر مجبور کرتا ہے تو وہ ایک جرم یعنی " ریپ" ہے اسی طرح اگر ایک خاوند اپنی بیوی کو زبردستی جنسی فعل پر مجبور کرتا ہے تو اسے شادی شدہ جنسی استحصال "Marital rape"کہا جانے لگا۔

جدید لائف سٹائل نے عورت کے استحصال اور اس کے جسم کے استعمال کو خوبصورتی دینے اور قابل ستائش (Glorify) کرنے کے لیے بے شمار پیشے اور طریقے ایجاد کئے جن میں مارکیٹنگ اینڈ ایڈورٹائزنگ، فیشن انڈسٹری، مقابلہ حسن، فلم اور شوبز شامل ہیں۔ ان سب کا مرکز ومحور عورت اور صرف عورت ہے۔ اسی خاتون کے اردگرد ان کی چکاچوند گھومتی ہے۔ عورت ہی کے دم قدم سے یہ لائف سٹائل زندہ ہے۔ ان "محترم شعبوں " کے پیشہ ورانہ خطرات بھی سیکس ورکر کے خطرات سے مختلف نہیں رہے۔

مدتوں "casting couch" یعنی وہ بستر جس پر کسی نئی آنے والی اداکارہ، گلوکارہ یا ماڈل کا امتحان لیا جاتا ہے، اس سے وابستہ کہانیاں ادب و صحافت کا حصہ رہی ہیں۔ سعادت حسن منٹو نے بالی وڈ اور ہالی وڈ کی ان خواتین کی آپ بیتیوں کی تحریر کر کے بے شمار شہرت کمائی۔ چونکہ اس بستر یعنی کاسٹنگ کائوچ پر ایک عورت خود اپنی مرضی سے اپنے جسم کا استعمال کرتی رہی، اسی لیے میڈونا جیسی شہرہ آفاق گلوکارہ نے آج سے 35 سال پہلے جب یہ کہا "I lost my virginity as a career more۔

میں نے اپنے شعبے میں ترقی کے لیے اپنی دوشیزگی قربان کر دی"، تو پوری دنیا نے اس پر تالیاں بجائیں۔ لیکن اگر اسی دوشیزگی کی قربانی مرضی کے خلاف ہو جائے تو پھر "می ٹو" کا غیرت و حمیت کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کل "می ٹو" اقوام متحدہ کے پیشہ ورانہ خطرات کی لسٹ میں شامل ہوجائے پھر ایسا ہی ایک مقدمہ کوئی میشا شفیع، علی ظفر کے خلاف نہیں بلکہ اپنے خاوند کے خلاف درج کروائے کہ اس نے کل رات میری مرضی و منشا کے خلاف میرے جسم پر دسترس حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar