پاکستان کی خوشحالی اور بقا کیلئے (1)
پاکستان کے قیام کی تحریک جن بنیادوں اور نظریات کو لے کر آگے بڑھی اور فتح سے ہمکنار ہوئی وہ اپنے زمانے کے مروّجہ سیاسی و معاشرتی نظریات سے بالکل مختلف، الگ اور جدا تھے۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد پوری دُنیا جن چار بنیادی وجوہات کی بنیاد پر قومی ریاستوں (Nation States) میں تقسیم کی جا رہی تھی وہ (1) علاقہ(2) نسل (3) رنگ اور (4) زبان تھیں۔ ان میں سب سے اہم نظریہ علاقہ یعنی مادرِ وطن تھا، جسے آج بھی عرفِ عام میں کسی "قوم کا علاقائی دائرۂ اختیار" (Territorial Jurisdiction of a nation) کہا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر خلافتِ عثمانیہ کے جھنڈے تلے جمع ایک وسیع مسلمان اُمت کو مصر، لبنان، عراق، ترکی، اُردن اور شام جیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
تیل کے مالک علاقوں کو مزید چھوٹی چھوٹی اور کمزور ریاستیں بنا دیا گیا، جیسے کویت، قطر، دبئی، ابوظہبی اور مسقط وغیرہ تاکہ ان پر غلبہ حاصل کیا جا سکے۔ ان ملکوں کے رہنے والے سب عربی زبان بولتے تھے، لیکن علاقے اور نسلی تاریخ کی بنیاد پر ان کے درمیان سرحدیں بنا دی گئیں۔ قیامِ پاکستان معاشرتی علوم کے ان چاروں مسلّمہ اُصولوں کے بالکل برعکس اور صرف اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی قومیت پر قائم کیا گیا۔
رنگ، زبان، نسل اور علاقے کی تمام حدود و قیود سے انکار کیا گیا۔ لیکن تخلیقِ پاکستان کے فوراً بعد انگریز کے ورثے میں چھوڑی ہوئی سیاسی ذرّیت، بیورو کریسی اور بائیں بازو کے دانشوروں نے اس معجزے کو قومی ریاستوں کے ادغام کے تصّور سے تشبیہ دی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی، کہ پاکستان دراصل پانچ مختلف علاقائی اور نسلی اقوام نے مل کر بنایا ہے اور یہی اس نوزائیدہ ملک کی بنیادی اکائیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے ہی ان پانچ بنیادی اکائیوں کو ہی اہم قرار دیا جانے لگا اور وہ بنیادی مضبوط اکائی "اسلام" نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہو گئی۔ یہ سب کچھ ایک خاص مقصد کیلئے کیا گیا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اس مملکت ِ خداداد پاکستان کی تخلیق اس وقت ممکن ہوئی جب پنجاب، سندھ، بلوچستان، سرحد اور بنگال کے بسنے والے عوام نے اپنی قومیتوں، نسلوں اور علاقائی بندشوں سے انکار کیا۔ ایک دادا کی اولادوں نے اپنے رشتے داروں کو اس لئے بھائی اور ہم وطن ماننے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ کلمہ طیبہ نہیں پڑھتے تھے۔ لوگ اپنی زمینیں، گھر، جائدادیں حتیٰ کہ اپنے آبائو اجداد کی قبریں تک چھوڑ کر اس نوزائیدہ پاکستان کی جانب ہجرت کر کے آئے تھے اور اسی تقسیم کی بنیاد پر لاکھوں لوگ یہاں سے ہجرت کر کے بھارت چلے گئے تھے۔
یہ تقسیم اس قدر فطری محکم اور غالب تھی کہ جب پاکستان کی بنیادی اکائیوں کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کی اکائی اپنی زبان، نسل، قوم اور علاقے کے نام پر اور بھارتی افواج کی مدد سے علیحدہ ہوئی تو بھارت میں موجود ہندو بنگالیوں نے جو ان کے اپنے ہی ہم زبان، ہم نسل اور ہم قوم تھے، انہوں نے مشرقی پاکستان کے ان بنگالیوں کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا۔ اگر زبان اور نسل کا رشتہ اتنا مضبوط ہوتا تو آج وہ قدیم بنگال ایک ہوتا جو قبل مسیح سے موریا اور گپتا بادشاہتوں کے زمانے سے "گاودا" (Gauda) ریجن کے نام سے ہی اپنی ایک آزاد حیثیت رکھتا تھا۔
نواب سراج الدولہ سے انگریزوں نے اسے چھینا، تب بھی بنگالی قوم بلا شرکتِ مذہب ایک ہی علاقائی اکائی کے طور پر موجود رہی۔ انگریزوں نے 1905ء میں اس بہت بڑے علاقے کو انتظامی طور پر دو حصّوں میں تقسیم ضرور کیا، لیکن آبادی اپنے ٹھکانوں پر ہی قائم رہی۔ مگر قیامِ پاکستان نے جس تقسیم کا اعلان کیا کہ "مسلمان بنگالی" اور "ہندو بنگالی" دو علیحدہ قومیں ہیں تو حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تقسیم اس قدر مضبوط، مستحکم اور عوامی جذبات کی آئینہ دار ثابت ہوئی کہ 1971ء میں ایک "ہندو توا" اور ایک "پوتر بھارت" کے علمبردار بھارت نے مسلمان بنگالیوں کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا۔
یوں 16 دسمبر 1971ء کو دُنیا میں دو مصنوعی قومیتیں تخلیق کی گئیں۔ ایک "بنگالی" جو بھارتی ریاست بنگال میں رہتے ہیں اور دوسرے "بنگلہ دیشی" جو نوزائیدہ ملک بنگلہ دیش کے شہری ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل میں "ہندو بنگالی" جو بھارت میں رہتے ہیں اور "مسلمان بنگالی" جو بنگلہ دیش میں رہتے ہیں یہ دو قومیں ہیں۔ یعنی ایک اور ملک دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تخلیق ہوا۔
بنگلہ دیش کی تخلیق کے بعد میرے ملک کی سیکولر، لبرل اور اسلام دُشمن قوم پرست قوتوں نے زور شور سے یہ نعرہ بلند کرنا شروع کیا کہ جب تک ہم اکائیوں کو خود مختاری نہیں دیں گے، اس وقت تک ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ یوں بقیہ ماندہ پاکستان کو انگریز کے تراشیدہ چار علاقائی صوبوں میں منقسم کرنے کا خوفناک منصوبہ اس قدر زور شور سے پھیلایا گیا کہ اس ملک کا ترقی پسند دانشور ایک فقرہ بول کر ڈرانے لگا کہ "ہم نے مشرقی پاکستان کے سانحے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا"۔
حالت یہاں تک آ پہنچی کہ قوم پرست سیاسی رہنماء مسلسل اس ملک کے ٹوٹنے کی خبریں اُڑانے لگے۔ پاکستان کے خاتمے کا خواب دیکھنے والے یہ نعرہ باز اس قدر دوغلے ہیں کہ اگر ان کے صوبوں کو وہاں آباد اقلیتوں کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی بات کی جائے تو یہ خون کی ندیاں بہا دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ صوبے کیا آسمان سے اُترے ہیں؟ یہ لکیریں تو انگریز نے اپنی انتظامی آسانی کیلئے کھینچی تھیں، ورنہ تاریخی طور پر تو یہ پورا خطہ "سندھ" اور "خراسان" نام کے دو علاقوں پر مشتمل تھا۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات، یہ سب صوبے جو انگریز نے بنائے کسی ایک نسل، زبان، یا قوم سے وابستہ شناختیں ہر گز نہیں ہیں۔ ہر صوبے میں ایک اکثریتی قوم آباد ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک یا ایک سے زیادہ اقلیتیں بھی رہتی ہیں۔
پنجاب میں سرائیکی قوم خود کو ایک علیحدہ اکائی سمجھتی ہے، جبکہ ریاست بہاولپور والے سرائیکی وڈیروں سے خود کو آزاد خیال کرتے ہیں، پوٹھوہار کے بسنے والے ہندو شاہی زمانے سے خود کو علیحدہ تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے پشتون کبھی بھی بلوچ ریاست قلات کا حصّہ نہیں رہے اور پشتونوں کے قوم پرست رہنما اپنے علاقے کو جنوبی پختونخوا کہتے ہیں۔ سابقہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا میں ہزارہ ڈویژن کے لوگ نسلاً بھی علیحدہ ہیں اور زبان اور ثقافت بھی علیحدہ رکھتے ہیں اور اپنے لئے ایک علیحدہ صوبے کی تحریک بھی چلا چکے ہیں، اسی طرح ریاست سوات والے خود کو جدا تصّور کرتے ہیں۔
سندھ میں شہری علاقوں میں آباد اُردو بولنے والے 72 سال سے یہاں آباد ہیں اور اب ایک ایسی بڑی اقلیت بن چکے ہیں جن سے حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ انہیں اب بحیرۂ عرب میں اُٹھا کر پھینکا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں ان کی زبان و ثقافت چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، سیاسی قیادتوں نے ان تمام صوبائی اقلیتوں کا گلہ گھونٹنے، ان کے حقوق غصب کرنے، ان کو مستقل طور محکوم رکھنے کیلئے انگریز کے بنائے ہوئے ان چار صوبوں کو مقدس بنا دیا۔
ان صوبوں پر قابض غاصب، سیاسی اکثریت نے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے پہلے 1973ء کے آئین میں انگریز کے بنائے چار صوبوں کو اہمیت دیتے ہوئے ان لاتعداد صوبائی اقلیتی اکائیوں کا انکار اور استحصال کیا اور پھر جب انہیں دوبارہ موقع ملا تو اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں اس استحصال پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ (جاری ہے)