مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
گیارہ ستمبر 2001ء کوورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد امریکہ اور اس کے ساتھی دیگر عالمی طاقتوں نے دنیا کی تمام ریاستوں کو اپنے ساتھ ملا کر جس دہشت گردی کے خلاف ایک اجتماعی جنگ کا آغاز کیا تھا، آج وہ تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ بیس سال دنیا کو خون، بارودکے دھوئیں اور کھنڈرات تحفے میں دینے کے بعد، اسوقت دنیا بھر کے میڈیا، تھنک ٹینک، یہاں تک کہ عالمی اداروں کے موضوعات بھی بدل چکے ہیں۔ گذشتہ دو سالوں سے دہشت گردی کا وہ خونی دسترخوان لپیٹا جا چکا ہے، جس پر عالمی طاقتوں نے بیس لاکھ انسانوں کا ناشتہ کیا تھا۔ اب واہگہ سے ولنگٹن تک ایک دوسری لنچ ٹیبل بچھائی جا چکی ہے اور نیا بہانہ بلکہ نشانہ صرف اور صرف ایک ہے کہ "چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت کو کیسے روکنا ہے"۔ لیکن گذشتہ بیس سالوں پر محیط دہشت گردی کے خلاف عالمگیر جنگ نے دو صدیوں پر پھیلی ہوئی عسکری تاریخ، اس کے خدوخال، انتظام و انصرام، ڈسپلن، اسلحہ کے ذخائر اور طاقت و قوت کے پیمانے خاک میں ملا دیئے ہیں۔
ان بیس سالوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دو ممالک پر حملہ کیا۔ ایک صدام حسین کا عراق اور دوسرا "عمر ثالث" ملا محمد عمرؒ کا افغانستان۔ صدام حسین کا عراق جنگ عظیم اوّل کے بعد ترتیب دینے والے دنیا کے نقشے کے عین مطابق ایک شاندار قومی ریاست تھی، جسکی اپنی ایک فوج، ایک آئین، پارلیمنٹ، جدید ریاستی ڈھانچہ، کرنسی، بینک وغیرہ سب کچھ ویسا تھا، جیسااقوامِ متحدہ اور اسکے ذیلی اداروں کو چاہیے تھا۔ جبکہ ملا محمد عمرؒ کی اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے پانچ سالہ امن و آتشی کے دور کو صرف تین ممالک پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت نے تسلیم کیا تھا۔ ایران جیسے امریکہ مخالف ملک بھی مصلحتاً گومگو میں مبتلا رہے۔ دنیا کے سامنے یہی تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی کہ ملا محمد عمرؒ کی حکومت کوئی قرونِ وسطیٰ کے قبائلی زمانے کی پسماندہ اور دقیانوس ریاست ہے، جس کا جدید دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو اصل میں عالمی نقشے کے مخمل پر ٹاٹ کا ایک پیوند۔ یہ دونوں ملک دہشت گردی کی جنگ کا نشانہ بنے اور نئی تاریخ مرتب کرگئے۔ افغانستان اور عراق پر ان حملوں نے عسکری تاریخ اور حکمتِ عملی پر لکھی جانیوالی تمام لاکھوں تحریروں کو آئندہ آنے والے دنوں کے لیئے لایعنی، بے معنی اور خارج از بحث (Irrelevant)کر دیا ہے۔
عراق کی افواج کی تاریخ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں، برطانوی فتح سے شروع ہوتی ہے اور اس کی تنظیم و تربیت، برطانیہ نے ویسے ہی کی تھی جیسے اس نے برٹش انڈین آرمی کو منظم کیا گیا تھا۔ پیادہ یعنی جدید دور کی انفنٹری فوج 1922ء میں بنی اور 1932ء میں چند جہازوں کے ساتھ ایئر فورس بھی قائم کر دی گئی۔ یہی فوج تھی جس نے 1948ء اور 1967ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں حصہ لیا۔ اس کے بعد عراق سوویت یونین کے کیمپ میں چلا گیا اور سوویت یونین نے عراقی افواج کو ہر طرح کے جدید اسلحے اور ٹیکنالوجی سے لیس کردیا۔ صدام حسین امریکی گود میں جاکر بیٹھا تو عراقی مسلح افواج نے اپنے ہی ملک میں آباد کردوں پر بہیمانہ مظالم یہاں تک کہ کیمیائی ہتھیار تک استعمال کرکے قبضہ پالیا۔ ایران میں آیت اللہ خمینی کا انقلاب آیا تو اسی فوج کو ایران کے ساتھ آٹھ سال تک امریکہ نے جنگ میں الجھائے رکھا۔ جس وقت امریکہ نے 19مارچ 2003ء کو عراق پر حملہ کیا تو اس وقت عراقی افواج کی طاقت و قوت بے پناہ تھی۔ عراقی فوج پانچ لاکھ اڑتیس ہزار حاضر (Active)سپاہیوں پر مشتمل تھی، جن کے ساتھ چھ لاکھ پچاس ہزار ریزرو (Reserve)بھی تھے۔ عراق کے پاس 2ہزار ٹینک، تین ہزارسات سو آرمڈ پرسنال کیریئر (APC)، دو ہزار تین سو انفنٹری فائٹنگ وہیکل(IFV)اور تین سو فائٹر جیٹ طیارے موجود تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ بارہ ہزار سپیشل عراقی ریپبلکن گارڈز، 75ہزار عراقی ریپبلکن گارڈز اور تیس ہزار فدائینِ صدام بھی تھے، جو ہر طرح کے اسلحے سے لیس اور کمانڈو ٹریننگ حاصل کیئے ہوئے تھے۔
صدام حسین کے زمانے میں عراق کی اسلحہ سازی کی صنعت دنیا کی چند بڑی صنعتوں میں سے ایک تھی۔ بندوق کی گولیوں سے لے کر بلاسٹک میزائل، سمندر میں بچھائی جانیوالی بارودی سرنگیں، "اسدِ بابل" کے نام سے جدید ٹینک، کلسٹر بم، انفراریڈ کی مدد سے چلنے والے میزائل، ڈرون اور لیزر گائیڈڈ میزائل، اور ایسے لاتعداد ہتھیار عراق میں بنتے تھے۔ عراقی اسلحہ سازی کی صنعت اسقدر جدید تھی کہ جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 2003ء میں عراق پر حملے کی تیاری شروع کی تو انہیں عراق کے دو اسلحوں کے بارے میں بہت تشویش تھی کہ وہ ان کا مقابلہ کیسے کریں گے، ایک "الصمود"(Propellant Rocket Tactical Ballistic Missile)اور دوسری "الفاؤ" تبوک سنائیپر(Sniper)رائفل۔ یہ دونوں ہتھیار ایسے تھے جو عالمی برادری کے ہتھیاروں پر برتری رکھتے تھے۔ عراق کے برعکس اماراتِ اسلامی افغانستان کے پاس کسی بھی قسم کی ریگولر ڈسپلن والی فوج نہیں تھی، بلکہ ان کے پاس سیدنا عمرؓ، سیدنا علیؓ اور خالد بن ولیدؓ کی جنگی حکمت عملیوں کے امین صرف پچاس ہزار سپاہی تھے۔ انہیں ورثے میں صرف دس فائٹر طیاروں، 6ہیلی کاپٹروں اور دو بوئنگ طیاروں کی ایک ایئر فورس ملی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس تین مسافر بردار طیارے بھی تھے۔ زمینی اسلحہ کے اعتبار سے بھی انہیں ورثے میں صرف 62ٹینک اور 200اے پی جی بندوقیں میسر آئی تھیں۔
لیکن تمام عالمی جائزے، عسکری تجزیئے اور طاقت کے موازنے ناکام ہوگئے۔ جب امریکہ اور اس کی اتحادی افواج عراق میں داخل ہوئیں تو ایک سناٹے کا عالم تھا۔ ٹینک خاموش تھے، فائٹر جہاز کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور بارہ لاکھ افواج کا کوئی اتہ پتہ نہ مل سکا۔ کسقدر آسانی سے ایک بڑی عسکری قوت نے چھوٹی عسکری قوت کو ایسے ہضم کیا جیسے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہے۔ امریکہ نے اپنی مرضی کا آئین بنوایا، دنیائے اسلام کے بڑے مسلکی مراکز نجف و کربلا اور بغداد کی موجودگی میں سیکولر جمہوری آئین کے تحت الیکشن کروا کر اقتدار پر اپنے کاسہ لیس بٹھائے اورامریکہ آج تک وہاں اس حد تک موجود ہے کہ عراق کی حکومت کی دعوت پر آنے والے ایرانی پاسداران کے سربراہ قاسم سلیمانی پر بے خوفی سے حملہ کرکے جاں بحق کردیتا ہے۔ ابھی 28جون2021ء کو امریکہ نے عراق ملیشیا کے ہیڈکوارٹر" حشد الشعبی" پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا ہے۔
عراق کی سیاسی، عسکری، مالی یہاں تک اس کے معاشرتی معاملوں پر بھی ابھی تک امریکہ ہی نگران ہے۔ دوسری جانب وہ "غازیان" ہیں جن کا بھروسہ صرف اور صرف مالکِ کائنات کے اس وعدے پر تھا کہ "دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو" (آل عمران:139) اور "بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹا سا گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا" (البقرہ: 248)، اللہ نے انہیں سرخرو کیا، کامیاب کیا۔ دہشت گردی کے خلاف اس بیس سالہ جنگ نے دنیا بھر کی عسکری تعلیم، سپاہ کی تربیت، اسلحہ سازی کی صنعت اور ٹیکنالوجی کے سحر کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان بیس سالوں کا صرف ایک ہی سبق ہے کہ جہاں دونوں جانب بھروسہ ٹیکنالوجی کا ہو تو جیت "بڑی مچھلی" کی ہوگی لیکن جب مقابلہ ٹیکنالوجی اور قوتِ ایمانی کا آجائے تو ذلت و رسوائی ٹیکنالوجی کا مقدر ہوتی ہے۔