میاں محمد نواز شریف: ایک نفسیاتی مطالعہ
علم نفسیات کا کوئی عالم ہو، نفسیاتی معالج یا پھر جسے اپنے علم نفسیات کی بنیاد پر لوگوں کی شخصیات کا مطالعہ کرنے کا شوق ہو، تو ایسا کوئی بھی شخص اگر گذشتہ چند ماہ سے میاں محمد نواز شریف کے چہرے کا غور سے مطالعہ کرتا رہا ہو تو وہ ایک انجانے خوف میں مبتلا ہوجائے گا۔ یہ چہرہ، اس کے تاثرات اور میاں محمد نواز شریف کا رویہ، آنے والے دنوں میں ان کے مزاج کی چغلی کھا رہا ہے۔ ایسی حالت اگر ایک عام شخص کی ہوتی تو شاید آدمی اس قدر خوفزدہ نہ ہوتا، اسے اتنی فکر دامن گیر نہ ہوتی۔ لیکن جب ایک ایسا شخص جس کے ہاتھ میں لاکھوں لوگوں کے رویے آجائیں اور وہ ان کے جذبات سے کھیلنے کا ہنر جانتا ہو تو پھر معاملہ بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔
ایسے ہی خوف کا اظہار دنیائے نفسیات کے بانیوں میں سے سب سے عظیم نفسیات دان کارل ینگ (Carl Jung)نے کیا تھا جب وہ جرمنی کے مشہور جمہوری لیڈر اڈولف ہٹلر سے 1939 میں برلن میں ملا تھا۔ اس ملاقات میں اٹلی کا ڈکٹیٹر میسولینی بھی موجود تھا۔ کارل ینگ کے نفسیاتی تجزیے کی بنیاد پر ٹھیک چار سال بعد مشہور نفسیات دان والٹر چارلس لینگر(Walter Charls Langer) نے ہٹلر کی شخصیت کے بارے میں جو نتیجہ برآمد کیا وہ یہ تھا :
Intense narcism, destructiveness and inability to relate to others
"وہ شدت کی حد تک خود پسند ہے، ہلاکت پسندی اور تباہی کی طرف مائل ہے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی بات سمجھنے سے قاصر ہو چکا ہے"۔ ہٹلر کے بارے میں اپنی ضخیم کتاب میں لینگر نے اس کی موت سے تقریبا ایک سال پہلے ہی اس کی خودکشی کی پیش گوئی کر دی تھی، اور اس کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ ایسے شخص کا چونکہ حقیقت سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور وہ کسی طور پر بھی اپنی شکست کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس لیے کہ وہ اول تو اپنے ساتھ کشتی میں سوار ہر کسی کو ڈبونا چاہتا اور کم از کم خود اس شکست کے منظر سے پہلے موت کو چوم لیتا ہے۔ چند سال قبل 2007 میں کچھ نفسیات دانوں نے انسانی تاریخ کے ان چند بڑے رہنماؤں کا نفسیاتی مطالعہ مرتب کیا جن کی ذہنی حالت کے اثرات کا خمیازہ ان کی پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔
کولج (F.L Coolige)اور ڈیوس (F.L Davis) اور ان کے ساتھیوں کی مرتب کردہ اس کتاب کا نام ہے "Understanding Mad Men" پاگل پن کا شکار رہنماؤں کا مطالعہ۔ انہوں نے دنیا بھر کے نفسیاتی ماہرین کے ان شخصیات کے نفسیاتی جائزوں کو اپنی اس کتاب میں مرتب کیا ہے۔ ان کے نزدیک تمام نفسیات دان اس بات پر متفق ہیں کہ ہٹلر کی شخصیت میں (1) Paranoid (خلل)، (2) Anti-Social(سماج دشمنی)، (3) Narcism (خود پسندی)، اور (4) Sadistic (اذیت پسندی) جیسی نفسیاتی کمزوریاں عمومی حد سے زیادہ ہوچکی تھیں۔ اسی وجہ سے ہٹلر کا حقیقت کی دنیا سے رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔
اس جیسے لوگ اگر ایک ایسے مقام پر فائز ہوں جہاں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں ان کے ہاتھ میں ہوں تو پھر ایسے لوگ بہت خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت تو اور بھی زیادہ خوفناک ہو جاتے ہیں جب یہ کسی ایسے ملک کے سربراہ یا عوامی لیڈر ہوں جو مسلسل حالت جنگ میں ہو۔ ہٹلر کا سیاسی جنم بھی جرمنی کی پہلی جنگ عظیم میں ذلت آمیز شکست کے بعد ہوا تھا اور اس کی کمزور شخصیت کو عوامی مقبولیت نے ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا تھا کہ اسے اپنے اردگرد بھی اپنا آپ ہی نظر آتا تھا۔
26 اپریل 1942 کو برٹش سیکرٹ سروس کے سامنے ہٹلر کا ایسا ہی نفسیاتی تجزیہ رکھا گیا تو برطانوی حکام کا تبصرہ یہ تھا کہ اب ہمیں جنگ جیتنا مشکل نہیں۔ یہ تجزیہ ایک نفسیات دان نے سیکرٹ سروس کو دیا تھا جو اس نے ہٹلر کی 26 اپریل ہی کو کی جانے والی ایک تقریر میں الفاظ کے چناؤ، چہرے کے تاثرات اور دیگر حرکات و سکنات کے مطالعہ کے بعد لکھا تھا۔
لیڈر شپ پر لکھی گئی کتب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی رہنما، حکمران یا کسی ادارے کا سربراہ اس وقت بہت تباہ کن ہو جاتا ہے جب اس میں چار نفسیاتی کیفیتوں میں سے کوئی ایک بھی کیفیت عام حالات سے زیادہ پائی جائے۔ (1) Deluded (فریب، بہکاوا، سبزباغ دکھانا)، (2) Paranoid (وسوسے)، (3) غیر سماجی ( Sociopath)، (4) خود پسندی (Narcistic)۔ کسی لیڈر، سربراہ یا حکمران میں ان چاروں خصوصیات کی سطح عام لوگوں سے زیادہ نظر آئے تو ماہرین کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ایسے شخص کے ہاتھ میں لاکھوں لوگوں کی زندگی اور قسمت آ گئی تو بہت برا ہو گا۔
یہ شخص اپنی ناکامی کبھی بھی دیکھ ہی نہیں سکتا، اس لیے یہ ایسا وقت کے آنے سے پہلے سب کچھ تباہ کر دے گا۔ عمومی طور پر ایسے رہنما یا لیڈر جنہیں زندگی میں اپنے گمان اور ماحول سے بے شمار گنا زیادہ مل جائے، اتنا کچھ کہ جس کا انہوں نے خواب بھی نہ دیکھا ہو تو ان میں دو طرح کے رویے جنم لیتے ہیں۔ اول یہ کہ وہ اسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا کرم سمجھتے ہیں، تھوڑا ان کا ایمان اور پختہ ہوجاتا ہے۔ یہ رویہ انہیں زمین سے جوڑے رکھتا ہے اور ان میں خود پسندی کا بیج پروان نہیں چڑھتا۔ دوسرا رویہ تھوڑا خطرناک بھی ہے لیکن محفوظ ہے۔
آدمی حقیقی طور پر اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لے اور پھر ان حالات کا بھی مطالعہ مسلسل کرے جو اس کے لیے بہت مہربان تھے اور جان لے کہ اس میں تو کوئی ایسی خاص صلاحیت نہیں تھی کہ وہ اتنے بڑے مقام پر پہنچتا، اگر کوئی ایسا سوچے، تو انسان پھر بھی نارمل رہتا ہے۔ لیکن جب خود پسندی کی بیماری اپنے انتہائ کو پہنچ جائے تو پھر حقیقت سے انسان کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے ایسی ہی کیفیت کو Paranoia کہتے ہیں۔ اس میں ایک شخص کے دماغ میں دو طرح کے بے سروپا اور حقیقت سے کوسوں دور تصورات باقاعدہ دلیل کے ساتھ اپنی جڑ پکڑ لیتے ہیں۔ پہلا، خبط عظمت Delusion of Grandeurایسی حالت میں آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہی ایک نجات دہندہ ہے، اس کے بغیر یہ کارخانہ قدرت تباہ ہو جائے گا، ملک غربت و افلاس و جنگ کا شکار ہو جائے گا، پارٹی بکھر جائے گی اور دوسرا "Delusions of Persecution" یعنی اپنی خلاف سازشوں کا وہم۔ اس وہم کا تعلق بھی خبط عظمت سے ہے۔
جب آدمی اپنے آپ کو ایک عظیم اور بے بدل شخصیت کے روپ میں دیکھنے لگے اور خود کو بے پناہ پسند کرنے لگتا ہے تو اسے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ پوری دنیا اس کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ ایسے لوگوں کا اپنے سگے رشتے داروں، بھائی بہنوں اور دوستوں تک سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ان چند افراد تک محدود ہو جاتے ہیں جو روز انہیں ان کی مرضی کی کہانیاں سناتے ہیں۔ ایسی کہانیاں جو ان کے ان رویوں کو اور مضبوط بناتی ہیں۔ وہ ان لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو کہتے ہیں آپ عظیم ہیں۔
آپ کے خلاف سازش ہو رہی ہے، بہت بڑی سازش، کوئی "خلائی مخلوق" آپ سے لڑ رہی ہے یوں ایسے فرد کا رشتہ اور رابطہ حقیقت سے کٹ جاتا ہے اور پھر وہ کبھی بھی ایسا لمحہ یا وقت دیکھنا پسند نہیں کرتا، برداشت نہیں کر پاتا، جس میں شکست ہو۔ اور اگر اس کے اس طرح کے رویے کو مضبوط بنانے کے لیے ہٹلر کی طرح جلسوں میں ہزاروں لوگ جمع ہو جائیں تو پھر یہ انا کی سولی پر چڑھا شخص گھر پھونک کر تماشا دیکھتا ہے، نہ کسی کی سنتا ہے اور نہ کوئی اسے سنا سکتا ہے۔
اپنے خول میں بند، اپنے آپ سے محبت میں گرفتار اور اپنے لیے ہر صورت فتح دیکھے والا ایسا رہنما ہٹلر کی طرح خودکشی نہ بھی کرے، پھر بھی اپنے پیچھے چلنے والے عوام کو خوفناک انجام سے دوچار ضرور کرتا ہے۔ اللہ کرے میرا تجزیہ، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خوف اور میرا نفسیاتی مطالعہ غلط ثابت ہو (آمین)