میڈیا اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم
یہ کسی دقیانوس مولوی کے الفاظ نہیں ہیں، مردانہ جارحیت پسند (Male chauvinist) کی گفتگو بھی نہیں، انصار عباسی کا ماتم بھی نہیں، جو اس نے پاکستان ٹیلی ویژن پر خواتین کے اعضاء کو نمایاں کرنے والی ورزش دکھانے پرکیا تھا، یہ اقوامِ متحدہ کے ایک اہم ترین ادارے" یونیسف" (UNICEF) کی پکار ہے، جو اس کی 15 جنوری 2020ء کی رپورٹ میں سنائی دیتی ہے۔ رپورٹ کا آغاز اس فقرے سے ہوتا ہے
"The objectification and sexualization of girls in the media، is linked to violence against women and girls worldwide."
(دنیا بھر میں لڑکیوں اور عورتوں کے خلاف درندگی کا براہ راست تعلق، میڈیا پر ان کی جسمانی نمائش کو جنسی زاویوں کے ساتھ پیش کرنے سے ہے۔ ) مجھے معلوم ہے کہ یہ فقرہ اب بھی بہت ساری حقوقِ نسواں کی علمبردار تنظیموں اور ذہنی مریض میڈیاریٹنگ کے دیوانوں کو پسند نہیں آئے گا۔ یہ فقرہ دراصل اربوں ڈالر کی اس فیشن اور میڈیا انڈسٹری کے منہ پرزوردار طمانچہ ہے، جو عورت کے جسم کے گرد گھومتی ہے۔ یونیسف کو بھی علم تھا کہ یہ رپورٹ آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں ہے اس لیے انہوں نے اس کی بنیاد، ان لاتعداد سائنسی تحقیقات پر رکھی ہے جو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ہو رہی ہیں۔ سب سے پہلا حوالہ اس رپورٹ کا ہے جو مڈل ٹاؤن کی ویسلی یان(Weslyan) یونیورسٹی کی تحقیق پر مبنی ہے، جسے یونیورسٹی کے سائنسی جرنل میں 2008ء میں شائع کیا گیا۔ اس تحقیق کا عنوان ہے Women as Sex Objects and Victims in Print Advertisements (اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات میں عورت جنسی نمائش کا شکار)۔
اس تحقیق میں صرف امریکہ میں شائع ہونے والے اخبارات اور میگزین میں 58 مقبول ترین جریدوں کو شامل کیا گیا اور ان کے 1,988 اشتہارات کا بغور مطالعہ کیا گیا۔ ان میں " فیشن میگزین" کو بھی شامل کیا گیاہے جس کے ہرصفحے پر صرف عورت ہی عورت دکھائی جاتی ہے۔ رپورٹ کا آغاز ایک کپڑوں کے اشتہارکے تجزیے سے ہوتاہے جو اکتوبر 2002ء میں ہارپر (Harper) کے مشہور فیشن میگزین "بازار" (Bazaar) میں شائع ہوا۔"اشتہار میں کھڑی ہوئی خاتون بالکل سیدھی سامنے کی جانب دیکھ رہی ہے، جبکہ مرد اس کا جسم اپنے قریب کرنے کے لیئے پکڑے ہوئے ہے اور اس کا ایک ہاتھ نیم برہنہ ٹانگوں کے بالائی حصے پر ہے۔ عورت کی آنکھوں میں مسکارا، آئی شیڈو اور دیگر لوازمات سے اسے ایک قتاّلہ کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔
زرد اور سرخ روشنی کے ملاپ سے ایک پراسراریت (Eerie) ماحول میں پیدا کی گئی ہے۔ تصویر میں دکھائی دینے والا مرد مکمل طور پر جنسی شہوت سے بھرپور نظر آتا ہے، جبکہ عورت کا چہرہ یا تو سپاٹ لگتا ہے یا پھر کسی حد تک سہما ہوا"۔ اشتہار پریہ تبصرہ اور تجزیہ کسی مولی نے نہیں بلکہ دو امریکی نفسیات دانوں جولی ایم سٹین کوئز (Julie M. Stankiewicz) اور فرینکی روزیلی (Francine Rosselli) کا ہے۔ اس اشتہار کے تجزیے کے فوراً بعد رپورٹ ایک اور اشتہار کے پیچھے چھپی جنسیت کا تجزیہ کرتی ہے۔ یہ اشتہار ایک اور بڑے میگزین "Elle" کے نومبر 2002ء کے شمارے میں شائع ہواتھا۔ یہ ایک پرفیوم کا اشتہار ہے، جس کا عنوان ہے "Dior Addict"یعنی "ڈائر کا رسیا"۔ اس میں ایک عورت صرف زیر جاموں میں ملبوس ہے اور بظاہر ایسے لگتا ہے کہ جیسے کسی غیر معمولی عمل کے بعد کی تھکن اس پر طاری ہے۔ وہ اپنے جسم پر ایسے ہاتھ رکھے ہوئے ہے جیسے کسی درد کو ٹٹول رہی ہے۔ اس کے چہرے اور جسم پر پسینے کے قطرے ہیں اور اس کے زیر جامہ کی ایک رسی ایسے ڈھلکائی گئی ہے کہ اسکی جسمانی ساخت نمایاں ہو جائے۔
یہ خاتون مکمل طور پر ایک جنسی مجسمہ (Object) ہے، جو مکمل طور پر قابو سے باہر ہوتے ہوئے جذبات کا عکاس ہے۔ یہ تجزیہ بھی کسی مولوی کا نہیں بلکہ اسی تحقیق میں دیا گیا ہے اور میں نے خاص طور پرترجمہ کرتے ہوئے اس کی سخت اور براہ راست زبان کو بہت حد تک نرم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تحقیق کرنے والے کہتے ہیں کہ اشتہارات ایک ایسا شعبہ ہے جو بہت زیادہ اثر رکھنے والا ہے۔ اس لیے کہ لوگ اس میں دیئے گئے پیغام سے صرفِ نظر کرتے ہیں اور اس پر عموماً انگلی نہیں اٹھاتے۔ وہ اسے اشتہاری ضرورت سمجھتے ہیں اور یوں یہ پیغام لوگوں کے خیالات کا حصہ بن جاتا ہے"۔ ہر سال ایک امریکی شہری37ہزار نئے اشتہارات ٹیلی ویژن پر دیکھتا ہے۔ اس کے علاوہ راہ چلتے بل بورڈوں، اخباروں اور میگزینوں پر بھی اشتہارات اس کو دیکھائی دیتے ہیں۔ تحقیق نے" امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن" (American Psychological Association) کی ٹاسک فورس کی 2007ء میں مرتب کردہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ عورتوں کو اشتہارات میں ایک "جنسی مجسم" کے طور پر پیش کرنے سے لاتعداد معاشرتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور ان اشتہارات سے جنم لینے والی "ہیجان انگیزی" عورتوں کے خلاف "جنسی جرائم" میں اضافہ کر رہی ہے"۔
اشتہارات میں عورت کو جس طرح استعمال کیا جاتاہے اور اس کی جسمانی جنسیت سے کھیلا جاتاہے، اس نے پورے معاشرے میں ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ اشتہارات میں عورتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کے نزدیک وہ صرف ایک جسم ہوتی ہے، جسے ہر لمحے اور ہر وقت ایسی نظروں سے دیکھا جائے جو اس کی جنسی حوالوں سے پیمائش کرتی ہوں۔ عورتوں کو ان اشتہارات میں اس طرح پیش کرنے کا مقصد مردوں کے دل و دماغ کوپر لطف انداز اور تلذز کے نشاط انگیز لمحے میں لے جانا ہوتا ہے اور جب وہ ایسی نفسیاتی حالت میں چلے جاتے ہیں تو پھر ان کا دماغ یہ قبول کر لیتا ہے کہ ایک میسر عورت کا"جنسی استحصال" کرنا جائز ہے، خواہ وہ اسے چٹکی بھرنا، تھپتھپانا یا ہنسی مذاق میں ان کے جسم چھونا ہی کیوں نہ ہو۔ جس طرح کی آدمی کی ذہنی حالت ہو گی وہ ویسا ہی جنسی استحصال کرے گا۔
یونیسف کی یہ رپورٹ پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے ساتھ ساتھ "سوشل میڈیا" کے خطرناک اثرات پر بھی تبصرہ کرتی ہے۔ سوشل میڈیا میں چونکہ ہر طرح کے جذبات کے اظہار کی آزادی ہے، اس لیے کہیں جسم کی نمائش کرنے والی عورتوں کی توصیف ہو رہی ہوتی ہے اور کہیں انہیں طوائف، جسم بیچنے والی اور حراّفہ وغیرہ کہہ کر پکارا جارہا ہوتا ہے۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اس دوغلے پن، دوہرے معیارات اور لوگوں کی آپس میں جنگ نے دنیا بھر کی خواتین کی نفسیاتی اور ذہنی صحت پر بدترین اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان میں اضطراب (Anxiety)، کم لباسی پر شرم، بھوک کی کمی، اپنے آپ میں عزتِ نفس کی کمی اور ڈپریشن جیسے بے شمار امراض پیدا ہو چکے ہیں۔ یونیسف کہتی ہے کہ خوبصورت جسموں کو آئیڈیل اور ماڈل کے طور پرپیش کیا جانا، عورتوں میں خطرناک ڈپریشن پیدا کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں سے صرف گیارہ فیصد خواتین ایسی ہیں جوسمجھتی ہیں کہ وہ خوبصورت ہیں اور باقی 89 فیصد خود کو پیدائشی طور پر نامکمل بلکہ بدصورت خیال کرنے لگتی ہیں۔ دنیا بھر کی عورتوں کا سب سے بڑا مسٔلہ اور سب سے اہم "کارنامہ" صرف جسم کا تناسب اور خوبصورتی حاصل کرنا رہ گیا ہے۔ دوسری جانب مرد ان اشتہاروں کے نتیجے میں جس طرح مردوں کو مردانگی کا نمونہ، جسمانی طاقت اور ہیرو شپ کے آئیڈیل بنا کر پیش کرتے ہیں، اس سے دنیا کے مردوں میں ہیجان، جنسی برتری اور طاقت کا ایک ایسا خوفناک تصور ابھرتا ہے، جو انہیں نفسیاتی بڑائی اور شہوت انگیزی میں لے جا کرعورت پر جنسی حملوں کی لاشعوری ترغیب دیتا ہے۔
یہ تمام گفتگو کسی مسجد کے منبر یا دقیا نوسی خیالات والے دانشور کی زبان سے برآمد نہیں ہوئی ہے، بلکہ دنیا کے بڑے بڑے نفسیات دانوں کے عمیق مطالعے کا نتیجہ ہے، جسے یونیسف نے دنیا کے سامنے ایک الارم کے طور پیش کیا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس سب کے باوجود بھی ہمارا میڈیا سنبھلے گا اور نہ صاحبانِ اقتدار۔