کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
آج سے کچھ عرصہ پہلے تک سائنسی تحقیق کا سب سے بڑا موضوع یہ تھا کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ حیات کیسے شروع ہوئی؟ اور انسان کن کن ارتقائی مراحل سے گذرتا ہوا موجودہ ترقی یافتہ شکل تک پہنچا۔ ماہرینِ حیاتیات نے اس سلسلے میں اپنی تحقیقات کیں، جن میں "ڈارون" کی مشہور زمانہ کتاب "Origin Of Species" بہت مشہور ہوئی۔ یہ کتاب 1859ء میں شائع ہوئی اور آج ایک سو ساٹھ سال گذرنے کے باوجود بھی اس کی پیش کردہ تھیوری کے سائے ہمارے سائنسی علم کے میدان پر منڈلارہے ہیں۔ اس کی سب سے متنازعہ تھیوری یہ تھی کہ انسان دراصل بندر کی ایک ارتقائی شکل ہے۔ بیسویں صدی میں جب کیمونسٹ تحریک اپنے زوروں پر تھی تو لوگوں کو مذہب سے دور کرنے، خدا پر انکا ایمان متزلزل کرنے اور انہیں کیمونزم کو زندگیاں بدلنے کا راستہ تصور کروانے کیلئے، اس تھیوری پر لکھی ہوئی روسی سائنسدانوں "میخائل ایلین" اور " ایلینا سیگال" کی کتاب کا اردو ترجمہ "انسان بڑا کیسے بنا" لوگوں میں عام تقسیم کی جاتی تھی۔ لوگوں کو یہ سب کچھ پڑھانے کا بنیادی مقصد ایک ہی تھا کہ ان کے ذہن میں یہ تصور راسخ اور مضبوط کردیا جائے کہ یہ کائنات دراصل ایک سائنسی عمل کا نتیجہ ہے۔
ایک جرثومے سے حیات پیدا ہوئی اور آہستہ آہستہ پوری دنیا میں جانور، چرند، پرند، حیوانات اور انسان بنتے گئے اور یہ سب اپنی اپنی ارتقاء کی منازل طے کرکے یہاں تک پہنچے ہیں۔ اس لئے یہ آدم وحوا، ابلیس و فرشتے سب کہانیاں ہیں۔ اگر یہ سب کہانیاں مان لی جائیں تو پھر مذہب بھی افسانہ بن جاتا ہے اور اللہ کی ذات کا بھی کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ یہ کتاب ایک نوجوان ذہن کو گمراہ کرنے کیلئے کافی تھی اور اگر وہ اس کتاب کیساتھ نیاز فتح پوری کی "من و یزداں "، کارل مارکس کی " داس کیپٹل" اور ترقی پسند مصنفین کے افسانے بھی پڑھ لیتا تو اس کے انقلابی بننے میں ذرا دیر نہ لگتی۔ وہ لوگ جو سائنس سے متاثر ہوتے تھے، مگر مذہب کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، وہ ایک راستہ نکالتے کہ ہر نئے سائنسی نظریے کو قرآن پاک اور احادیث سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے، مثلاً وہ اس آیت، " انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا (الدھر: ۱)" اور اسی طرح کی دیگر آیات سے کھینچ تان کر ڈارون کی تھیوری کو ثابت کرتے۔
مگر سائنس کا معاملہ تو بہت ہی خطرناک ہے۔ سائنس تو ایک صدی یا اس سے بھی بہت کم عرصہ کے بعد اپنی پرانی ساری تھیوریوں اور مسلّمہ سائنسی تصورات کو جھوٹ، گمراہ کن اور فریب قرار دے دیتی ہے۔ تقریباً دوسوسال سے زیادہ کا عرصہ ایسا بیتا ہے جسے نیوٹن کا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی دور میں سرسید جوان ہوئے اور انہوں نے نیوٹن کے زمانے کی سائنس کے مطابق قرآن پاک کی تفسیر لکھ ڈالی، فرشتوں کو "فطرت کی قوتیں " قرار دیا، مثلاً یہ کہا کہ "کشش ثقل" ایک فرشتہ ہے۔ لیکن سرسید کے مرنے کے چند برسوں بعد ایک اور سائنس دان "آئن سٹائن" کے نام سے دنیا ئے سائنس کے آسمان پر چھایا۔ اس کے نظریہ اضافیت اور نظریہ مقادیر نے نیوٹن کے دوسوسالہ زمانے کی ساری سائنس کو جھوٹ اور بے بنیاد قرار دے دیا۔ گزشتہ تمام اصول و قوائد، یہاں تک کہ تمام سائنسی پیمانے بھی متروک ہو گئے۔ مثلاً سائنس دان کئی سال تک یہ پڑھاتے رہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان "ایتھر" نام کا ایک "طبق" ہے۔ اس کی موجودگی کو فرض کرکے انہوں نے روشنی کی رفتار اور حد ت کے پیمانے بھی بنائے، مگر آئن سٹائن نے آکر کہا کہ تم سائنس دان ہو کر یہ سب جھوٹ پڑھاتے رہے ہو۔ یوں سرسید جیسے لاتعداد مفسرین کی سائنٹفک تفسیریں بے معنی ہو کر رہ گئیں۔
کائنات کے آغاز اور اس کے رازوں کو کھوجنے کا سفر مسلسل چلتا رہا، یہاں تک کہ ایک اور نابغہ "سٹیفن ہاکنگ" کے نام سے آیا اور اس نے اپنی مشہور "بڑا دھماکہ" نامی تھیوری پیش کردی۔ اس تھیوری کے مطابق یہ کائنات ایک بہت بڑے دھماکے سے وجود میں آئی تھی۔ وہ لوگ جو اسلام کو ہمیشہ سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے کے عادی تھے، انہوں نے فوراً قرآن پاک کی اس آیت سے کہ، "وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہوجااور وہ ہو جاتی ہے" (یٰسین: 82) اور یوں "کن فیکون" سے "بڑا دھماکہ" کی تھیوری کو ثابت کرنا شروع کردیا۔ سٹیفن ہاکنگ تک زیادہ تر کام کائنات کے آغاز پر ہوا، مگر جب اس کی تھیور ی جو 1988ء میں شائع ہوئی، اس کے بعد کچھ سائنس دانوں نے یہ سوال بھی اٹھانا شروع کردیے کہ یہ کائنات بنی تو ہو سکتا ہے ویسے ہی ہو جیسی سٹیفن ہاکنگ نے بتایا ہے، لیکن کیا یہ ابدالآباد یعنی ہمیشہ کے لئے قائم رہے گی یا پھر اسے ایک دن فنا ہو جانا ہے۔ اگر اس کائنات نے ایک دن فنا ہو جانا ہے تو پھر انسان، چرند، پرند اور دیگر کا انجام کیا ہو گا اور یہ دنیا کب تک فنا ہو جائے گی۔ یہ وہی سوال ہے جس کے متعلق علامہ اقبال نے کہ تھا
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتداء کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
انجام کیا ہوگا؟ یہی ہے وہ سوال جس کا جواب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسان کو الہامی کتب کے ذریعے دیا ہے، بلکہ یہاں تک بھی بتایا ہے کہ یہ دنیا اپنے انجام کو کیسے پہنچے گی۔ سٹیفن ہاکنگ کی "بڑے دھماکے" والی تھیوری کے بعد جب سائنس دانوں نے اس کائنات کی ساخت کا جب بغور مطالعہ کرنا شروع کیا، تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ زمین اور اس کے اردگرد وسیع و عریض دنیا جس مادے سے بنی ہے وہ مسلسل فنا (Decay) کے عمل سے گزر رہا ہے اور ایک دن یہ کائنات مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔ اس کام کو 1993ء میں ایک اہم سائنس دان "فرینک جے ٹپلر نے اپنی مشہور کتاب "لافانیت کی طبعیات" میں شائع کیا۔ اس نے اپنی ایک تھیوری پیش کی جس کا نام "اومیگا پوائنٹ" (Omega Point) تھیوری ہے۔ جس کے مطابق یہ کائنات ویسے ہی تباہ ہو جائیگی جس طرح قرآن، بائبل اور تورات میں بیان کیا گیا ہے اور اس کائنات کا مادہ اسی طرح ایسی حالتوں میں بدل جائیگا جیسی حالتیں جنت، جہنم اور عالم برزخ کی بتائی گئی ہیں۔ گزشتہ بیس برسوں سے طبعیات کے سائنس دانوں کا اب یہی بنیادی موضوع ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کائنات کے ذرے ذرے کے مشاہدے سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کائنات فنا ہونے کیلئے ہی بنی ہے۔
اس کا ہمیشگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اب جب وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ یہ کائنات تباہ ہونے کے لئے ہی بنی تھی تو پھر ہم سائنس دان اس سوچ بچار میں مصروف ہیں کہ یہ دنیا اب کتنے عرصے میں تباہ ہو جائے گی اور یہ کیسے تباہ ہوگی۔ آج کے دور میں جس طرح تینوں ابراہیمی مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت مسلسل اس بات پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ دور آخرالزمان کا ہے، End Times ہے اور وہ سب کچھ جلد ظہورہونے والا ہے جو کتابوں میں بتایا گیا تھا، اسی طرح ہی دنیا بھر کے سائنس دانوں کی بھی ہر تھوڑے وقفے کے بعد عالمی کانفرنسیں منعقد کررہے ہیں کہ یہ دنیا بس اب ختم ہونیوالی ہے، لیکن کب تک ختم ہو جائیگی، کیسے ختم ہوگی اور اس کے فنا ہونے کے بعدجو مادہ بچے گا اس کا کیا بنے گا۔ کیا اس فنا شدہ دنیا کا مادہ ایسے ہی پڑا رہ جائے گا، یا پھر کوئی عظیم ہاتھ اس مادہ سے دوبارہ ایک نئی دنیا تخلیق کردیگا۔ یہ بحث نجومیوں، پنڈتوں، پادریوں، ربائیوں اور مولویوں کے درمیان نہیں ہو رہی بلکہ سائنس دانوں کے درمیان ہو رہی ہے۔ ہے ناحیرت کی بات۔