کرتار پور کاریڈور سے تلنگانہ الیکشن تک
امرتسر ایک ایسا شہر ہے جس کا ذکر میں نے بچپن میں اس قدر سنا ہے کہ ہمیشہ سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ اگر میں وہاں گیا تو کوئی گلی محلہ یا عمارتیں دیکھی دیکھی محسوس ہونگی۔ پورا خاندان وہاں سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا، اس لئے میرے تمام بزرگ اس شہر کی ادبی، ثقافتی، سماجی، سیاسی، مذہبی اور تعلیمی زندگی کا تذکرہ ایک سرد آہ کے ساتھ کرتے اور ایک ایسا نقشہ کھینچتے کہ سب کچھ ایک فلم کی طرح آنکھوں میں گھوم جاتا۔
ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد میں جب اس شہر میں داخل ہوا تو واقعی اس کے درو دیوار بالکل اجنبی محسوس نہ ہوئے۔ مسجد خیر الدین جس کا ذکر سید عطاللہ شاہ بخاریؒ کی خطابت اور مولانا انور شاہ کاشمیریؒ کے علم دین کی نقابت کے حوالے سے پڑھا تھا، لیکن میرا تعلق اس کے ساتھ اتنا گہرا تھا کہ اس مسجد کے دروازے اور صحن کے درمیان میرے دادا اور دادی کی قبریں ہیں۔
جس کے منبر پر بیٹھ کرمیرے دادا مولوی خدا بخشؒ اور ان کے بڑے بھائی مولوی احمد بخشؒ دعوت دین دیتے رہے اور اس کی چٹائیوں پر بیٹھ کر نہ صرف قرآن پاک پڑھاتے رہے بلکہ انہوں نے اس مسجد میں پہلے اسلامیہ سکول کی بنیاد رکھی جس میں سکھ اور ہندو طلبہ بھی آ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی گیا، اگر کوئی امرتسر کا رہنے والا مل جاتا تو اس شہر کا اس سے حال احوال ضرور پوچھتا۔ امرتسر کو دیکھنے کے بعد تو یوں لگتا تھا جیسے میں نے یادوں کے ٹوٹے جوڑ کر کہانی مکمل کر لی ہے۔
رویندر سنگھ روبن بھی امرتسر سے ہے۔ صحافی ہے دنیا جہان میں گھوما ہوا ہے، کرتار پور کاریڈور کے افتتاح پر پاکستان آیا تو بھارت سے آنے والے صحافیوں میں سے وہ واحد صحافی تھا جس سے بات کرنے کو جی چاہا، یہ الگ بات ہے کہ علم بعد میں ہوا کہ وہ امرتسر میں رہتا ہے۔ یوں تو دربار صاحب کرتار پور پر اس دن آنے والے لاتعداد سکھ خوشی و مسرت کے عالم میں تھے۔ ایک ایسا مقام جہاں گورو نانک نے اپنے آخری اٹھارہ سال گزارے ہوں اور یہیں سے وہ اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوئے ہوں، وہ ان کے لئے مقدس ترین استھان تھا۔ اس کے درو دیوار کو چومنے کا ان کا خواب اپنے دامن میں ستر سال کا دکھ لئے ہوئے تھا، وہ ستر سال جب وہ صرف تین کلو میٹر دور، سرحد کے اس پار، خار دار تاروں کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنی بھیگی آنکھوں سے اس گنبد اور کلس کے درشن کرتے تھے اور ناکام حسرتوں سے واپس لوٹ جاتے تھے۔
پاکستان کی جانب سے اس کاریڈور کو کھولنے کا اعلان ایسے ہی تھا جیسے حج پر لگائی جانے والی پابندی اٹھا لی جائے۔ نوجوت سنگھ سدھو اور ہر سمرت نور بادل کی تو آنکھوں میں تقریروں کے دوران مستقل آنسو چھلکتے رہے۔ اس خوشی کے ماحول میں رویندر سنگھ روبن کی گفتگو بہت مایوس کرنے والی تھی۔ اس نے کہا، کچھ نہیں ہو گا۔
چند دن اخبارات میں خبریں چھپیں گی، ٹی وی پر تبصرے ہوں گے اور پھر خاموشی چھا جائے گی۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا، بھارت کی کوئی بھی سرکار پنجاب کو خوش کرنے کے لئے پاکستان سے دوستی نہیں کرے گی۔ اس لئے کہ باقی بھارت میں تو ووٹ پاکستان اور مسلمان دشمنی کی بنیاد پر بٹورے جاتے ہیں اور 543ممبران کی لوک سبھا میں پنجاب کی صرف 13سیٹیں ہیں، ان میں سے بھی چار یا پانچ تو بی جے پی لے ہی جاتی ہے۔ وہ سکھوں کی خاطر پاکستان سے تعلق بہتر بنا کر ایسا کون سا چورن ہے جو ووٹ لینے کے لئے بیچے گی۔ کچھ نہیں بدلے گا چاہے پاکستان سارا کام مکمل کرلے۔
بھارت کی لوک سبھا کی 543نشستوں کی تقسیم پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس میں سے 80نشستیں اکیلے، اتر پردیش یعنی یو پی کی ہیں۔ یہ وہ صوبہ ہے جو دراصل گزشتہ کئی صدیوں سے پورے ہندوستان کے اقتدار پر قابض رہا ہے۔ یہاں ہندو اور مسلمان دونوں کی کشمکش ہمیشہ سے عروج پر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایودھیا اور بابری مسجد بھی یہیں پر ہے اور تاج محل سے فتح پور سیکری تک بھی سب یہیں واقع ہے۔
بنارس کا کاشی دشواناتھ مندر، سنّیوں کا بریلی، شیعوں کا لکھنؤ، سرسید کا علی گڑھ، امرائو جان ادا کا فیض آباد، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا محمود الحسن کا دیو بند، مہاتما بدھ کا سارناتھ، رانی لکشمی بائی کی جھانسی، 1857ء کی جنگ آزادی کا میرٹھ، سب کچھ تو یہیں پر ہے۔ یہیں سے امیٹھی ایک جگہ ہے جو نہرو خاندان کی آبائی سیٹ تھی۔ اس طرح کے صوبے میں ہمیشہ مذہبی جذبات کے ساتھ یہ کھیل کر الیکشن لڑا جاتا ہے۔ لیکن 2014ء کے الیکشن سے پہلے کبھی ہندو کارڈ اس طرح کامیاب نہ ہوا جیسا اس الیکشن میں ہوا کہ 80میں سے 72سیٹیں بی جے پی لے گئی اور مودی سے کئی گنا زیادہ متعصب ہندو رہنما یوگی ادیتیاناتھ وزیر اعلیٰ بن گیا۔ اس نے اس ہندو تعصب میں ایک نئی روح پھونکی۔
گائے کاٹنے کے شبہ میں مسلمان قتل ہونے لگے اور مسلمان شہروں کے نام ہندوئوں کے ناموں پر رکھے جانے لگے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا نعرہ پھر بلند کیا گیا۔ یو پی کی بھارت کی تاریخ میں اقتدار پر قبضے کی وجہ یہی ہے کہ آپ پورے بھارت میں سفر کر کے دیکھ لیں آپ کو تمام صوبوں اور ریاستوں میں یو پی کے خلاف ایک سلگتی ہوئی نفرت نظر آتی ہے۔ ممبئی میں جس طرح شبانہ اعظمی کو مسلمان ہونے پر گھر نہیں ملا تھا، ویسے ہی اگر معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص یوپی کا ہے تو اسے گھر کرائے پرنہیں دیتے۔
2007ء میں ممبئی میں مجھے ایک مظاہرہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جو مشہور اداکارہ ہیما مالینی کے ممبئی کے بارے میں ایک بیان کے خلاف تھا اور لوگ نعرے یوپی کے خلاف لگا رہے تھے کہ "ہمیں دودھ بیچنے اور پان کھانے والے بھیئے نہیں چاہئیں" اس ساری علاقائی نفرت کو ہندو مذہب اور "ہندو توا" کے تعصب میں ڈوبی بی جے پی کی سیاست نے بہا دیا۔ نریندر مودی اور یوگی ادیتیا ناتھ اس سیاست کا بدترین روپ تھے۔ لیکن گزشتہ ایک سال سے یہ تبصرے ہو رہے تھے کہ اب شاید یہ کارڈنہ چل سکے۔
بھارت کی تمام اقلتیں اب اس خوف میں تھیں کہ ایک دن ہمارا حشر بھی مسلمانوں جیسا نہ ہو جائے۔ ایسے میں آخری پتہ کھیلتے ہوئے یوگی ادیتیاناتھ کو الیکشن مہم میں پیش پیش رکھا گیا تاکہ بکھرنے والے ہندو تعصب کو زندہ کیا جائے۔ لیکن چھتیس گڑھ، میزو رام، راجستھان اور مدھیا پردیش میں بی جے پی اپنی ذلت آمیز شکست کو شکست میں بمشکل تبدیل کر سکی۔ مگر ایک ریاست تلنگانہ ہے جس میں مسلمانوں کی تہذیب کا ایک اور مقام حیدر آباد ہے۔ جس کے پڑوس میں اورنگزیب عالمگیر کا اورنگ آباد اور ٹیپو سلطان کا میسورہے۔
اس ریاست میں ایک سیاسی پارٹی نے جنم لیا ہے۔ جس کا نام ہے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ہے۔ جس کا سربراہ خوبصورت مقرر اسدالدین اویسی ہے۔ اس پارٹی نے گزشتہ الیکشنوں میں بھی سات سیٹیں جیتیں اور اس دفعہ بھی انہیں برقرار رکھا، لیکن تلنگانہ راشٹریہ سمتھی کے ساتھ مل کر انہوں نے بی جے پی کا صفایا کر دیا۔ اس فضا کے باقی بھارت میں پھیلنے کی دیر ہے۔ مذہب کے نام پر جس تقسیم کو ستر سال سے گالی دی جاتی تھی وہ ایک بار پھر زندہ ہو جائے گی۔ پہلے دو قومی نظریہ مسلمان اکثریتی علاقوں تک محدود تھا، اب دو قومی نظریہ گھروں اور محلوں کی تقسیم تک جا پہنچا ہے۔
ولبھ بھائی پٹیل کا دنیا کا سب سے بلند مجسمہ "ہندو توا" کی علامت کے طور پر بنایا گیا۔ لیکن پٹیل کے تعصب سے پاکستان کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی تھی اور بی جے پی کے تعصب سے مسلمانوں کی بھارت میں عزت و وقار سے زندہ رہنے کی راہ ہموار ہو گی۔