اسلامی بینکاری کی حیلہ سازیاں (2)
ریڈلائٹ علاقہ اس بازار یا رہائشی احاطے کو کہتے ہیں جہاں طوائفیں جسم فروشی کرتی ہیں۔ یہ اصطلاح پہلی دفعہ عیسائیت میں خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیم "Women Christian Temperance Union" نے 1882ء میں استعمال کی اور اب دنیا بھر کے شہروں میں وہ علاقے جہاں یہ دھندہ ہوتا ہے، انہیں ریڈ لائٹ علاقہ یا ایریا کہا جاتا ہے۔
یورپ کا سب سے بڑا ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ ایمسٹرڈیم میں ہے، جہاں دنیا بھر سے ہر رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی لڑکی لا کر اس بازار میں سجائی گئی ہے تاکہ ہر طرح کے گاہک کی تسکین کا سامان ہو سکے۔ جسم فروشی کے اس بازار میں مئی 2014ء کو ایک جسم فروشی کے اڈے کے باہر یہ بورڈ آویزاں تھا "حلال طوائفیں (Halal Hookers) دستیاب ہیں۔ اس باریا اڈے کا نام "Hot Crescent" یعنی "گرم ہلال" رکھا گیا تھا۔
بار کے پمفلٹ میں ان طوائفوں کی خصوصیات میں لکھا گیا تھا کہ یہ طوائفیں شراب سمیت کوئی نشہ نہیں کرتیں، سؤر سمیت کوئی حرام نہیں کھاتیں، پانچ وقت نماز پڑھتی اور روزے رکھتی ہیں اور جنسی فعل میں بھی ممنوعہ حرکات نہیں کرتیں۔
پمفلٹ میں لکھا تھا کہ ہم نے اس سلسلہ میں تین علماء کی رائے بھی لی ہے جن کے مطابق اگر آپ ایک عارضی نکاح کے بندھن میں بندھنا چاہیں تو اس کا بھی بندوبست کیا گیا ہے، اگر آپ اس سہولت سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتے تو پھر آپ خاتون سے معاوضہ کے عوض چند لمحوں کے لئے بیوی بننے کا ازخود معاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔ یہی وہ تصور ہے جس کی کوکھ سے ہر ناجائز چیز کو اسلامی کرنے کا راستہ نکالا جاتا ہے۔
ایک اسلامی ثقافتی مرکز جس میں رقص و سرود سب کچھ ہوتا ہے اور اسلامی مرکزِ نشاط جس میں بغیر الکحل کے مشروبات کے نام پر سب کچھ بیچا جاتا ہے۔ اس حرام کو حلال بنانے کی شاندار اور قابلِ قبول صورت "اسلامی جمہوریت" ہے۔ وہ مغربی جمہوریت جس کی بنیاد ہی عوام کی حاکمیت پر ہے، اسے اللہ کی حاکمیت کا متبادل بنا دیا جائے۔
اسلامی جمہوریت کا تصور دراصل عالمی مالیاتی سودی نظام کے سرمائے سے قائم عالمی جمہوری نظام کی حرام بوتل پر اسلام کا لیبل لگانا ہے۔ جمہوریت کو اسلامی بنا کر خلافتِ عثمانیہ کی تقسیم کے بعد وجود میں آنے والی قومی ریاستوں اور نوآبادیاتی طاقتوں سے آزاد ہونے والی مسلمان ریاستوں کے لئے زبردستی سکّہ رائج الوقت بنا دیا گیا۔ خلافتِ عثمانیہ تک مسلمانوں کا اپنا ایک مالیاتی نظام تھا۔
معاشی ماہرین کے نزدیک قسطنطنیہ کا بازار، تاریخ کا وہ آخری بازار تھا جو مکمل طور پر سود، ذخیرہ اندوزی، جوئے اور دلالوں کی منافع خوری سے پاک تھا۔ "مجلّہ احکامِ عدلیہ" وہ دستاویز ہے جس میں ایسے تمام قوانین موجود تھے جو کسی بھی معیشت کو مکمل اسلامی بناتے تھے اور یہ مجلّۂ قوانین، 1924ء تک خلافتِ عثمانیہ کے زیرِ نگیں علاقوں میں نافذ رہا۔
خلافت کی اس مرکزیت کے ٹوٹنے کے بعد جو ستاون اسلامی ممالک وجود میں آئے ان میں دو طرح کے حکمران تخت نشین ہوئے ایک سیکولر ڈکٹیٹر یا بادشاہ اور دوسرے سیکولر نما جمہوریے۔ دنیا جیسے ہی عالمی سودی مالیاتی نظام کے شکنجے میں آئی تو ان ستاون اسلامی ملکوں کے حکمرانوں نے بھی بریٹن ووڈ کے اس بینکاری نظام کو من و عن تسلیم کر لیا۔ لیکن عوام کے ہاں عالم وہی تھا کہ وہ پڑھا لکھا مسلمان شہری جو یہ جانتا تھا کہ یہ خالص سود ہے اس کو اس مغربی سودی نظام کے بینکوں سے کراہت آتی تھی۔
عام شہری اس نظام کے اندر ڈوبا ہوا تو تھا مگر وہ اس نظام سے نکلنا بھی چاہتا تھا۔ اس "مسلمان" کی تسلی و تشفی کے لئے یہ اسلامی بینکاری کا نظام آہستہ آہستہ نافذ کیا گیا۔ اسلامی بینکاری کی "صنعت" جو اس وقت ایک ہزار ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکی ہے اس کا آغاز پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ملائشیا، مصر اور پاکستان میں نفع اور نقصان یعنی PLS کے کھاتوں سے ہوا۔
لیکن جیسے ہی ستر کی دہائی میں عرب ممالک میں تیل نکل آیا اور حکومتوں کے ساتھ ساتھ عوام کے پاس بھی بیشمار وافر سرمایہ آنے لگا تو 1975ء میں پہلا دبئی اسلامی بینک کھولا گیا اور ساتھ ہی عالمی بینک کی نقل کرتے ہوئے اکتوبر 1975ء میں جدہ میں اسلامی ترقیاتی بینک (Islamic Development Bank) کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ اس اسلامی مالیاتی بینک کے پاس اس وقت 60 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ موجود ہے۔
1985ء میں مسلمان ممالک میں کام کرنے والے 50 بڑے روایتی بینکوں نے اسلامی بینکاری کے کھاتوں کا آغاز کر دیا اور 1990ء تک آتے آتے، تقریباً تمام روایتی بینکوں نے اپنے ہاں اسلامی بینکاری کی کھڑکیاں کھول دیں۔ اب اس نظام کو عالمی سطح پر مربوط کرنا مقصود تھا۔ اس کے لئے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے بڑے اڈے، بحرین میں 26 فروری 1990ء کو ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کا نام (Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions) رکھا گیا۔
اس ادارے کے وجود میں آنے کے دس سال کے اندر اندر یعنی 2000ء تک آتے آتے تقریباً 200 کے قریب اسلامی مالیاتی ادارے وجود میں آئے جن کا بنیادی سرمایہ (Capital) 8 ارب ڈالر، کھاتے داروں کی رقم 100 ارب ڈالر اور اثاثے 160 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہو گئے۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے پاکستان کی اسلامی بینکاری کو اسی ادارے کی سفارشات پر تقریباً جائز قرار دیا ہے۔
ستمبر 2004ء وہ مہینہ تھا کہ جب لندن کے اس شہر میں جہاں سے جدید سودی بینکاری کا آغاز 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کے چارٹر سے ہوا تھا وہاں اسلامی بینک آف بریٹن (Islamic Bank of Britain) کھولا گیا۔ اب مرحلہ یہ تھا کہ سودی نظام سے ملحقہ سٹاک ایکسچینج کو بھی "مسلمان" بنایا جائے۔ اس مقصد کے لئے نومبر 2006ء کو دبئی سٹاک ایکسچینج اور دبئی فنانشل مارکیٹ نے اپنے آپ کو پہلے اسلامی بازارِ حصص (Bours) میں تبدیل کر دیا۔ ٹھیک دو سال بعد ایک ایسا مالیاتی بحران آیا جس نے پوری دنیا میں قائم سودی مالیاتی نظام مکمل تباہی کے قریب پہنچا دیا۔
یہ 2008ء کا بدقسمت سال تھا جب دنیا کے شہروں میں روایتی بینکوں کی کھڑکیاں بھی بند ہونے لگیں۔ ایسے میں اسلامی بینکاری نے اس سودی نظام کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیا۔ جنوری 2009ء میں سنگا پور جیسے لامذہب ملک نے پہلے اسلامی بانڈ پروگرام کا آغاز کیا، اسی سال فروری میں انڈونیشیا نے شرعی بانڈز یا سکوک کا اجراء کیا اور یوں سادہ لوح مسلمانوں کے سرمائے کو سودی نظام کی گرتی ہوئی عمارت کو بچانے کے لئے استعمال کیا گیا۔
اس چالبازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں 2009ء سے 2013ء تک اسلامی بینکوں میں سرمایہ کاری 778 ارب ڈالر تک جا پہنچی اور چار مسلمان ممالک ملائیشیا، انڈویشیا، ترکی اور پاکستان نے اس "فن" میں درجۂ کمال حاصل کر لیا۔ (جاری ہے)