اداروں کا زوال۔ آغاز سے انجام تک
یہ صرف ایک وزیر اعلٰی کا نوحہ نہیں، پاکستان کے ہر سرکاری دفتر کا المیہ ہے، اس المیے سے کسی دفتر کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں۔ سستی، کاہلی، نکما پن، نااہلی، بددیانتی اور بدترین کرپشن یہ علامتیں ہیں جن سے پاکستان کا اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ سرکاری محکمہ پہچانا جاتا ہے۔ وزیر اعلی سندھ، سید امداد شاہ سے جب صحافی مظہر عباس نے سوال کیا کہ آپ کو حکومتی اداروں کی خراب کارکردگی کی کیا وجہ نظر آتی ہے تو انہوں نے جواب دیا، نااہلی (incompetence)۔ یہ نااہلی آج پیدا نہیں ہوئی، اسے اپنی اس ذلت تک پہنچنے میں کم از کم پینتالیس سال لگے ہیں۔
پاکستانی اداروں کی یہ عمارت جسے ہم نے آہستہ آہستہ گرا کر پینتالیس سالوں میں مکمل طور پر منہدم کر دیا، اسے بنانے اور مضبوط کرنے میں تقریبا ڈیڑھ سو سال لگے تھے۔ انگریز جب مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں یہاں سیاح اور تاجر کی حیثیت سے آیا تو اس وقت ہندوستان کے تمام انتظامی ادارے اور کاروبار زندگی، ایسی معراج پر تھے کہ پوری دنیا ان پر رشک کرتی تھی۔ یہ ملک نہ صرف معاشی طور پر خوشحال تھا بلکہ اس کی شرح خواندگی بھی سو فیصد کے لگ بھگ تھی، اس میں امنِ عامہ کے مسائل نہ ہونے کے برابر اور غربت کا تو نام و نشان تک نہ تھا۔
جس ملک کا دنیا بھر کی مجموعی پیداوار میں تیس فیصد کے قریب حصہ ہو، وہاں بے روزگاری کا تو تصور ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن انگریز نے تین سو سال تک صبر کیا اور اس خطے کے زوال کو مکمل ہوتے دیکھا۔ پھر جن علاقوں میں حکومتی اداروں کی گرفت کمزور نظر آئی وہاں حملہ کرکے سریر آرائے سلطنت میں شامل کرلیا۔ 1757ء کی جنگ پلاسی سے 1857ء کی لال قلعہ دہلی کی فتح تک انگریز کو پورے ہندوستان پر اختیار مکمل کرنے میں پورے ایک سو سال لگے۔ اس دوران التمش کے زمانے کا قائم کردہ اسلامی تعلیمات پر مبنی عدالتی نظام، شیر شاہ سوری کا پرگنہ یعنی ضلعی انتظامیہ اور پیمائش زمین کا نظام، علاؤالدین خلجی سے اورنگ زیب عالمگیر تک رسمی اور غیر رسمی تعلیمی نظام سب کے سب وقت کے ساتھ ساتھ دیمک زدہ ہو چکے تھے۔
انگریز نے 1757ء سے ہی ان تمام نظام ہائے کار کو کو بدلنے اور اپنی مرضی کا نیا نظام دینے کی کوشش شروع کر دی جس کے نتیجے میں 1773ء میں لارڈ کارنوالس نے ایک مضبوط سول سروس کی بنیاد رکھ دی جو بعد میں 1857ء میں تاج برطانیہ کے ماتحت آئی تو اس کے ساتھ تفصیلی قوانین اور ضوابط بنا کر ایک شاندار انتظامی ڈھانچہ بنا دیا گیا۔ 1947ء میں جب انگریز یہاں سے رخصت ہوا تو ہندوستان میں جہاں صحت، تعلیم، زراعت، آبپاشی، مواصلات و تعمیرات اور ایسے دیگر دو درجن محکمے موجود تھے، وہاں ان تمام محکموں کی کارکردگی کو بہتر سطح پر رکھنے، انہیں عوام کی امنگوں کے مطابق چلانے اور ان کی مسلسل نگرانی کے لیے جو سول سروس تشکیل دی گئی تھی وہ ہمیں ورثے میں ملی۔
اس سول سروس کے ارکان ایک سخت اور کڑے مقابلے کے امتحان سے منتخب ہوتے، ہندوستان کی سول سروسز اکیڈمی اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں انہیں جامع تربیت دی جاتی۔ اس سول سروس کو پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے سرکاری محکموں کا انتظامی طور پر نگران، سربراہ اور محافظ مقرر کیا جاتا۔ ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ایسے وسیع اختیارات رکھتا تھا کہ وہ اپنے ضلع کو چلانے، اس میں امن قائم کرنے اور اس کی ترقی کے لئے ہر وہ قدم اٹھا سکتا تھا جس کا اختیار ہندوستان میں تاج برطانیہ کے نمائندے یعنی وائسرائے کو حاصل تھا۔ گویا وہ اپنے ضلع کی حد تک ایک "منی وائسرائے" ہوتا تھا۔
مختلف ضلعوں میں ایسے منی وائسرائے کی ذمہ داریاں ادا کرتا ہوا جب وہ مرکزی حکومت کی سطح تک پہنچتا تو اس کے دامن میں پورے ملک میں کی گئی نوکری کا تجربہ ہوتا۔ یوں جیسے ہی وہ کسی ایک محکمے کا سربراہ لگایا جاتا تو اس کے زیرانتظام افسران اسے دھوکا نہیں دے سکتے تھے۔ یہ وہ انڈین سول سروس تھی جس کے حسن انتظام پر کتابیں لکھی گئیں اور جن کی دیانت اور انصاف کی دھوم ان تمام خطوں میں سنی جاتی تھی جہاں لوگ نو آبادیاتی طاقتوں کے محکوم تھے۔ 1947ء میں یہ سول سروس ہمیں تحفے میں ملی، نظریاتی اور فکری طور پر سیکولر تھی لیکن انتظامی طور پر غیر جانبدار اور خطے اور ملک سے وفادار۔
اس سول سروس کے ایک سابق رکن عشرت حسین جو اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں، جو نہ صرف سٹیٹ بینک کے گورنر رہے بلکہ بزنس کی تعلیم کے اعلیٰ ادارے آئی بی اے کراچی کے سربراہ بھی رہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں اپنی تیسری لازوال کتاب تحریر کی ہے Governing the ungovernable۔"ناقابل حکمران، ملک کی فرماں روائی"۔
یہ کتاب پاکستان کے اداروں کے زوال کی کہانی بیان کرتی ہے۔ اس میں سول سروس، عدلیہ، مقننہ معیشت اور فوج جیسے اداروں کے زوال کی داستان بیان کی گئی ہے۔ عشرت حسین صاحب نے پاکستان کی تاریخ کو دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے (1) کامیابی اور کامرانی کے پہلے 40 سال یعنی 1947ء سے 1990ء تک اور تباہی و بربادی کے سال یعنی 1991ء سے لے کر اب تک۔ کتاب میں پہلے چالیس سالوں کا لب لباب یہ ہے کہ 1990ء تک پاکستان دنیا کے ان چند گنے چنے ملکوں میں شمار ہوتا تھا جس کی معیشت اپنے پورے خطے میں سب سے زیادہ مضبوط تھی۔ بھارت، کوریا، ملائشیا اور ایران جیسے ملک بھی اس سے پیچھے تھے۔ ان چالیس سالوں میں پاکستان کی شرح ترقی ساڑھے چھ فیصد تھی جبکہ بھارت صرف تین فیصد پر تھا۔
پاکستان دنیا کے دس بہترین ترقی کرنے والے ممالک میں شامل تھا۔ حالانکہ ان چالیس سالوں میں پاکستان جن صدمات سے دوچار ہوا 1990ء کے بعد ایسے کسی ایک صدمے سے بھی اس کا سامنا نہ ہوا۔ 1947ء میں تباہ حال معیشت ہمیں ورثے میں ملی، نہ صنعت تھی اور نہ زراعت، اس کے بعد 1948ء کی کشمیر جنگ، 1965ء کی جنگ، 1971ء کی جنگ اور ملک کا دو ٹکڑے ہونا، بھٹو کا تمام صنعتوں کو قومیا لینا اور سرمایہ کاری کا خاتمہ، ضیاء الحق کا مارشل لاء، افغان جہاد کا آغاز اور 1988ء میں اس کا خاتمہ۔ یہ تمام سانحات اور المیے پہلے چالیس سالوں میں ہوئے، لیکن پاکستان مسلسل ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔
عشرت حسین نے دنیا بھر میں لکھی گئی پاکستان کے زوال کے بارے میں کتابوں کے مطالعے کے بعد تجزیہ کیا ہے کہ وہ ادارے جنہوں نے پاکستان کو ترقی کروائی وہ اسی عظیم سول سروس کے بنائے گئے ادارے تھے۔ پاکستان بنا تو یہاں کوئی صنعت نہیں تھی۔ یہاں پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن بنائی گئی جس نے ملک بھر میں صنعتوں کا جال بچھایا جسے دیکھ کر پرائیویٹ سیکٹر میدان میں آیا۔ ان کی مدد کے لئے PICIC اور IDBP جیسے ادارے بنائے گئے جو آسان قرضے دیتے تھے، یوں پاکستان دنیا کے صنعتی نقشے پر ابھر کر سامنے آیا۔ پاکستان کی ترقی کا سارا انحصار پلاننگ کمیشن پر تھا۔ ایسے منصوبے بنائے گئے، جنہوں نے یہاں ترقی کے دروازے کھول دیے۔ اس پلاننگ کمیشن کا ہی پہلا منصوبہ تھا جسے جنوبی کوریا نے نقل کیا اور کامیاب ہوا۔
زراعت کے معاملے میں یہ خطہ قیام پاکستان کے وقت تین کروڑ لوگوں کی خوراک کا بندوست بھی نہیں کر سکتا تھا۔ زرعی ترقیاتی کارپوریشن بنائی گئی اور وہ ملک جو امریکہ سے ہر سال PL480 کے تحت گندم منگواتا تھا اب اس کے ہاں 26 ملین ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جو اس وقت ہماری ضروریات سے زیادہ ہے۔ اسی کارپوریشن سے نئے بیج، کھاد اور زرعی آلات کا استعمال شروع ہوا۔
واپڈا جیسا ادارہ قائم ہوا جس نے سندھ سرزمین ( Basin Indus) جیسا عظیم زرعی منصوبہ بنایا، دو ڈیم بنائے اور اتنا کمال حاصل کیا کہ اس واپڈا کے تمام ملازمین کو ورلڈ بینک نے اپنے ہاں ملازم رکھ لیا تاکہ وہ پوری دنیا میں اپنی مہارت مختلف ملکوں کو بتا سکیں۔ پی آئی اے اسی سول سروس نے بنائی، جس نے سنگاپور ایئر لائن اور امارات ایئرلائن تک بنائی۔ یہ تھے پاکستان کی ترقی کے پہلے چالیس سال۔
زوال کا آغاز اس وقت ہوا جب 1973 میں ذولفقارعلی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو اس نے پاکستان کے اس اہم ترین ادارے کو تباہ و برباد کرنے کے لیے اکاؤنٹ سروس کے ایک شخص وقار احمد کو انتقامی ایجنڈے کے تحت سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ لگایا۔ وہ سول سروس جو گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے ایک سخت ترین مقابلے کے امتحان سے گزر کر انتظامی ذمہ داریاں سنبھالتی تھی، اسے آئینی تحفظ حاصل تھا تاکہ انہیں کوئی طالع آزما سیاستدان یا حکمران، ناراضگی یا ناپسندیدگی کی وجہ سے افسران کو نکال نہ سکے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے وہ آئینی تحفظ ختم کردیا۔ اس کے بعد سخت مقابلے کے امتحان کی جگہ لیٹرل انٹری Entry Lateral سسٹم کا آغاز کیا گیا جس کے تحت 5، 476 افسران کو گریڈ 16 سے 22 تک سول سروس میں بھرتی کیا گیا۔
یہ پانچ ہزار سے زیادہ افسران کسی مقابلے کے امتحان کی بجائے پیپلز پارٹی کے سرکردہ لیڈران کی سفارش پر بھرتی کیے گئے، جنہوں نے پوری سول سروس کے نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ تھا وہ بدترین آغاز۔ یہ پہلا زلزلہ تھا جسے 1977ء میں غلام اسحاق خان نے ضیاء الحق کی مدد سے دوبارہ سنبھالنے اور بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن ضیاء الحق بھی آئینی تحفظ واپس کرنے کو تیار نہ ہوا۔ کون ایک غلام قسم کی سول سروس کے بدلے آزاد اور خود مختار سول سروس چاہتا تھا۔
یہی غلام سول سروسز ضیاالحق کی موت کے بعد جب 1988 میں بے نظیر، پھر نواز شریف کے ہاتھوں میں آئی تو انہوں نے اس کے ماتھے پر کرپشن، نااہلی، بددیانتی اور بے انصافی کی مہر لگا دی۔ اب یہ ایک کھنڈر ہے جس میں کرپشن کی چڑیلیں ناچتی ہیں اور سیاسی رہنماؤں سے وفاداری کا بھوت قہقہے لگاتا ہے۔