ہماری بدحالی کے سفر کے بدترین مجرم (1)
جس کسی کا مستقبل صرف اور صرف پاکستان سے وابستہ ہے اور اگر وہ کسی نہ کسی اہم سیاسی، حکومتی اور عسکری عہدے پر متمکن ہونے کی وجہ سے حالات کی سنگینی کو جانتا ہے وہ تو اس وقت سر پکڑ کر بیٹھا ہے کہ یہ ملک اس خوفناک بحران سے کیسے نکلے گا۔ یہ بحران گذشتہ تقریباً چالیس سال کی بدترین حکومتوں کا تحفہ ہے۔ یہ ان حکمرانوں کا تحفہ ہے جن کی اپنی معیشت، کاروبار، جائدادیں، یہاں تک کہ خاندان کے افراد تک اس ملک میں نہیں ہیں۔
ان کی بَلا سے یہ ملک ہنستا بستا ہے یا اُجڑتا ہے۔ وہ تو الیکشن کے موسم میں فصلی بٹیروں کی طرح آتے ہیں اور جو دانہ دُنکا اس ملک کے عوام نے جمع کیا ہوتا ہے چھین کر بیرون ملک اپنی پناہ گاہوں میں لے جاتے ہیں۔ یہ سب کے سب آج اپنی تقریروں، بیان بازی اور لچھے دار تنقید سے اس بحران کو مزید زہر آلود کر رہے ہیں۔ یہ وہی تو ہیں جن کی وجہ سے اس مفلوک الحال اور بدقسمت قوم پر بیرونی قرضے 121.75 ارب ڈالر کی سطح تک جا پہنچے۔
ان کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے اس ملک کے غریب عوام نے 11. 3 ارب ڈالر پیرس کلب کے دینے ہیں، 33.1 ارب ڈالر لاتعداد غیر ملکی ڈونرز کے ادا کرنے ہیں، 7.4 ارب ڈالر ہم آئی ایم ایف کے مقروض ہیں، جبکہ ہم نے دُنیا بھر کے سٹاک ایکسچینجوں میں 12 ارب ڈالر کے یورو بانڈ اور سکوک بیچ رکھے ہیں۔ ان قرضوں میں صرف 17. 1 ارب ڈالر چین کا قرضہ ہے۔ یہ تو وہ قرضے ہیں جو ہم نے بیرون ملک تقریباً ہر اس ملک اور ادارے سے لئے ہیں جو قرض دے سکتا تھا اور شاید کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے ہم مقروض نہ ہوں۔
اس کے علاوہ ہم نے حکومتی عیاشیوں اور اپنے اللّوں تللّوں کیلئے اپنے ہی شہریوں کی اس جمع پونجی کو بھی قرض میں اُڑا دیا جو انہوں نے ملکی بینکوں میں جمع کروائی تھی۔ پاکستان کے یہ "محسن" جو اس وقت اُچھل اُچھل کر تقریریں کرتے ہیں، انہوں نے قومی بینکوں سے 204.77 ارب ڈالر قرضہ لے کر شاہانہ طرزِ حکومت سے زندگیاں گزاریں۔ پاکستان کو اس قرض کی دلدل میں پہلا بڑا دھکا بے نظیر بھٹو کی 1988ء کی حکومت میں دیا گیا، اس کے بعد جو آیا اس نے دلدل میں پھنسے ہوئے اس ملک کے سر پر قرضوں کا مزید بوجھ لاد دیا۔
قرضوں کی یہ چونتیس سالہ تاریخ لوٹ مار کی ایک داستان ہے۔ جس دن بے نظیر کو حکومت ملی اس دن اس ملک پر صرف سترہ ارب کے قریب قرضہ تھا جو اس ملک کے کل قرضے کا 1.59 فیصد تھا۔ آج ہمارا قرضہ مجموعی پیداوار کا 80.94 فیصد ہے۔ اگر ان چونتیس سالوں کے قرضوں کا مرحلہ وار جائزہ لیں تو دل پر پتھر رکھ کر یہ بات کرنا پڑتی ہے کہ صرف پرویز مشرف کے دَور میں اس ملک کے قرضے نہ صرف رُکے بلکہ کم ہوئے۔
آج ہر وہ شخص جس کا اس سرزمین کے علاوہ کسی اور ملک میں ٹھکانہ نہیں، جس کا جینا مرنا اس دھرتی سے وابستہ ہے اور جسے اس طوفان کا اندازہ ہے وہ پریشان ہے اور اس کی رات کی نیندیں حرام ہیں۔ اس ملک کی حالت بالکل اس شخص جیسی ہے کہ جو دن بھر مزدوری کر کے شام کو کچھ کما کر لائے اور دروازے پر کھڑے قرض خواہ اس کی دن بھر کی کمائی چھین لیں۔ پاکستان کی حکومت نے گذشتہ سال یعنی 2021-22ء میں اگر سو روپے کمائے تھے تو اس میں سے 85 روپے اس نے قرضوں کی قسط ادا کرنے میں دے دیئے اور باقی 15 فیصد سے یہ پورا ملک چلایا جا رہا ہے۔
پاکستان نے گذشتہ سال 4,764 ارب ٹیکس کی صورت اکٹھا کئے، جس میں سے این ایف سی ایوارڈ کی صورت صوبوں کو 2,741 ارب دے دیئے گئے۔ اب رہ گئے 2,023 ارب روپے، ان میں نان ٹیکس ریونیو مثلاً بانڈ، سرکاری کمپنیوں کی آمدنی سے 1,480 ارب اکٹھے ہوئے جو کل ملا کر 3,503 ارب بن گئے جن میں سے 2,749 ارب قرضے کی قسط ادا کر دی گئی اور حکومتِ پاکستان کے پاس صرف 754 ارب بچ گئے جن سے اس ملک کی مسلح افواج، مرکزی حکومت، ہوائی اڈے، بندرگاہیں، بیرون ملک سفارت خانے، موٹرویز، قومی شاہراہیں اور پوری مرکزی حکومت کی سول ایڈمنسٹریشن کا خرچہ اُٹھایا جاتا ہے۔
اسی میں سے آپ نے دفاع کیلئے اسلحہ بھی خریدنا ہے، ایئر فورس کے جہازوں کا پٹرول اور ان کے پرزہ جات، رینجرز، کوسٹ گارڈ، سول ایوی ایشن وغیرہ کا بجٹ، کسٹمز اور انکم ٹیکس کے عملے کی تنخواہیں، سب اسی بچی کھچی آمدن سے پورا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں کہ ہمیں روزمرہ اخراجات، یہاں تک کہ دفاع کیلئے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے۔
لیکن اس قرض میں جکڑی ہوئی بدترین معاشی حالت کی اصل وجوہات جو جانتا ہے، اسے ایسے لوگوں کی تنقید اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کی گئی گفتگو اچھی نہیں لگتی۔ یہ وہ لوگ تھے جو گذشتہ چونتیس سال تک ایک ایسے ملک پر حکمران رہے، جس کے عوام کو صاف پانی تک میسر نہ تھا، جس کے بچے، جوان اور بوڑھے ہسپتالوں کی دہلیزوں پر دَم توڑتے رہے، لیکن حکمران مغلیہ بادشاہوں کی عمارتوں جیسا وزیر اعظم کا دفتر اور پُرتعیش وزیر اعظم ہائوس بناتے رہے۔ انہیں جس جگہ جانے کا شوق ہوا، خواہ وہ مری تھی یا لال سہانڑا، انہوں نے ان کے ریسٹ ہائوسوں کو محلات کی طرح آراستہ کیا۔
ان کی تعیش پسندی کی گواہیاں اس ملک کا کونہ کونہ دیتا ہے۔ ان حکمرانوں کی مثال ایسے والدین کی سی تھی جن کے گھر فاقہ تھا، لیکن یہ قسطوں پر ایئرکنڈیشنڈ خرید لائے، جن کے بچے بیماری سے مر رہے تھے، مگر وہ بینک سے قرضہ لے کر کار لے آئے۔ آج سے تئیس سال قبل جب لاہور اسلام آباد موٹر وے جیسے شاہانہ رستے کا افتتاح ہوا تھا تو اس وقت جی ٹی روڈ پر بھی ٹریفک زیادہ نہ تھی، مگر ضد تھی کہ لاہور اسلام آباد موٹر وے بنائی جائے اور یوں ایک ایسی موٹر وے بنائی گئی جس کے دونوں طرف آج بھی کروڑوں بھوکے ننگے، صاف پانی، علاج اور تعلیم سے محروم انسان بستے ہیں۔ چند ہزار گاڑیاں جو روزانہ ان جیسے موٹرویز سے گزرتی ہیں تو اپنے آس پاس ایک ہزار سال پرانی بودوباش والے علاقوں کو دیکھتی ہیں، جہاں بجلی ہے نہ سیوریج۔
آج بھی کچے ڈیرے نظر آتے ہیں جن کی دیواروں پر ایندھن کا کام لینے کیلئے اوپلے تھاپے جاتے ہیں۔ یہ وہ ظالم تھے جن کے ادوار میں ایئر پورٹ خوبصورت سے خوبصورت ہوتے چلے گئے، کیونکہ ان پر ان کے ہم رکابوں اور ہمجولیوں نے سفر کرنا تھا، لیکن غریب کی سواری والے بس کے اڈے اور ریلوے سٹیشن گندگی کا ڈھیر بنتے چلے گئے۔ چونتیس سال پہلے سرکار کے ہسپتال اور سکول ایسے تھے کہ ایک عام آدمی وہاں علاج کرانے اور بچوں کو بھیجنے میں عار نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن ان کے کاروباری پارٹنرز نے ملک بھر میں صحت اور تعلیم دونوں کو کاروبار بنا دیا اور یہ حکومت پر بیٹھے صحت اور تعلیم کے اداروں کی تباہی اور بربادی کے راستے ہموار کرتے رہے۔
یہ ملک چونتیس سال پہلے اپنی صنعتی ترقی اور زرعی صلاحیت کی وجہ سے دُنیا بھر کی ترقیاتی معاشیات کے کورس کی کتابوں میں مثال کے طور پر پیش ہوتا تھا۔ انہوں نے ان دونوں کو برباد کر کے اپنے کاروباری دوستوں کے لئے راستے ہموار کئے۔ باہر سے مال لائو اور مارکیٹیں آباد کر کے بیچو، یوں کارخانے ویران اور شاپنگ مال آباد ہونے لگے، کھیت برباد اور خوراک درآمد کرنے والوں کی تجوریاں بھرنے لگیں۔ (جاری)
نوٹ: وہاڑی کا ایک شخص مائیکرو کریڈٹ کے ایک لاکھ روپے سودی قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ اس نمبر 0340-2577513 پر رابطہ کر کے اسے نجات دلائی جا سکتی ہے۔