گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
بنارس جسے ان دنوں وناراسی کہتے ہیں، ایک رنگارنگ شہر ہے۔ ہر گلی ایک منظرنامہ اور ہر موڑ ایک تماشہ گاہ ہے۔ یہ ان چند شہروں میں سے ایک ہے جو اردو محاورے کا حصہ بنے، "شام اودھ، صبح بنارس"۔ اودھ کی شام طوائفوں کے کوٹھوں سے رنگین ہوتی تھی لیکن گنگا کنارے بنارس کی صبح واقعی آج بھی دید کے قابل ہوتی ہے۔ میں بنارس سے دس کلومیٹر دور سارناتھ میں ٹھہراہوا تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں گوتم بدھ طویل بن باس کے بعد جب گیان حاصل کرکے لوٹاتواس نے اس جگہ اپنے پہلے پانچ بھکشوؤں سے دھرم کے حوالے سے خطاب کیا۔ اسی خطاب میں اس نے اپنے گیان سے حاصل کردہ بدھ مذہب کی چار انسانی سچائیوں کو پہلی دفعہ بیان کیاتھا۔ یہیں پر اشوک نے ایک عظیم الشان سٹوپا بنوایا تھا، جو آج بھی اپنی پوری شوکت کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس سٹوپا کے صرف دس کلو میٹر کے فاصلے پر پورا ہندودھرم اپنی ذات پات کی جکڑبندیوں سمیت پوری آب و تاب سے موجود ہے۔ ذات پات کی وہ بدترین تقسیم جس کے خلاف گوتم بدھ نے علمِ بغاوت اٹھایا تھااور پورے ہندوستانی معاشرے کو بدل کر رکھ دیاتھا۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی آمد سے پہلے جس نیک نام اور کامیاب بادشاہ کا پتہ تاریخ میں ملتا ہے وہ اشوک ہی ہے۔ کابل سے لے کر کلکتہ اور لنکا تک جس کی بادشاہت تھی اور جس نے یہ پورا علاقہ ایک بھی جنگ لڑ کر اپنی حکومت میں شامل نہیں کیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب کلنگاکی جنگ میں وہ دس لاکھ لوگوں کو لاشیں دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رویا، تو اس نے سب سے پہلے ذات پات کی نفرت سے بھرپور ہندو دھرم کو چھوڑا اور بدھ مت قبول کر لیا۔ چار لاکھ فوج فارغ کر دی اور پچاس ہزار سدھائے ہوئے ہاتھی شاہی دسترس سے آزاد کر دیئے گئے۔ دنیا بھر میں اس نے گوتم بدھ کی تعلیمات کا پرچار شروع کیا اور لوگ جوق در جوق اس کے ضلعی حاکموں کے ماتحت رضا کارانہ طور پر آتے چلے گئے۔ ان حاکموں کو"مہاویر" کہتے تھے اور جو انصاف کرنے میں اپنا ایک شہرہ رکھتا تھے۔
سارناتھ سے بنارس جاتے ہوئے جہاں میرے دل و دماغ میں ایک طویل فہرست اور محدود وقت کی جنگ چل رہی تھی وہیں ایک نام ایسا تھا جس کا گاؤں والا گھر دیکھنے کی مجھ میں ایک عجیب و غریب بے تابی تھی۔ اردو افسانہ و ناول نگاری کی حیران کر دینے والی عظیم شخصیت۔۔۔ منشی پریم چند۔ آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل اردو ادب کے افسانے اور ناول کے آسمان پر دو ستارے ایک ساتھ جھلملائے تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد اور منشی پریم چند۔ ڈپٹی نذیر احمد کی "توبتہ النصوح" ہمیں والد صاحب نے زبردستی پڑھوائی تھی، جبکہ منشی پریم چند کی "زادِ راہ "اور "گئودان" ہم نے شوق سے پڑھیں تھیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کی اخلاقیات کے دودھ میں دھلی تحریریں، جہاں ہمارے معاشرے کے لیئے مشعل راہ کا کام کرتیں تھیں وہیں، منشی پریم چند کی ہندو معاشرے کی فرسودہ اقدار میں پسی ہوئی چھوٹی ذاتوں کے المیے اور ذات پات میں الجھے ہوئے اس معاشرے کا دکھ ہم پر واضح کرتی تھیں۔ بنارس گھاٹ، شہنائی والے بسم اللہ خان اور امراؤ جان ادا کی قبریں، ٹیپو سلطان کے بیٹوں کے مزار، کاشی وشوا ناتھ کا مندر جس کے پہلو میں اورنگ زیب عالمگیر کی بنائی ہوئی جناناواپی کی مسجد، رات کو گنگا میں دیئے بہا کر، لوریاں سناتے ہوئے پنڈت اور دیپ بہانے والی پوجا کی رسم کی رنگینی جیسے مرحلوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی، مجھے منشی پریم چند کے گاؤں والے گھر کو دیکھنے کی لگن قائم رہی۔ چھوٹا سا سفید چونے سے لیپا ہوا گھر جس کے ساتھ ایک چبوترہ تھا، جسے عین ممکن ہے محلے میں گپ شپ کی چوپال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہوگا۔ میں اس چبوترے پر بیٹھ گیا اور پھر میری آنکھوں میں وہ منظر گھومتے چلے گئے، جب اس عظیم مصنف نے یہاں بیٹھ کر "کفن" جیسے افسانے اور "گئودان" جیسے ناول تحریر کئے ہوں گے۔
گذشتہ دو دنوں سے پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ میں جو گالم گلوچ اور جوتم بیزار ہو رہی ہے اور اب تو عالم یہاں تک آپہنچا ہے کہ ایک صاحب ببانگِ دہل اعلان کر رہا ہے کہ گالی تو ہمارا پنچابی کلچر ہے۔ گالی دنیا کی ہر زبان میں ہوتی ہے اور ہرزبان اپنی گالیوں کے معاملے میں فصیح بھی ہے اور خودکفیل بھی۔ پشتو کے لاتعداد محاورے، سندھی کی ضرب الامثال اور بلوچی، بروہی کی گالیاں پنجابی سے مختلف نہیں ہیں۔ اسی طرح عربی محاورہ، فارسی شاعری، یہاں تک کہ دنیا کے ہر مہذب کہلائے جانے والے معاشرے میں گالیوں کا ایک ذخیرہ آپ کوضرور ملے گا۔ لیکن جس المیے کا ہم مدتوں سے شکار ہوتے چلے آرہے ہیں، اس پر منشی پریم چند نے ایک انتہائی مفصل مضمون لکھا تھا جس کاعنوان ہی "گالیاں " تھا۔ اس خوبصورت اور طویل تحریر کے چند اقتباسات درج کر رہا ہوں۔ سو سال پہلے لکھے ہوئے اس مضمون کو آج کی اپنی معاشرتی اور اخلاقی حالت پرچسپاں کیجئے اور اس ماتم میں شریک ہو جایئے جو منشی پریم چند نے سو سال پہلے کیا تھا۔ مضمون کے اقتباسات درج ذیل ہیں۔
"ہر قوم کا طرزِ کلام اس کی اخلاقی حالت کا پتہ دیتا ہے۔ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہندوستان روئے زمین کی تمام قوموں میں سب سے نیچے نظر آئے گا۔ ہم بات بات پر گالیاں بکتے ہیں اور ہماری گالیاں ساری دنیا کی گالیوں سے نرالی، مکروہ اور ناپاک ہوتی ہیں۔ جن گالیوں کا جواب کسی دوسری قوم کا آدمی شمشیر اور پستول سے دے گا، اس سے بدرجہا مکروہ اور نفرت انگیز گالیاں ہم اس کان سے سن کر اس کان سے اڑا دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کرہمارے قومی کمینہ پن اور نامردی کا ثبوت نہیں مل سکتا کہ جن گالیوں کو سن کر ہمارے خون میں جوش آجانا چاہیے، ان گالیوں کو ہم دودھ کی طرح پی جاتے ہیں اور پھر اکڑ کر چلتے ہیں، گویا ہمارے اوپر پھولوں کی برکھا ہوئی ہو۔ گالیوں سے ہمیں ایک عشق سا ہوگیا ہے گالیاں بکنے اور سننے سے ہم کو سیری ہی نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک میں گالیاں صرف نثر ہی میں نہیں بلکہ نظم میں بھی دی جاتی ہیں۔ ہم گالیاں گاتے ہیں۔ غصہ میں ہم گالیاں بکیں، دل لگی میں ہم گالی بکیں، گالی بک کر زورِ لیاقت ہم دکھائیں، حتیٰ کہ مذہبی معاملات میں بھی۔ گالی ہمارا قومی ضمیر ہو گئی ہے، کسی تانگے پر بیٹھ جایئے اور سنئے کہ تانگے والا اپنے گھوڑے کو کیسی گالیاں دیتا ہے۔ ایسی فحش کہ طبیعت مالش کرنے لگے۔ اس غریب گھوڑے کی ذاتِ خاص اور اس کی مادرِ مہربان اور اس کے پدر بزرگور اور اس کے جدِ ناہجاز، سب اس نیک بخت اولاد کی بدولت گالیاں پاتے ہیں "۔ ، ، ہم میں سے کتنے ہی شوقین، رنگین مزاج حضرات ایسے نکلیں گے جو حسینوں کے منہ سے گالیاں سننابرکتِ عظمیٰ سمجھتے ہیں۔ بدزبانی بھی گویاحسینوں کے غمزے میں داخل ہے۔ عشاق کا یہ فرقہ اس حسینہ کو ہرگز معشوق نہ کہے گا جس کی زبان میں شوخی و تندی نہیں۔ منشی پریم چند کا یہ مضمون بہت طویل ہے لیکن اس کا بیان کردہ یہ پہلو خاص طورہ پر تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ معشوقہ اور حسینہ کی خوبصورتی کو بھی فحش گوئی سے وابستہ کردیا گیا ہے۔ غالب نے ایسے تو نہیں کہا تھا
واں گیا میں بھی تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہوگئیں
اور محبوب کی گالیوں کو اسی غالب نے مصری کی ڈلیاں بنا دیاک
تنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
یہ بے شرمی اور بے حیائی پر جمے رہنے کے ڈھیٹ پن پر مبنی معاشرہ ہے جو گالی جیسے فسق پر فخر کرتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا "گالی دینا فسق ہے"اور اللہ فرماتاہے کہ" اللہ فاسقین کو ہدایت نہیں دیتا"۔ ہماری کوئی راہِ نجات ہے؟