فلیپر سے می ٹو تک (1)
بڑے بڑے شہر آباد ہوئے، کارخانے لگے، صنعتوں کا جال بچھا تو جدید مغربی تہذیب کے سفاک کارپوریٹ سرمایہ دار کو مزدوروں کی تلاش نے پاگل کر دیا۔ مدتوں غلاموں اور چھوٹے بچوں سے کام چلایا جاتا رہا۔ سرمایہ دارانہ صنعتی معاشرے سے پہلے دنیا میں بچوں کی مزدوری کا تصور ہی نہیں پایا جاتا تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے خاندان میں والدین کے ساتھ کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے۔
ایک ایسا ماحول جس میں اجنبیت کا خوف تھا نہ ہی مسکراہٹ اور کھیل کود پر پابندی۔ لیکن مشینی دور میں جسکا آغاز وکٹورین عہد سے یعنی 1850ء کے قریب ہوا، اس نے بدترین اخلاقیات اور ظلم کو جنم دیا جس میں سولہ سال سے کم عمر کے بچے کوئلے کی کانوں، ٹیکسٹائل کے کارخانوں، ورکشاپوں اور گھریلو کام کاج میں زبردستی جوت دیے گئے۔ یہ بچے بارہ بارہ گھنٹے روزانہ کام کرتے، نیند میں اونگھتے تو سپروائزر کی مار کا نشانہ بنتے، مشین کے پٹوں پر گر کر جان سے جاتے یا معذور ہو جاتے۔ ان بچوں کی تنخواہیں عام مزدور کا صرف دس سے بیس فیصد تک ہوتیں۔
امریکہ اور انگلینڈ میں ان مزدوربچوں کی تعداد کل مزدوروں میں ایک تہائی سے بھی زیادہ تھی۔ گھروں میں کام کرنے والے بچے اور بچیاں ان کے علاوہ تھے۔ صرف لندن شہر میں ڈیڑھ سے دو لاکھ بچے اور بچیاں گھریلو ملازموں کے طور پر کام کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ خوشحالی آئی اور مزدوروں کی ٹریڈ یونینوں نے جنم لیا تو آہستہ آہستہ صنعتوں کو کمسن بچے ملنا کم ہوگئے۔ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے اور کسی بہتر شعبے میں آگے بڑھانے کے لئے زیادہ مستعد ہو گئے۔
کیمونسٹ تحریکوں نے مزدوروں کو منظم کرنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں قوانین آئے اور مزدوری کے اوقات محدود ہوگئے اور تنخواہوں کا بھی معیار مقرر کردیا گیا۔ اب ظالم سرمایہ دار کی نظریں خاندانی نظام کی سب سے اہم اور بنیادی رکن "عورت" پر جا پہنچیں۔
کارپوریٹ سرمایہ داری کی مکار ذہنیت نے جو چال چلی وہ خطرناک تو تھی مگر دلکش و خوشنما بہت تھی۔ انہوں نے سوچا، وجود زن کو اگر مرکز و محور بنادیا جائے تو اس کی چکاچوند میں اس سے وہ کام لیے جاسکتے ہیں کہ جن کا تصور بھی چائلڈ لیبر کی دنیا میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ اس عورت کو گھر کی چاردیواری سے باہر لاکر شمع محفل بنایا جائے اور اسے مرد کے مقابل کھڑا کردیا جائے۔ شہر پھیل رہے تھے، کارخانے لگ رہے تھے۔
1920ء تک 51 فیصد امریکی شہروں میں منتقل ہوچکے تھے اور ان شہروں میں کام کرنے والوں میں تیس فیصد کے قریب خواتین تھیں، مگر ان کی اکثریت گھریلو کام کرنے والیوں، کلرک، آفس سیکرٹری، فیکٹری مزدور یا دیگر پیشوں یعنی نرس اور سکول ٹیچروں تک ہی محدود تھی۔ وہ ایسے پیشے اختیار کرتیں جنہیں"faminized" یعنی عورتوں سے منسلک سمجھا جاتا تھا۔
ایسی عورتیں تو ان کے کسی کام کی نہیں تھیں جو دفتروں، فیکٹریوں، اسکولوں اور ہسپتالوں میں نوکریاں صرف اور صرف گھر کی خوشحالی اور شہری زندگی کے بے پناہ اخراجات پورا کرنے کے لئے کرتی ہوں۔ ان عورتوں کا تو مقصد اور خواب صرف گھر تھا اور وہ اسی گھر میں آئندہ نسلوں کے بہترین مستقبل اور خوشحالی کے لیے گھر اور کام کاج دونوں کی بیک وقت مشقت برداشت کرتی تھیں۔ جنگ عظیم اول سے پہلے کی عورت کی نمایاں تصویر یہی تھی کہ اس نے اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے قربانی دی۔ اپنی صحت کا خیال رکھا اور نہ ہی زیب و زینت کا۔ بیچاری فیکٹری، دفتر یا کسی امیر گھرانے میں آٹھ گھنٹے گھریلو کام کرکے آتی اور پھر اپنے گھر کی ذمہ داریوں میں مصروف ہوجاتی۔
ایسی عورت تو اس ظالم سرمایہ دار کارپوریٹ معاشرے کو نہیں چاہئے تھی۔ ایسی عورت تو گھر کی افادیت اور اہمیت کے لئے کسی بھی وقت اپنی نوکری چھوڑ کر جا سکتی تھی۔ یہ عورت تو ایک ماں کی طرح خدمت گار، بیوی کی طرح کفایت شعار اور بیٹی کی طرح گھریلو اقدار کی امین بن کر زندگی گزارتی ہے۔ ایسی عورت کو گھر کی محبت بھری دنیا سے باہر نکال کر جب تک مرد کے مقابلے میں لاکر کھڑا نہیں کیا جاتا، ظالم کارپوریٹ سرمایہ داری کا پہیہ نہیں چل سکتا۔ اس نئی جنم لینے والی تہذیب کی تین علامتیں تھیں (1) خوشحالی (prosperity)، (2) شہری زندگی (urbanism)اور(3) صارفیت (consumerism)۔
ان تینوں کے تیزرفتار پہیے تلے جس ادارے کا خون ہوا وہ خاندان تھا اور اس خاندان کی تباہی کا بلیدان صرف اور صرف عورت نے دیا اور آج تہذیب کی قربان گاہ پر صرف اسی کی خون آلود لاش پڑی ہے اور اس عورت کے چہرے پر جو رونق ہے وہ اسی خون کے غازے سے پیدا ہوئی ہے۔
اس عورت کو اس جدید کارپوریٹ تبدیلی سے جنم لینے والے سماجی نظام کے لیے تیار کرنا ضروری تھا۔ تبدیلی کے راستے میں اس کا روایتی تصور آڑے آتا تھا۔ اس کا سر سے پائوں تک لباس میں ڈھکے ہونا بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ اس کے لباس کی وجہ سے ہی تووہ رقص بہت آہستہ کرتی تھی اور زوردار طریقے سے تھرکنا، اچھلنا کودنا اسکے لئے برا سمجھا جاتا تھا، کہ یہ تو صرف مردوں کا خاصا تھا۔ اس کے لمبے بال، چٹیا، ان کی دیکھ بھال، یہ سب اس کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ اس کا جسم ایک تناسب کے ساتھ لوگوں کو لبھا سکتا تھا، دیوانہ بنا سکتا تھا، لیکن اسے تو سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا تھا۔ اس کے ہونٹ سادہ تھے، تھکن آلود، موسمی اثرات سے پھٹے ہوئے، انہیں خوبصورت رنگوں سے جاذب نظر بنایا جا سکتا تھا۔
اگر وہ کٹے ہوئے بالوں کو ایک ادائے دلربائی سے جھٹکا دے کر وہی سگریٹ جو صرف مردوں کے لیے مخصوص تھا اسے اپنے منہ میں رکھ کر دھوئیں کے مرغولے بنائے تو پھر کیسے وہ جاذبِ نظر نہیں ٹھہرے گی۔ اس انقلاب کی بنیاد ایک نئے ملبوس سے رکھی گئی جسے جنگ عظیم اول کے آس پاس فلیپر (Flapper) کہا جاتا تھا۔
اس کا آغاز ایسے ہوا کہ وہ قمیض جو پاؤں تک ہوتی تھی، اس کے گھیرے (hemline) کو زمین سے 14انچ بلند کر دیا گیااوریوں ٹانگوں کی خوبصورتی کو نمایاں کیا گیا۔ اس کے بعد اس لباس میں مزید رنگ بھرے گئے۔ یوں 1920ء تک آتے آتے جدید عورت وہ شمار ہوتی جس کے بال کانوں سے اوپر کٹے ہوں، فلیپر پہنے ہوئے، سگریٹ ہونٹوں میں دبا کر ڈانسنگ فلور پر آزادانہ طریقے سے جاز میوزک پر تیزی سے تھرک سکے۔
1923ء میں فرانسیسی فیشن ڈیزائنر کوکو شینل (Coco Chanel) نے ایک لباس ڈیزائن کیا جس میں سکرٹ کے گھیرے کو مزید اونچا کردیا گیا، جس پر اوپر کے لباس (Top) کو آستینوں سے بے نیاز کر دیا، زیر جامے اتنے ڈھیلے بنادیے کہ جسمانی اعضا تھرکتے نظر آئیں، کبھی کمر کو لباس میں کس کر نمایاں کیا جاتا تھا، مگر انتہائی ہوشیاری سے اسے اوپر کے لباس کو مختصر کرکے ایسا نمایاں کیا گیا کہ رقص کرتے تیزی سے گھومتے ہوئے برہنگی کی جھلک نظر آئے اور دیکھنے والوں میں ہیجان پیدا ہوسکے۔
اس نئے لباس نے عورت کو شمع محفل اور مرکز نگاہ بنا دیا۔ یہ صرف ایک لباس نہیں تھا، اس میں مکمل طرززندگی "lifestyle" چھپا ہوا تھا۔ عورت نے صرف صدیوں کا شرم و حیا کا جسمانی لبادہ ہی اتار کر نہیں پھینکا، بلکہ اس کیساتھ ان تمام اقدار و روایات کو بھی دفن کر دیا جو اس لباس کے زمانے میں اس کیلئے باعث عزت تھیں۔ اب وہ تیز بولنے، تیز چلنے، تیز تھرکنے لگی۔
وہ سر عام سگریٹ بھی پی سکتی تھی، بار میں میز پر بیٹھ کر مردوں کے برابر شراب کی چسکیاں لگا سکتی تھی، گاڑیوں میں بلکہ شاہراہوں پر سرعام بوس و کنار کرتے ہوئے اسے برا نہیں لگتا تھا اور اس دور کی فلموں، افسانوں اور ڈراموں کی کہانیوں کا اثر ایسا ہوا کہ اسے اب مختلف مردوں سے تعلقات رکھنا باعث شرم بھی نہیں لگتا تھا۔ لیکن 1920ء کی دہائی میں جب اس عورت کو شمع محفل بنایا جارہا تھا تو اس وقت عورتوں کی تنخواہیں مردوں کے مقابلے میں آدھی تھیں۔
کسی نے ان کی تنخواہیں بڑھانے پر کبھی توجہ نہ دی مگر اس کو گھر سے دور کرنے کیلئے گھریلو ذمہ داریوں کو آسان بنانے کی والی ایجادات پر کام ہوا۔ واشنگ مشین، ویکیوم کلینر، ریفریجریٹر، کوکنگ رینج، ڈش واشر ایجاد ہوئے تاکہ عورت کی گھریلو مصروفیت کم ہوں اور وہ باہر کی دنیا کیلئے زیادہ وقت نکال سکے۔ (باقی آئندہ)