دیارِ مغرب میں رہنے والے (1)
مسلمانوں کی اس سیکولر، جمہوری اور لبرل ملک میں اوقات ہی کیا ہے۔ تم ساٹھ لاکھ مسلمانوں کا وہ جمِ غفیر ہو، جسے سید الانبیاﷺ نے "پانی پر بہتے ہوئے خس و خاشاک" سے تعبیر کیاہے۔ تمہیں بہت زعم تھا کہ تم فرانس میں نو فیصد ہواور تمہارے ووٹ کی جمہوری نظام میں اہمیت ہے۔ یہ والٹیئر، وکٹر ہیوگو اور سارترجیسے فلسفیوں اور سیاسی دانشوروں کی دی گئی سیکولر اخلاقیات کا فرانس ہے۔ ان کے انقلاب کوانقلابات کی "ماں " کہا جاتا ہے۔ اسی کی کوکھ سے جمہوریت، سیکولرازم اور لبرل ازم نے جنم لیا۔ مذہب کو" خونی عفریت" بنا کر نو دسمبر 1905ء کو ریاست کے کاروبار سے علیحدہ کر دیا گیا اور فرانس پرنسل، زبان، رنگ اور علاقے کا پرچم لہرا دیا گیا۔
مذہب کاروبارِ سلطنت سے رخصت ہو چکا تھا، اب سیکولر لبرل دعوؤں کے مطابق دنیا امن کا گہوارہ بن جانی چاہیے تھے۔ کاش کوئی آج بھی فرانس میں رہنے والوں سے سوال کرے کہ 1905ء کے بعد تم پر نسل، زبان، رنگ اور علاقے کے نام پر دو عالمی جنگیں کیسے مسلط ہو گئیں۔ تمہارے شہر اجڑے، مرد، عورتیں اور بچے قتل ہوئے۔ اتنے قتل کہ پوری انسانی تاریخ میں کل ملا کر بھی اتنے لوگ نہیں قتل کیے گئے ہوں گے۔ اس قتل و غارت کے باوجود بھی کسی نے فرانس کے طرزِ زندگی (Life Style) یعنی سیکولر، جمہوری اور لبرل اقدار پر انگلی تک نہیں اٹھانے دی۔ جس نے اٹھائی اسے جمہوری اکثریت کی آمریت نے کچل کر رکھ دیا۔ جمہوریت کی اکثریت کی نافذ کردہ آمریت کے مقابلے میں فرانس کے نو فیصد یا ساٹھ لاکھ مسلمانوں کی حیثیت ہی کیاہے۔
سب کے سب دہشت گرد، شدت پسند اور جرائم پیشہ ہیں۔ کتنی بڑی قیمت چکا رہے ہیں وہ مسلمان جو صرف فرانس میں نہیں بلکہ پورے یورپ اور امریکہ میں رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ آج پیرس کی سڑکوں پرگزرتے ہوئے اس مسلمان کو ضرور ہوتا ہو گا جو صبح فجر کی نماز میں سید الانبیاء ﷺ کی ذات پر درود پاک پڑھ کر نکلتا ہوگا اور اسے ہر دوسرے چوراہے پر بڑی بڑی عمارتوں پراسی نبی محترم ؐ کے خاکے نظر آتے ہوں گے اور وہ سر جھکا کرگزرجاتا ہو گا۔
یورپی یونین کے 29 ممالک آپس میں ایسے منسلک ہیں جیسے کراچی سے لیکر پشاور تک موٹروے سے سارا ملک منسلک ہوتا ہے۔ آپ ناروے یا سویڈن سے بھی جرمنی یا فرانس آنا چاہیں تو پوری کی پوری ٹرین ایک بڑے سے بحری جہاز میں منتقل کر دی جاتی ہے اور یہ بحری جہاز ٹرین کو اگلے ساحل پر اتار دیتا ہے۔ ان تمام ممالک میں گھومنے پھرنے کے لئے آپ کو کسی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں، گاڑی نہیں بدلنی پڑتی، کرنسی نہیں تبدیل کروانی پڑتی۔ ان تمام ممالک میں تقریباً دو کروڑ ستر لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ اسی یورپی یونین کے29 ممالک سے دس لاکھ افراد گیارہ جنوری 2015ء کو چارلی ہیبڈو کے ا ن خاکے بنانے والوں کے ساتھ اپنی عصبیت (Solidarity) کا اظہار کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے، ان کا ساتھ دینے کے لئے یورپ، امریکہ اور ایشیاسے چالیس سربراہانِ مملکت، دنیا بھر کے اداکار، ادیب، شاعر اور گلو کار سب پیرس آئے تھے۔
مسلمان حکومتوں میں سے ترکی کا وزیراعظم احمد دغلو، اردن کا شاہ عبداللہ، فلسطین کا محمود عباس، متحدہ عرب امارات کا عبد اللہ بن زید، مالی کا ابراہیم بجار، تیونس کا مہدی جمعہ اور لبنان کے جبران باسل جیسے نمائندے بھی شامل تھے۔ کیا المیہ ہے کہ آج پیرس کی دیواروں پر توہین آمیز خاکوں کے خلاف اپنے غم و غصے کے اظہار کے لئے یورپی ممالک میں آباد پونے تین کروڑ مسلمانوں میں سے چند ہزار بھی وہاں جمع نہیں ہوسکے۔ یہ مسلمان دس لاکھ تو کیا، ایک لاکھ بھی جمع ہو جاتے تو آج نقشہ عجیب ہوتا۔ ان یورپی مسلمانوں کو تو کوئی ویزہ نہیں لینا تھا۔ یہ اگر اکٹھے ہوتے تو شاید دنیا بھر سے مسلمان کھلاڑی، ادیب، شاعر، حکمران سیاستدان بھی ان کی حمایت میں وہاں جانے کے لیئے تیار تو ہو جاتے۔ بیشک انہیں اجازت نہ ملتی، لیکن دنیا بھر میں ایک طوفان ضرور کھڑا ہو جاتا۔ فرانس انہیں آنے سے روکتا تب رسوا ہوتا، آنے دیتا تو اور تماشہ لگتا۔ یورپ میں آباد مسلمان بقول افتخار عارف "سگِ زمانہ" ہیں جو نہ تو اپنے ملکوں میں ستائے گئے تھے اور نہ ہی ان پرکبھی عرصۂ حیات تنگ ہوا تھا۔ کوئی اکاّ دکاّ جان کا خطرہ پاکر سیاسی حالات کی وجہ سے یہاں ضرور آیا ہوگا۔ لیکن باقی تو سب فقط تلاش ِرزق میں یہاں آئے۔ وہ بھی فاقہ زدگی سے تنگ آکر نہیں بلکہ رزق کی موجودگی میں مزید بہتر حالات کی تلاش میں یہاں پہنچے۔
مسلمانوں کے کسی ملک، شہر یا گاؤں میں فاقہ زدگی کا عالم نہیں تھا۔ اپنے کھیت کھلیان اور کاروبار و مزدوریاں چھوڑ کریہ لوگ یورپ پہنچے۔ اس معاشی ہجرت کی جو قیمت ان لوگوں نے ادا کی ہے اس کی کہانیاں سنانے لگوں تو کئی دنوں تک شامِ غریباں کا سماں طاری رہے۔ ان میں سے ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو یہ سب سے بڑی رعایت ہے، جو اسے میسر آچکی ہے۔ لیکن اس رعایت کے بدلے جو نسلیں پروان چڑھیں ہیں، انہوں نے آج سے پچاس سال پہلے ہی والدین کو پاگل کر دیا تھا۔ برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں 1969ء میں ایک نفسیاتی مریضوں کا ہسپتال کھولا گیا جس کا نام تھا "Trans cultural unit of psychiatry"۔ اس ہسپتال میں مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کو رکھا جاتا ہے جو دولت کمانے یہاں آئے اور جب انکی اولاد جوان ہو گئی اور وہ مغرب کی اخلاقیات میں رچ بس گئی تو انہیں دیکھ کر ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ گھرانوں کے گھرانے اور نسلوں کی نسلیں ایسی برباد ہوئیں کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے منہ چھپانے لگا۔ دنیا کے کسی بھی تحقیقی ادارے، خصوصاً "PEW" کی ریسرچ رپورٹیں اٹھا لیں انہیں پڑھ کر آپ کے پاؤں تلے زمین نکل جائیگی۔
ہجرت کرنیوالے مسلمان برباد ہوئے تو ایسے کہ یورپ میں پیدا ہونے والی جسم فروش عورتوں میں ان کی اکثریت ہو گئی اوران میں جو کامیاب ہوئے تو ایسے کہ انہیں اپنا دین، مذہب سب چھوڑنا پڑا۔ مسلمان جن ممالک میں جمہوری طور پر ممبران پارلیمنٹ تھے، اور اگر وہاں ہم جنس پرستی کی شادی کا بل پیش ہوا توانہوں نے پارٹی کی پالیسی کے تحت اس کیلئے ووٹ دیا۔ اسی پیرس میں جنوری 2014ء کو جب پریڈ کے دوران ہم جنسی شادی کے حق میں پٹیشن پر دستخط ہو رہے تھے تو سات ہزار مسلمان ایکٹیوسٹ نے بھی دستخط کیے تھے۔ ایسے مسلمانوں کی موجودگی میں کارٹون بنائے جائیں، توہین رسالت کی جائے، سب روا ہے کیونکہ وہ خود کومسلمان نہیں بلکہ " فرانسیسی طرزِ زندگی" (French Life Style) کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یہ خاکے دراصل نفرت کی ایک علامت ہے۔ آسیہ مسیح کی تصویر کابہت بڑا بینر پیرس شہر کی میونسپل کمیٹی کی عمارت پر کئی سال تک لہراتارہا اور پیرس کے مسلمان اس کے سامنے معمول کے مطابق گزرتے رہے۔ کسی نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں کیا گیا۔۔ آسیہ مسیح کس بات کی علامت تھی۔۔ توہینِ رسالتؐ کی علامت تھی۔
یورپ کے مسلمان شہریوں کو بتانا مقصود تھا کہ اگر کسی پر تمہارے نبیؐ کی توہین کا "صرف الزام "ہی آجائے وہ ہمارے لئے اتنا باعزت بن جاتا ہے کہ اس کابینر ہم کئی سال تک پیرس کی میونسپل کمیٹی کی بڑی عمارت کے باہر لگائے رکھتے ہیں۔ ورنہ آسیہ مسیح کا پیرس کے لائف سٹائل سے کیا تعلق۔ یہی رویہ ہے کہ جس استادکی وجہ سے یہ ہنگامہ کھڑا ہوا، جس نے کلاس میں رسول اکرمؐ کے کارٹون اظہارِ رائے کے نام پر دکھائے تھے اور اسے ایک چیچن مسلمان نے قتل کیا، اسے فوراً فرانس کے سب سے بڑے اعزاز" Legion of honour"سے نوازا گیا۔ (جاری ہے)