Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Dehshat Gardi Se Jung Ke Naam Per

Dehshat Gardi Se Jung Ke Naam Per

دہشت گردی سے جنگ کے نام پر

گزشتہ اٹھارہ برسوں سے پوری دنیا کو دہشت گردی کے نام پر خوفزدہ کرکے اسکی معیشت پر غلبے اور اسکی سیاست پر قبضے کا دھندا چل رہا ہے۔ نائن الیون کے فورا بعد جہاں امریکہ اور اسکے حواریوں نے نہتے اور کمزور افغانستان پر حملہ کیا، وہیں دنیا بھر کے بینکاری نظام اور کرنسیوں کے نیٹ ورک پر نگرانی سخت کردی، کیونکہ انہیں خوف محسوس ہونے لگا کہ انکے ذریعے دہشت گردوں کو اسلحہ خریدنے کے لیے سرمایہ آسانی سے میسر آجاتا ہے۔ معاشی اداروں پر کنٹرول کا آغاز تو اس دن سے شروع ہوگیا تھا جب افغانستان سے آخری روسی فوجی روانہ ہوا تھا۔

روس کی شکست کے بعد، افغان مجاہدین کے ہاتھ میں اسلحہ خطرناک ہوسکتا تھا کیونکہ وہ پلٹ کر شریعت کے نفاذ کا وہی نعرہ جو سوویت یونین کے خلاف لگایا گیا تھا، امریکہ اور اسکے حواریوں کے خلاف بھی لگا سکتے تھے۔ اس لیے انہیں مالی طور پر کمزور اور اسلحہ خریدنے کے حوالے سے بے بس کرنا بہت ضروری تھا۔ یوں افغانستان سے روس کے نکلنے کے ٹھیک ایک سال بعد 1989ء میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) بنائی گئی جسکو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ بڑھتی ہوئی منی لانڈرنگ پر قابو پائے گی۔

تقریبا بارہ سال بعد ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوگیا، دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک نعرہ بن گیا، اور نعرے کی گونج میں اس ٹاسک فورس کو ایک بہت بڑا اختیار مل گیا کہ اب اس نے دہشت گردوں کی مالی معاونت (Terror Financing) کو روکنا ہے۔ اس ٹاسک فورس کی چالیس سفارشات ہیں جنہیں دنیا کی تمام عالمی قوتیں بزورِ طاقت، کمزور ملکوں پر نافذ کرتی ہیں۔ ان تمام سفارشات کا تعلق صرف سرمائے کی نقل و حمل سے ہے، تاکہ سرمایہ دہشت گردوں کے ہاتھ میں نہ آجائے جس سے وہ اسلحہ خرید لیں۔ لیکن اسلحے کی نقل و حمل کے کاروبار پر کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ جس دن سے یہ ٹاسک فورس بنی ہے غیر قانونی اسلحے کی تجارت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

یہ کاروبار دوسری جنگ عظیم کے بعد اس لیے چمکاکیونکہ امریکہ اور یورپ کے اسلحہ ساز، دنیا بھر میں چھوٹے چھوٹے میدان جنگ چاہتے تھے تاکہ اسلحہ کی کھپت جاری رہے۔ اسی لئے دنیا بھر میں بہت سے " وار تھیٹر" تخلیق کیے گئے۔ جنوبی امریکہ، افریقہ، مشرق وسطیٰ، مشرق بعید، جنوبی ایشیا، غرض ہر جگہ پہلے کیمونزم کے خلاف قوم پرستانہ جنگوں کا نعرہ بلند ہوا اور اسکے بعد اسلام کو ایک ہتھیار بنایا گیا۔

پوری دنیا میں اسلحے کی سمگلنگ کے روٹ بنائے گئے، جن کو حکومتوں، لوکل وار لارڈز اور سیاسی اور قبائلی رہنماؤں سے تحفظ فراہم کیا گیا۔ جہاں ڈالر میسر تھے وہاں سے ڈالروں میں قیمت حاصل کی گئی، جہاں مرضی کی کرنسی نہیں تھی وہاں ہیرے تو کہیں سونا، غرض جو بھی متبادل میں ملا اسے لے لیا گیا۔ جہاں قیمتی دھاتیں میسر تھیں وہاں ان سے تبادلہ ہوا اور جہاں کوکین، ہیروئن، افیون اور دیگر منشیات موجود تھیں وہاں اسلحے اور منشیات کے کاروبار کا چولی دامن کا ساتھ بن گیا۔ شروع شروع میں بریف کیسوں اور بڑے بڑے بکسوں میں ڈالر ادھر سے ادھر منتقل ہوتے رہے، اسکے بعد ذرا پابندی لگی تو کریڈٹ کارڈ سے سرمایہ ادھر ادھر ہونے لگا، اور اب انٹرنیٹ پر ڈارک ویب کے ذریعے ڈیجیٹل کرنسی تخلیق کی گئی اور اسلحے کا کاروبار چمکایا گیا۔

اسوقت اس ڈارک ویب پر 12 ایسی مارکیٹیں کام کرتی ہیں جنہیں crypto marketsکہا جاتا ہے جہاں حکومتوں کی کرنسیاں نہیں چلتیں بلکہ ان سمگلرز کے اپنے سکے چلتے ہیں جو دراصل انٹرنیٹ پر ہی تخلیق ہوتے ہیں، وہیں انکی قیمتیں بڑھتی گھٹتی ہیں اور وہیں یہ سب کاروبار ہوتا ہے۔ رینڈ کارپوریشن 19 جولائی 2017ء کو اپنی ایک تحقیق منظر عام پر لائی جسے مانچسٹر یونیورسٹی کی پروفیسر جوڈتھ آلڈریج (Judith Aldrige) نے تحریر کیاتھا۔ اسکے مطابق اب ڈارک ویب دنیا بھر میں غیر قانونی اسلحہ بیچنے کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور اس پر بکنے والا ساٹھ فیصد اسلحہ امریکی ہے۔

ڈارک ویب کے علاوہ بھی یورپ کے تمام ممالک میں غیر قانونی اسلحے کے تاجر موجود ہیں جو دنیا بھر میں ہونیوالی سول وار، قبائلی جنگوں، علاقائی قتل و غارت کے لیے اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ مشرقی یورپ کے ممالک میں ان ہتھیاروں کے بڑے بڑے سٹور بنائے گئے ہیں۔ بلجیم اور یوکرین سے پائلٹ جہازوں میں اسلحہ لے جا کر افریقہ سے افغانستان تک ہر جگہ اپنے گاہکوں کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔

2002ء کا وہ مشہور واقعہ جس میں یوگوسلاویہ کی فوج سے پانچ ہزار کلاشنکوف خریدی گئیں اور انہیں نائجیریا کے لیے ایک قانونی تجارتی مال کے طور پر روانہ کیا گیا۔ جہاز کچھ دیر کے لئے پٹرول لینے کے لیے لیبیا کے ایک دور دراز ہوائی اڈے پر اترا اور اسلحہ افریقہ میں لڑنے والے گروہوں تک پہنچ گیا۔ اسوقت دنیا میں اسلحہ کی مارکیٹ سالانہ 60 ارب ڈالر کی ہے جس میں سے 18 ارب ڈالر چھوٹے ہتھیاروں مثلاً پستول، کلاشنکوف وغیرہ پر لگائے جاتے ہیں۔ ان میں ملکوں کے بڑے بڑے سودے شامل ہیں۔

60 ارب ڈالر میں سے 12 ارب ڈالر کا اسلحہ غیر قانونی طور پر بیچا جاتا ہے۔ یہ اسلحہ دنیا کے ہر خطے میں آپس میں لڑنے والے گروہوں تک باحفاظت پہنچایا جاتا ہے۔ یہ واحد کاروبار ہے جس میں قیمت اسوقت وصول کی جاتی ہے جب مال گھر یا مطلوبہ مقام پر پہنچ جائے۔ راستے میں نقصان، پکڑے جانے، یا چھینے جانے کا سارا ذمہ اسلحہ سپلائی کرنے والے پر ہوتا ہے۔ اور اسکی حفاظت کا ذمہ بہت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ اسی لئے ان تمام عالمی راستوں پر جہاں سے یہ غیر قانونی اسلحہ گزرتا ہے، لوٹ مار نہیں ہوتی۔

حکومتیں اور حکومتی اہلکار خریدے جا چکے ہوتے ہیں اور پھر اسلحہ خواہ جہاز سے جائے، ٹرین سے یا پھر ٹرک سے، باحفاظت منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔ اسلحے کے اس سارے غیر قانونی کاروبار پر کوئی پابندی نہیں لگائے گا، اس لیے کہ اس کاروبار پر عالمی طاقتوں کی اجارہ داری ہے اور وہ اس کاروبار کو وسعت دینے کے لیے دنیا کے ہر کونے میں جنگوں کا بازار گرم کرتی رہتی ہیں۔ لیکن اب اسلحہ خریدنے والوں نے کرنسی کی بجائے سونے چاندی وغیرہ میں اسلحہ خریدنا شروع کردیا ہے تو ان طاقتوں کی جعلی کاغذی کرنسیوں کی قدر و قیمت میں کمی آنے لگی ہے۔ اب شرط صرف ایک ہے۔

خریداری ہماری جاری کردہ کرنسی میں ہوگی۔ تمہاری لاشوں پر ہم اپنی معیشت مضبوط کریں گے۔ اسی لئے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے کہا ہے کہ ملک میں سونے کی خرید و فروخت کو بذریعہ کیش روکا جائے اور انہیں بینک کے ذریعے، ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کا پابند کیا جائے، ایسا صرف اس لئے کہ جو بھی سونا خریدے گا وہ ان طاقتوں کی نظروں میں آئے گا اور پھر جب وہ ڈالر کی بجائے سونے سے اسلحہ خریدنے کی کوشش کریگا تو ایسا کرنا عالمی امن کے لیے خطرہ بن جائے گا، وہ شخص بہت بڑا دہشتگرد کہلائے گا۔ اسلحے کی منڈیاں ایسے ہی سجی رہیں گی، لیکن خبردار اگر انہیں ہماری مرضی کی کرنسی یا مرضی کی دکان کے علاوہ کسی اور سے خریدا۔

دیکھو!دہشت گردی کی جنگ جاری ہے تمہیں نیست و نابود کر دیں گے۔ لیکن ان تمام پابندیوں کے باوجود سید الانبیاء ﷺکی یہ پیشگوئی پوری ہونے کے دن آگئے ہیں۔ حضرت ابوبکر ابن مریمؓ نے فرمایا کہ انہوں نے حضور نبی اقدس ﷺسے یہ کہتے سنا ہے کہ ایک وقت بنی آدم پر آئیگا جب کوئی چیز سوائے درہم و دینار کے کام نہ آئیگی (مسند احمد)۔

سونے اور چاندی کے وہ سکے جن میں کاروبار کا حکم میرے آقا نے دیا تھا وہ ایک دن اس جعلی کرنسی کو شکست دے دینگے۔ اس دن یہ دہشت گردی کے خلاف نہ عالمی اتحاد کام آئے گا اور نہ ہی فنانشل ٹاسک فورس۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad