دور فتن میں یورپ کے مسلمانوں کا مستقبل
جزیرہ نما آئبیریا (Iberia) تین جانب سے سمندر میں گھرا ہونے کی وجہ سے باقی ماندہ یورپ سے نسبتاً علیحدہ ہے۔ اس کا جو حصہ یورپ کے ساتھ خشکی سے منسلک ہے، اسے بھی پہاڑی سلسلے پرنیز(Pyrenees)کی دیوارنے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ صدیاں پہلے تو یہاں سے آمد و رفت بہت ہی کم تھی۔ اس جزیرہ نما آئبیریا پر اس وقت دو یورپی ملک سپین اور پرتگال واقع ہیں۔ دونوں ایک زمانے میں اپنی افواج کے ساتھ دنیا فتح کرنے نکلے تھے اور مدتوں ان کے زیر نگین بے شمار ممالک کالونیوں کی صورت رہے ہیں، لیکن آج یہ دونوں سمٹ کر واپس اس جزیرہ نما میں آچکے ہیں۔ تقریبا بارہ سو سال قبل 19 جولائی 711ء کے تاریخی دن طارق بن زیاد کی صرف سات ہزار فوج نے سپین کے بادشاہ راڈرک کی ایک لاکھ فوج کو شکست دے کر اس سرزمین پر اسلام کا پرچم گاڑ دیا تھا۔ مسلمانوں کی یہ حکومت تقریبا آٹھ سو سال تک وہاں قائم رہی۔
اندلس جسے یورپ کی جدید ترقی اور احیائے علوم کا دروازہ کہا جاتا ہے، اپنے سائنسی علوم اور تہذیب و ثقافت کی وجہ سے ان آٹھ صدیوں میں دنیا بھر کا مرکز نگاہ رہا اور پھر دو جنوری 1492 کو فرڈننیڈ اور ازابیلا کی مشترکہ افواج نے اس پر قبضہ کرلیا، جس کے بعدوہاں ایک ایسا زوال آیا کہ مدتوں اسلام اور مسلمانوں کا کوئی نام لیوا بھی اس سرزمین پر موجود نہ رہا۔ یہ دونوں ملک یورپ کی تہذیب، ثقافت اور سیاسی وحدت یعنی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ پانچ سو سال قبل جس نفرت اور تعصب کا اظہار قرطبہ غرناطہ کے شہروں پر لشکر کشی کے وقت ہوا تھا، اب اس کا دائرہ اثر قطب شمالی کے ممالک آئس لینڈ اور ناروے سے مشرقی یورپ کی سرزمین تک پھیل چکا ہے۔ اس وقت یورپی یونین کے 28 ممالک میں تقریبا ڈھائی کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ پینتالیس کروڑ آبادی والے یورپ میں ان ڈھائی کروڑ مسلمانوں کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ لیکن یہ ڈھائی کروڑ نفرت کی اس تاریخ کا شکار ہیں جو صدیوں سے یورپ کے باشندوں کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری گئی تھی حالانکہ یورپ کا مسلمان کمزور و ناتواں اور اس کی حیثیت ایک پناہ گزین اقلیت سے زیادہ نہیں ہے۔ مسلمان چھ مختلف وجوہات کی بنیاد پر یورپ کی آبادیوں کا حصہ ہیں۔
پہلے نمبر پر وہ مسلمان ہیں جو بوسنیا، البانیا اور کوسود کے ممالک میں صدیوں سے ان آبادیوں کا نسلا حصہ ہیں یا پھر رومانیہ بلغاریہ کی قدیم اقلیت تصور کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ پولینڈ اور کریمیا، جہاں قدیم تاتاری مسلمان مدتوں سے آباد ہیں، دوسرے، وہ طالب علم یا بزنس مین جو یورپ میں آکر رہتے ہیں، مثلا فرانس میں اس وقت ستر ہزار طلبہ شمالی افریقہ کے ممالک سے وہاں آئے ہوئے ہیں اور لندن شہر تو عرب اور مسلمان تاجروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، تیسرے وہ مسلمان جو دولت مشترکہ یا دیگر کالونیوں کی وجہ سے بلا روک ٹوک فرانس، برطانیہ اور ہالینڈ میں آکر آباد ہوگئے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے، چوتھے وہ مسلمان جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں مزدوروں کی حیثیت سے جوق در جوق مغربی یورپ کے ممالک میں آئے، پانچویں وہ نسلا یورپی مسلمان جو پیدا ہی یورپ کے مسلمان گھرانوں میں ہوئے اور چھٹے وہ مہاجرین مسلمان ہیں جو اپنے ملکوں سے جنگ اور سول وار کے نتیجے میں یہاں پناہ کی تلاش میں آئے اور اب یہاں کا حصہ بن گئے۔ ان ڈھائی کروڑ مسلمانوں کے ساتھ اگر ان تین کروڑ مسلمانوں کو بھی ملا لیا جائے جو روس میں رہتے ہیں تو یہ ایک اچھی خاصی تعداد بن جاتی ہے۔ لیکن روس کے مسلمان ویسی نفرت اور تعصب کا سامنا نہیں کر رہے جیسی نفرت مسیحی یورپ نے صلیبی جنگوں کی خونریز روایت سے ورثے میں لی ہے۔ اسی لیے روسی مسلمان اس اسلام فوبیا کا بھی شکار نہیں ہیں۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روس 75 سال ایک کیمونسٹ ملک رہا اور، مسلمان باقی لوگوں کی طرح زبردستی اس معاشرت میں ختم کردیئے گئے۔ یوں تو یورپ میں صلیبی جنگیں ختم ہوئے کئی صدیاں بیت چکی ہیں، لیکن مسلمانوں سے نفرت کا جو بیچ چرچ نے یورپی آبادی کے دلوں میں ایک منظم طریقے سے بویا تھا وہ نسل در نسل پھلتا پھولتا چلا آرہا ہے۔ یورپ نے انقلاب فرانس کے بعد چرچ کی بالادستی کا کلاوہ اتار پھینکا تھا، مذہب کو ریاست کے کاروبار سے علیحدہ کر دیا تھا، پادری صرف پیدائش پر بتسمہ دینے، شادی کی تقریب میں رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے اور مرنے پر دعائیہ کلمات کہنے تک محدود ہو گیا تھا، چرچ بھی رخصت ہوگیا، پادری محدود ہوگیا، یورپ سیکولر اور لبرل ہوگیا، لیکن یورپ کے رہنے والوں کے دلوں سے آج تک مسلمان دشمنی نہ نکل سکی۔ گذشتہ ستر سالوں سے یورپی ممالک میں مسلمان دشمنی اور نفرت کی بنیاد پر باقاعدہ سیاسی پارٹیاں تشکیل دی جاتی رہی ہیں اور آج یہ سیاسی پارٹیاں گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے کے بعد مقبولیت کے گراف پر دن بدن آگے بڑھ رہی ہیں۔ سب سے پہلے 1956 میں آسٹریا میں آسٹریین فریڈم پارٹی قائم ہوئی جس کا ایجنڈا مسلمانوں کے خلاف تھا، پھر 1971 میں سوئٹزرلینڈ میں سوئٹزرلینڈ پبلک پارٹی نے یہی روش اختیار کی، 1972 میں فرانس میں فرنٹ نیشنل قائم ہوئی، 1973 میں ناروے میں پراگریس پارٹی اور 1982ء میں لندن میں مشہور عام بی این پی یعنی برٹش نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔
سویڈن میں 1988میں سویڈن ڈیموکریٹس، اٹلی میں 1991 میں ناردرن لیگ، 1995 میں ڈنمارک میں ڈنسک فولکے پارٹی اور فن لینڈ ٹروفنس قائم ہوئیں، جب کہ 2003 میں ہنگری میں جوبک، 2006 میں ہالینڈ میں فریڈم پارٹی، 2005میں بلغاریہ کی آتاکا، 2004 میں بیلجیم کی فلیمن انرسٹس پارٹی اور یونان میں 1993 میں گولڈن پارٹی جیسی سیاسی تنظیموں نے جنم لیا۔ ان تمام کے اغراض و مقاصد ایک جیسے ہیں اور سب کی پہچان یہ ہے کہ ان میں مسلمان دشمنی کی قدر مشترک ہے۔ اس کے علاوہ ہر ملک میں لاتعداد ایسے چھوٹے بڑے گروہ اور تھنک ٹینک موجود ہیں جو مسلسل نفرت کا پرچار کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ گذشتہ پچاس سالوں سے مسلمانوں نے پوری کوشش کی کہ وہ یورپ کے شہروں میں ان کیساتھ گھل مل کر رہائش پذیر ہوں، مثلا لندن میں آباد تین لاکھ عرب ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں گوروں کی اکثریت ہے، اسی طرح لبنان سے آئے ہوئے مسلمان بھی پیرس میں عام فرانسیسیوں کے ساتھ ان کے اکثریتی علاقوں میں رہتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی وہ اکثریت جو مزدور ہے اور مہاجرین کی صورت پناہ گزین ہے، وہ معاشی حالات کی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتی، ان کے علاقے مخصوص ہونے لگتے ہیں اور پھر جہاں ان کی اکثریت آباد ہوجاتی ہے، مقامی لوگ وہاں سے کسی دوسرے علاقوں میں کوچ کرنے لگتے ہیں۔ جیسے لندن میں لفورڈ اور بارکنگ کا علاقہ ہے، جہاں اب گورا نظر ہی نہیں آتا۔
یورپ میں بسنے والے یہ ڈھائی کروڑ مسلمان اب بیرونی درانداز یا گھس بیٹھیئے نہیں تصور ہوتے، بلکہ چونکہ وہ ان کے شہری ہیں اس لیئے یورپ کے تمام ممالک انہیں اندرونی خطرہ (Internal Threat) تصور کرتے ہیں اور گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد سے مقامی آبادی کے مسلمان ہونے کی تعداد میں حیرت انگیز اضافے نے اس خطرے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ سلمان رشدی کے ناول پر یورپ کے مسلمانوں کا شدید احتجاج پورے یورپ میں ایک خطرے کی پہلی گھنٹی کے طور پر لیا گیا۔ یورپ والے اپنے ہم وطن مسلمانوں سے ایسے رویئے کی توقع نہیں کررہے تھے، اس کے بعد سے لے کر فرانس کے چھوٹے شہروں میں دنگے و فساد، کارٹون کی اشاعت کے باربار واقعات اور ان پر اشتعال، ہالینڈ کے فلمسازکا قتل اور فرانس میں چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملوں نے یورپ میں یہ سوچ پیدا کی ہے کہ مسلمان ان کیلئے ایک بہت بڑا اندرونی خطرہ ہیں جو ان کی تہذیب اور لائف سٹائل پر حملہ آور ہے۔ (جاری ہے)