Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Bangladesh Ke Maddaheen Ke Liye (2)

Bangladesh Ke Maddaheen Ke Liye (2)

بنگلہ دیش کے مداحین کے لیئے (2)

ایک عام آدمی کے ذہن میں بھی یہ سوال ابھرتا ہے کہ اگر ان "نومولودمعاشی تجزیہ نگاروں "کے نزدیک بنگلہ دیش، معاشی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہا ہے تو پھردو کروڑ بنگلہ دیشی، غربت و افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر غیر قانونی طور پر بھارت میں معمولی نوکریا ں کرنے پر کیوں مجبور ہیں۔ کسی بھی ملک میں غیر قانونی طور پر رہنا کسقدر عذاب ہوتا ہے اور وہ بھی بھارت جیسے غربت کے مارے ملک میں، جہاں لا تعداد افراد کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہوں اور مسلمانوں کے خلاف گلی گلی نفرت بٹ رہی ہو۔ اگر یہ ترکِ وطن کسی ایسے ملک کی جانب ہوتا، جہاں کے قوانیں پناہ حاصل کرنے والوں کے لیئے نرم ہوتے، کچھ عرصہ نوکری کرنے کے بعد شہریت کی امید بندھ جاتی، لوگ نفرت بھی کم کرتے، تب تو بات سمجھ میں آنے والی تھی کہ بنگلہ دیش سے لوگ بہتر معیار زندگی والے کسی ملک کے لیئے اپنا وطن چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن یہاں تو عالم یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے ننانوے(99)فیصد عوام کے پاس گھروں کے اندر ٹائلٹ موجود ہیں، جبکہ بھارت میں تو 46.9فیصد گھرانے یعنی آدھی آبادی جو تقریباً 55کروڑ بنتی ہے، وہ سر عام رفع حاجت کرتی ہے۔ مزید خوفناک بات یہ کہ بنگلہ دیش کے پڑوس والی بھارتی ریاستیں، جہاں یہ بنگلہ دیشی بیچارے، غربت کے مارے، رزق کی تلاش میں سب سے پہلے پہنچتے ہیں، ان میں بنگال، اڑیسہ، آسام اور بہار کی حالت تو یہ ہے کہ وہاں ستر فیصد سے زیادہ عوام کو ٹائلٹ میسر نہیں ہے۔ اندازہ لگائیں کہ اس "اعلیٰ معیارِ زندگی" والے بھارت میں جو بنگلہ دیشی تلاشِ رزق کیلئے پہنچتے ہوں گے، وہ کس قدر مجبور اور غربت و افلاس کے مارے ہوئے ہوتے ہوں گے۔ بھارت میں بھی اگر ان کی زندگی آسان ہو جاتی تو کوئی بات تھی۔ لیکن بھارت نے جو "رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ ایکٹ" منظور کیا ہے، اس کی تو شروعات ہی 1985ء میں آسام کے فسادات سے ہوئی تھیں۔ ان فسادات میں لوگ انہی بنگلہ دیشی تارکینِ وطن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ جس بنگلہ دیش کو پاکستان کے مقابلے میں "کامیاب معیشت" کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اس بنگلہ دیش سے دو کروڑ لوگ ایسی جگہ رزق کمانے پہنچے ہوئے ہیں، جہاں نہ جان محفوظ ہے اور نہ عزت و آبرو، بلکہ خوف اور ذلت کی چھاؤں میں ہر سہولت سے عاری علاقوں میں انہیں بسیرا کرنا پڑتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے"نعرہ مستانہ" کے " پاکستانی وکیل" اور1971ء میں مشرقی پاکستان کے معاشی استحصال کے نعرے بلند کرنے والوں کے پیرو کاراس بات کا جواب دیں گے کہ 1971ء سے پہلے "مشرقی پاکستانی" کبھی اس دربدری کے عذاب سے کیوں نہیں گذرتے تھے۔

اس سے پہلے کہ اس دربدری کی وجوہات کا ذکر ہو، ایک اور "تلخ حقیقت" بھی ہے جواس "خوشحال" بنگلہ دیش کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکاہے اور جسے آج تک دھویا نہیں جا سکا۔ یہ ذلت و رسوائی اور بدترین غلامی کاعذاب، بنگلہ دیش کی عورتوں بلکہ کم سن اور کم عمر لڑکیوں پر ٹھیک 1971ء کی "عظیم انقلابی آزادی" کے فوراً بعد اترنا شروع ہوا۔ سولہ دسمبر 1971ء کی جس شام بھارتی افواج بنگلہ دیشی شہروں میں اتریں، وہ رات خواتین اور کم سن لڑکیوں پر عذاب کے آغاز کی رات تھی۔"مکتی باہنی" کے تربیت یافتہ غنڈے جہاں ان مردوں کو میدانوں میں لا کر ذبح کرتے تھے، جنہوں نے پاکستان کا پرچم بلند کیا تھا، اور گھروں میں موجود خواتین کو" جنسی درندگی" کا نشانہ بنانے کے بعد بھارت کے قحبہ خانوں میں بیچ دیتے۔

مکتی باہنی کے مظالم کی گواہی تو وارث میر کے کالموں میں بھی ملتی ہے، جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے چند ماہ پہلے پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کے ایک وفدکے ساتھ وہاں گئے تھے اور رؤداد لکھی تھی۔ وہ 1971ء کے اپنے ایک کالم میں، ایک کمرے میں پڑی میز کا ذکر کرتے ہیں، جہاں پاکستان کے حامیوں کو لٹا کر ان کے جسم میں چیرادیا جاتا اور پھر ان کے خون کو ایک ٹب میں جمع کیا جاتا۔ ایسے ہی یہ مظلوم موت کی آغوش میں چلے جاتے۔ مگر ان کی موت کے بعد بدترین سلوک کے لیئے بیچاری عورتیں رہ جاتیں۔ بنگلہ دیش بننے کے صرف ایک سال بعد کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 1973ء جنوری میں کلکتہ کے بازارِ حسن میں پچھتر(75)فیصدطوائفیں وہ لڑکیاں تھیں، جو نومولود بنگلہ دیش سے لا کر یہاں بیچی گئیں۔

یہ سلسلہ رک جاتا تو چین آجاتا کہ ہر جنگ کے بعد بیچاری عورتوں کو ایسے ہی بیچا جاتا ہے۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد جاپان اور ویت نام وغیرہ سے بچیوں کے جہاز بھر کر یورپ اور امریکہ میں بیچے گئے، ویسے ہی سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس، وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کے ممالک سے سمگل شدہ عورتوں سے یورپ اور امریکہ کے بازار آج بھی سجے ہیں مگر یہ سلسلہ چند سال بعد ختم ہو گیا۔ اگر یہ سلسلہ بنگلہ دیش میں بھی آزادی کے دو سال بعد تک ہی چلتا توبات سمجھ میں آتی، لیکن یہاں تواس "خوشحال بنگلہ دیش" سے آج بھی ہر سال چھ سے آٹھ لاکھ عورتیں، بچے اور مرد، دنیا بھر کے بازاروں میں سمگل کر کے بھجوائے جاتے ہیں۔ گذشتہ سال یعنی 2019ء کی "امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ" کی رپورٹ کے مطابق، بنگلہ دیش اس وقت دنیا میں عورتوں اور بچیوں کی سمگلنگ کا "عالمی مرکز"(Hub )بنا ہوا ہے۔ ان سمگل ہونے والی بچیوں کی کہانیاں خوفناک ہیں۔

انہیں اچھی زندگیوں کے خواب دکھا کرڈھاکہ سے کلکتہ یا ممبئی لے جایا جاتاہے۔ جہاں اکثریت کو گھریلو مزدوری یا جسم بیچنے پر لگا دیا جاتا ہے۔ نسبتاً خوبصورت، دبئی اور گلف ممالک اور دنیا کی دیگر ایسی منڈیوں میں فروخت کر دی جاتی ہیں جہاں مساج پارلروں اور نائٹ کلبوں کی آڑ میں جنسی کاروبار ہوتا ہے۔ صرف بھارت میں آج سے بیس سال پہلے یعنی 2002ء تک "یونیسف"(UNICEF)کی تحقیق کے مطابق تین لاکھ بنگلہ دیشی بچیاں بیچی گئیں اور اسی رپورٹ کے مطابق صرف اکیلے بھارت میں ہر سال پچاس ہزاربنگلہ دیشی لڑکیاں "سمگل" کی جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے بیرون ملک بچیوں کی اس سمگلنگ کو روکنے کئے لیئے "پاکستانی سیکولر دانشوروں " کے "تصورِ انقلاب" کے مطابق، مذہب کو بالائے طاق رکھ کر ملک بھر میں طوائف کے اڈوں کو قانونی قرار دے دیا ہے، تاکہ بیچاری مظلوم عورتیں سمگل ہونے کی بجائے "جدید ترین پاک رزق" اپنے ہی ملک میں بیٹھ کر کما سکیں۔

لیکن 7 جولائی2019ء کے "گارڈین" کی رپورٹ "The living hell of young girls enslaved in Bangladesh's brothels" (بنگلہ دیش کے قحبہ خانوں میں غلام نوجوان لڑکیوں کی جیتی جاگتی جہنم) میں جو انکشافات ہوئے ہیں، وہ اس "معاشی ترقی" کے مینار "بنگلہ دیش" میں غربت کی ماری لڑکیوں کی لرزا دینے والی کہانیاں بتاتے ہیں۔ یہ قحبہ خانے دراصل وہ جگہیں ہیں جہاں سے بچیوں کو باہر سمگل کرنے کے لیئے چھانٹی(Grading) کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، "کچرا" بنگلہ دیش میں اور باقی باہر۔ اس وقت صرف بھارت کے طوائفوں کے اڈوں پر پانچ لاکھ بنگلہ دیشی لڑکیاں ایسی ہیں، جن کی عمریں 12سے 25 سال تک ہیں۔ یہ اعداد و شمار بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورسز کی جنوری2018ء کی رپورٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ ریسرچ کی حقیقت ہے کہ ایسے دھندے میں جو اعداد و شمار سامنے آتے ہیں، ان سے کم از کم تین گنا زیادہ چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ دنیا بھر میں کسقدر بنگلہ دیشی خواتیں بیچی گئی ہیں۔ بنگلہ دیش بننے سے لے کر اب تک مختلف رپورٹس اور سروے کے مطابق ان انچاس(49)سالوں میں اندازاً بیس (20)لاکھ کم سن بنگلہ دیشی بچیاں دنیا کے بازاروں میں بیچی گئیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ کیا 1971ء سے پہلے کے مشرقی پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ کیا مشرقی پاکستان، بچیوں کے لیئے اتنا ہی خوفناک اور ہولناک تھا۔ گواہی دو جو اس دور میں زندہ تھے۔ کوئی تو ان دانشوروں کو غیرت دلائے جو صرف اعدادوشمار سے کھیلتے ہیں۔ معاشی ترقی کے اعداد و شمار کے باوجود بنگلہ دیشی عوام کی یہ حالت کیوں ہے؟ (اس کا جواب آئندہ)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Aik He Baar

By Javed Chaudhry