بدنصیب باپ، بد قسمت اولاد
ماں باپ اور اولاد کا رشتہ ایک ایسا پائیدار اور لازوال روپ رکھتا ہے کہ جو دنیا کے کسی معاشرے، ثقافت، ماحول اور خطے میں اپنی تاثیر اور محبت نہیں بدلتا۔ آپ دو باہم لڑنے والے ملکوں، قبیلوں یا برادریوں کے لڑکے لڑکی کی شادی کروا دیں یا وہ محبت کے زیراثر شادی کرلیں، ان دونوں کی محبت پھیکی پڑ سکتی ہے، یہ دونوں اپنے اپنے ملک، قبیلے یا برادری کے دفاع کے لیے ایک دوسرے سے لڑ سکتے ہیں، لیکن اولاد کے معاملے میں ان کی محبت مشترک رہے گی۔ وہ بیک وقت اس کے لیے تڑپیں گے، اس کی پریشانی میں مضطرب اور اس کی خوشی میں نہال ہو جائیں گے۔ رنجش اور لڑائی کی وجہ سے ان کے درمیان علیحدگی ہی کیوں نہ ہو چکی ہو، اولاد کے لئے ان کی قربانی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
دنیا بھر میں ہر روز بے جوڑ شادیاں ہوتی ہیں، لا تعداد طلاقیں وقوع پذیرہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ان کے درمیان جھگڑا بھی اولاد کی بہتر تربیت اور پرورش کے لیے ہوتا ہے اور صلح بھی اولاد کی بہتر زندگی اور مستقبل کے لیے ہوتی ہے۔ والدین اپنی اس محبت اور قربانی کے بدلے کبھی کسی ستائش کے تمنائی نہیں ہوتے۔ یہ ایک عمومی رویہ ہے کہ اولاد جب بڑی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے والدین کی کبھی بھی اس طرح خبر گیری یا نگہداشت نہیں کر پاتی، جیسے بچپن میں ماں یا باپ اپنی اولاد کی کرتے ہیں۔ ایک ماں جس طرح اپنے ایک دن کے بچے کو سینے سے لگا کر پالتی ہے، راتوں کو اس کی ذرا سی کسمساہٹ پر اٹھ بیٹھتی ہے، اس کی تھوڑی سی بیماری پر جس طرح پوری پوری رات آنکھوں میں کاٹ دیتی ہے اور پورا پورا دن اسے لئے پھرتی ہے، ایسا کچھ ایک بوڑھی ماں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے کوئی اولاد بہت کم کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔
پوری دنیا میں مائیں سب کی سب، بلا امتیازِ رنگ و نسل و مذہب اولاد پر اپنی محبت نچھاور کرتی ہیں۔ لیکن اس محبت کو واپس لوٹانے کی کوشش کرتے ہوئے بہت کم اولادیں نظر آتی ہیں۔ بخار میں پھنکتے، کھانسی میں تڑپتے اور اسہال کے مرض میں کپڑے گندے کرتے ہوئے بچے کے ساتھ ایک بستر پر لیٹ کر تو ہر ماں کو سوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے لیکن ایسا شاید ہی کبھی ہو کہ کوئی بیٹی مسلسل کھانستی اور بلغم تھوکتی ماں کے ساتھ ویسے ہی لپٹ کر مہینوں سوئی ہو جیسے اس کی ماں سوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک سمیت تمام الہامی کتب میں یہ ہدایت تو ملتی ہیں کہ تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ لیکن وہ جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے، جس نے ماں اور باپ کو ایک فطری جذبہ عطا کر کے پیدا کیا ہے، اس مالک کائنات نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ اپنی اولاد کو محبت سے پالو۔ اسے معلوم ہے کہ یہ محبت میں نے اس کی سرشت میں رکھ دی ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اولاد پر نچھاور نہ کرے۔
ماں باپ کی محبت کے لئے انسان ہونا بھی شرط نہیں، چرند و پرند یہاں تک کہ خونخوار جنگلی جانور بھی اولاد کو پیار و محبت ہی سے پالتے ہیں۔ بچوں کو ان کی قابلیت کی معراج تک پہنچانے کی خوشی والدین کی محبت کی علامت ہوتی ہے، انہیں آزاد، خودمختار، کامیاب وکامران دیکھنے کی آرزو ان کی زندگی کا سرمایہ ہوتی ہے، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کامیابی اور خودمختاری جدائی کی خشتِ اول ہے مگر پھر بھی وہ یہ ذمہ داری نبھائے چلے جاتے ہیں چکور خوش ہے کہ بچوں کو آگیا اڑنااداس بھی ہے، کہ رت آگئی بچھڑنے کیالبتہ ایک وصف دنیا بھر کی اولادوں میں بلا تخصیص پایا جاتا ہے وہ اپنے والدین پر فخر ضرور کرتے ہیں، ان کی عزت و حرمت کا دفاع ضرور کرتے ہیں۔
لاہور کے ایک مشہور ریسٹورنٹ کا مالک جو ایک مشہور مصور ہے، ایک طوائف کا بیٹا ہے، اس نے اپنی ماں کی محبت و قربانی اور ایثار کو اپنی پینٹنگز میں بھی نمایاں کیا اور اس حوالے سے اپنے فن کو نمایاں کرنے کے لیے ریسٹورنٹ کی راہداریوں اور کمروں میں اپنی پینٹنگز آویزاں کیں۔ بدترین، سزایافتہ والدین کا بھی ان کی اولادوں نے نیک نامی اور خیر سے نام لیا ہے۔ اولاد خواہ ماں باپ کی دیکھ بھال نہ کرسکے لیکن ان کی عزت و وقار اور ناموس پر کٹ مرنے، ان کے نام پر کھڑے ہوجانے اور اس کا دفاع ضرور کرتی ہے۔ ایسے بہت ہی بدنصیب اور بد قسمت لوگ ہوتے ہیں جو اپنے والدین کی عزت و حمیت پر حملے کی صورت میں جوش میں نہ آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے مشرک والدین کے بھی احترام اور ان سے حسن سلوک کرنے کو کہا ہے۔
برصغیر پاک وہند کا مشرقی معاشرہ تو اپنی اسی روایت پر فخر کرتا رہا ہے۔ ہمیشہ اولاد کے لیے والدین ڈھال بنے ہیں اور اولاد والدین کی عزت وناموس پر قربان ہوئی ہے۔ نواب اسلم رئیسانی سناتے ہیں کہ جب مہرگڑھ سے کوئٹہ آتے ہوئے ان کے والد نواب غوث بخش رئیسانی کے قافلے پر حملہ ہوا تو وہ اپنے باپ کے ساتھ گاڑی میں تھے۔ گولیوں کی بوچھاڑ آئی تو نواب غوث بخش رئیسانی نے اپنے سینے کی اوٹ میں اپنے بیٹے کو چھپا لیا، جس کی وجہ سے بیٹا معمولی زخمی ہوا لیکن باپ نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ لیکن ایسا کیا ہو گیا، کیسے ہو گیا، جس دن سے پاکستان کے تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام لگا ہے، دنیا مسلسل عالم حیرت میں ہے۔ اس سارے مقدمے کے دوران ان کا بحیثیت بیٹے اور بحیثیت باپ جو تصور ابھر کر سامنے آیا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔
مدتوں انتظامیہ میں رہتے ہوئے، میں نے ہزاروں ایسے مقدمات دیکھے بھی اور میرے ہاتھوں سے گزرے بھی ہیں جن میں ایک باپ اور اس کے بیٹوں پر الزام مشترک تھا۔ ایسے میں باپ ہمیشہ یہ کوشش کرتا تھا کہ وہ ساری مصیبت خود جھیل لے اور کسی طرح چالان میں سے اولاد کا نام خارج ہوجائے۔ رشوت خور سرکاری ملازمین جنہوں نے اپنی اولاد کے نام پر جائیدادیں بنائی ہوتی تھیں، پکڑے جاتے تو اولاد پر اپنے جرم کا سایہ بھی نہ پڑنے دیتے۔ فوراً کہہ اٹھتے، یہ میرا جرم ہے، میں مانتا ہوں، مجھ سے پلی بارگین کرلو، کچھ دے دلا کر چھوڑ دو لیکن خدا کے لئے میری اولاد کو اس معاملے میں مت گھسیٹو۔ لیکن جس طرح پاکستان میں کسی وزیراعظم کے کاروبار کے ذرائع پر پہلی دفعہ بحث چلی ہے، اسی طرح پاکستان میں شاید رشتوں کے احترام اور تعلق کی بھی اب ایک نئی داستان رقم ہونے جارہی ہے۔
جب سے میاں محمد نواز شریف نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرانا شروع کیا ہے، یوں لگتا ہے خود پسندی اور مصلحت کوشی نے اپنا شیاطینی روپ واضح کرنا شروع کر دیا ہو۔ کس قدر معصوم چہرے کے ساتھ اس ساری دولت کو اکٹھا کرنے، اور اس کاروباری سلطنت کو وسیع کرنے کے جائز وناجائز اور معلوم و نامعلوم ذرائع کا ذمہ دار انہوں نے اپنے مرحوم والد میاں محمد شریف کو ٹھہرایا اور خود کو جس طرح اس الزام سے لا تعلق کیا، ایسے میں صرف میاں محمد شریف کی روح ہی نہیں، ہر اس والد کی روح بھی کانپ اٹھی ہو گی جس نے اپنے بیٹے کو اپنی محنت اور تعلقات سے اتنے عروج پر پہنچایا ہو۔ والدین سے ایسا رویہ ہوتا ہے مگر لاکھوں میں سے ایک اولاد ایسا کرتی ہے۔ دنیا سے چلے جانے والے والدین پر الزام دھرنے سے اگر اپنی بچت ہوتی ہو اس میں نقصان کس کا۔ لیکن اپنے تمام الزامات کا ملبہ اپنے اولاد حسن، حسین اور مریم پر گرانے کا حوصلہ میں نے پہلی دفعہ کسی باپ میں دیکھا ہے۔ سرمایہ کہاں سے آیا، میری اولادیں جانیں یا میرا باپ، پاکستان سے باہر منتقل کرنے کا جرم کس نے کیا، میرا باپ جانے یا میری اولاد۔ اتنا زیادہ سرمایہ کیسے اکٹھا ہو گیا، کہیں کوئی کرپشن بد دیانتی یا چور بازاری ہی تو نہیں کی گئی۔
مجھے کیا خبر، یا تو میرے باپ کو معلوم تھا یا میری اولاد جانتی ہے کہ ان کے پاس چھوٹی چھوٹی عمروں میں اتنا سرمایہ کہاں سے آگیا۔ کس قدر بد نصیب ہوتے ہیں وہ والدین جن کی اولادیں ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد، اپنے گناہ ان کے سر تھوپ دیں اور کتنی بدقسمت ہوتی ہیں وہ اولادیں کہ ناکردہ گناہوں کا الزام ان پر اور ان کے والد پر لگے اور والد ایک دم اپنی محبت، شفقت اور ازل سے مشہور والدین کی قربانی کے تصور کو ایک طرف جھٹک کر کہہ دے، مجھے کیا معلوم یہ ناجائز دولت کہاں سے آئی، میری اولاد سے پوچھو۔ یہ منظر بھی اس زندگی میں ان آنکھوں نے دیکھنا تھا۔