آسیب کا سایہ
طلسماتی کہانیوں میں ایسے شہروں کی کہانیاں عام ملتی ہیں جنہیں کسی جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے قابو کر رکھا ہو اور پھر اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق اس شہر کے معاملات چلا رہا ہو۔ پاکستان کے شہر اور دارالحکومت اسلام آباد پر کبھی کبھی ایسے ہی کسی آسیب زدہ شہر کا گمان ہونے لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس شہر کے اہم ترین باسیوں سے عقل و ہوش چھین لی گئی ہو اور یہ لوگ کسی جادو کے اثر سے ایسے فیصلے کرتے جا رہے ہوں جو خود اپنے ہی مفادات کے خلاف ہوں اور ان کی اپنی نسل اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے تباہ کن ہو سکتے ہوں۔
اسلام آباد اس ملک کے اربابِ حل و عقد کا ٹھکانہ ہے اور یہیں سے پورے ملک کی سیاست، معیشت، دفاع اور بین الاقوامی تعلقات کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک 1973ء سے ایک آئین کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ اس آئین کو دو دفعہ طویل مدت کے لئے جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے معطل کئے رکھا۔ ان دونوں ڈکٹیٹروں کا دعویٰ تھا کہ ہم نے تو صرف اس کی چند شقوں کو ہی معطل کیا ہے جبکہ عدالتیں، انتظامیہ، فوج، معیشت، وزارتِ خارجہ وغیرہ سب بحسن و خوبی چل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ضیاء الحق نے 1985ء میں اپنے بنائے ہوئے الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ جسٹس ایس اے نصرت کی سربراہی میں اور مشرف نے جسٹس اے کیو چودھری کی نگرانی میں الیکشن بھی کروائے، جن کے نتیجے میں اسمبلیاں بھی وجود میں آئیں اور انہوں نے بھر پور قانون سازی بھی کی۔
ضیاء الحق کے الیکشن تو سیاسی پارٹیوں کی چھتری کے بغیر ہوئے، لیکن جیسے ہی اسمبلی وجود میں آئی تو اراکینِ اسمبلی نے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اس اسمبلی اور خصوصاً اس کے وزیر اعظم جونیجو کو سر اُٹھا کر چلنے کی سزا یہ ملی کہ اسمبلی ہی توڑ دی گئی اور محمد خان جونیجو کو گھر بھجوا دیا گیا۔ لیکن چند ماہ بعد ضیاء الحق ایک طیارے کے حادثے میں بہاولپور کی سرزمین پر دائمی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
مشرف کی بنائی ہوئی پہلی اسمبلی سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھی لیکن یہ تمام جماعتیں ان کے ہی مفادات کا براہِ راست یا بالواسطہ تحفظ کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ صوبہ سرحد میں مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد کی اسلامی مذہبی جماعتوں کی مشترکہ حکومت تھی مگر انہوں نے بھی افغانستان سے ملحقہ اس صوبہ میں"دہشت گردی" کے خلاف امریکی جنگ کے لئے راستہ ہموار کئے رکھا اور پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کے پارلیمانی تحفظ کے لئے سترھویں ترمیم بھی منظور کروائی۔ پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار جس سپریم کورٹ نے دیا تھا اس کے چیف جسٹس ارشاد احمد خان تھے۔ مشرف نے اس احسان کا بدلہ یہ دیا کہ انہیں چیف الیکشن کمشنر لگا دیا۔
اپریل 1969ء میں یہ عہدہ ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد تحفے میں دیا جانے لگا تھا اور ارشاد احمد خان بارھویں سابق جسٹس تھے، جو اس کے چیف لگائے گئے۔ ان کے بعد چار اور سابق جج حضرات اس عہدے پر متمکن رہے اور پھر یہ عہدہ واپس سابقہ بیوروکریٹس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ مارچ 1956ء میں ایک سابقہ بیوروکریٹ ایف ایم خان کے چیف بننے کی روایت سے اس عہدے کا آغاز ہوا تھا۔
سکندر سلطان راجہ اس کمیشن کے اکیسویں چیف ہیں اور کمیشن کے پانچ ممبران میں سے اب صرف ایک ہی سابقہ جسٹس اکرام اللہ خان رہ گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور پنجاب سے ممبر الیکشن کمیشن بابر حسن بھروانہ دونوں آپس میں بیچ میٹ ہیں اور سول سروس کی اپنی نوکری کے دوران دونوں لاتعداد انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں اور پاکستان کے حالات و واقعات، سکیورٹی کی صورتِ حال اور معاشی کیفیات کو سمجھنے کے لئے انہیں کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔
آئین میں دیئے گئے اختیارات اور گزشتہ تجرباتی بصیرت کی بنیاد پر وہ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کے ملکی حالات کیا اس قابل ہیں کہ الیکشن کروائے جائیں یا نہیں۔ یہ دونوں حضرات اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ اس وقت پاکستان کے معاشی حالات کیسے ہیں اور کسی حکومت کے لئے الیکشنوں کے لئے چند ارب روپے نکالنا کبھی بھی اتنا مشکل نہیں ہوتا۔
اوّل تو ہر مرکزی اور صوبائی فنانس سیکرٹری نے اربوں روپے ایسی مدّات میں چھپا کر رکھے ہوتے ہیں جنہیں فنانس کی زبان میں"Cushions" کہا جاتا ہے۔ یہ اربوں روپے فنانس سیکرٹری، ضرورت پڑنے پر وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو ان کی من پسند سکیموں جیسے لیپ ٹاپ یا سستا آٹا وغیرہ کے لئے ایک دم نکال کر دے سکتا ہے اور ہمیشہ دیتا رہا ہے۔ اگر ان مدّات میں موجود رقم ختم بھی ہو چکی ہو تو خسارے کی سرمایہ کاری (Deficit Financing) کے ذریعے جب اور جس وقت چاہے اور جتنی رقم چاہے مہیا کی جا سکتی ہے۔
ایسے میں آئین میں دیئے گئے وسیع اختیار کے تحت الیکشن کمیشن کو صرف ایک حکم نامہ جاری کرنا ہے کہ اتنا سرمایہ فراہم کیا جائے اور اتنے افراد سکیورٹی کے لئے مہیا کئے جائیں۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن پر کسی آسیب کا سایہ مسلّط تھا کہ جس نے اس سے اپنے تجربے اور اختیار کے مطابق سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت ہی چھین لی تھی۔
ایک آسیب زدہ شخص کی طرح کبھی وہ کہتے رہے کہ ہمیں تو الیکشنوں کی تاریخ دینے کا کوئی اختیار نہیں اور پھر اچانک خود ہی طویل "غور و غوض" کے بعد آٹھ اکتوبر کی تاریخ دے دی۔ کہا جاتا ہے کہ آسیب میں انسان سے عقل و ہوش چھن جاتے ہیں اور وہ ایسی غلطیاں کرنے لگتا ہے جو اس کی صحتِ ذہنی پر سوال اُٹھانے کا باعث بنتی ہیں۔ لگتا ہے کمیشن نے کسی آسیبی کیفیت کے زیر اثر ایسے متعلقہ حکام کے ساتھ میٹنگیں کی ہیں جن کی آئین میں کسی بھی قسم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
آئین صرف اور صرف الیکشن کمیشن کو پہچانتا ہے اور سیکرٹری دفاع اور فنانس چیف سیکرٹری اور آئی جی حضرات تو اس کے حکم کے غلام ہیں۔ لیکن کوئی آسیب ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو اپنی طاقت و قوت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ان میٹنگوں کے بعد الیکشن کمیشن نے جو حکم نامہ جاری کیا، اس کے مطابق کمیشن کی آٹھ فروری 2023ء کو چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس پنجاب کے ساتھ میٹنگ ہوئی جس میں ان دونوں حضرات نے جنہیں اللہ نے مستقبل میں جھانکنے کی "خصوصیت اہلیت" عطا کی تھی انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ 16 فروری 2023ء کو جعفر ایکسپریس پر دھماکہ ہوگا۔
ایسا کچھ صرف کسی آسیب کے زیر اثر ہی ہو سکتا ہے جس کے خوف کی وجہ سے عقل و ہوش مائوف ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس "آسیب زدہ" ماحول میں لکھے ہوئے اس فیصلے کو اگر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو یوں لگے گا جیسے پاکستان دنیا کا بدترین ملک ہے جہاں نہ کسی کے پاس کھانے کو کچھ ہے اور نہ اس کے عوام رات کو چین کی نیند سو سکتے ہیں۔ ایسا تو شاید افریقہ کے کسی تشدد زدہ ملک میں بھی نہ ہوتا ہو، لیکن پاکستان کے الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں سانس لینا تک مشکل ہو چکا ہے۔
وہ ملک جس میں روزانہ بائیس کروڑ لوگ صبح اُٹھتے ہیں، زندگی گزارتے ہیں، سو جاتے ہیں اور اگلی صبح یہ بائیس کروڑ پھر اُٹھ جاتے ہیں، ایسے ملک میں ایسی باتیں کوئی آسیب زدہ ہی کر سکتا ہے۔