عالم کفر اور عالم اسلام کے گیریژن
ایک ایسے ملک اور ایسی قوم کے سربراہ کے منہ سے یہ الفاظ بہت حیران کن تھے جس کا نظریاتی قائد، ڈیوڈ بن گوریان پاکستان کو اپنا اصل دشمن قرار دیتا ہو۔ اسی ملک کا سابق صدر شمعون پیرس جب اسرائیل کا وزیر خارجہ تھا تو اس نے 3 نومبر 2001 کو نیوز ویک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ ایک یہودی کی حیثیت سے میں رات کو اس وقت تک سوتا نہیں جب تک پرویز مشرف کی سلامتی کے لیے دعا نہ مانگ لوں۔
اسی پرویز مشرف کے برعکس پاکستان میں ایک دوسرے جرنیل کی حکمرانی رہی جس کا نام ضیاء الحق تھا۔ اس کے دور میں پاکستان امریکہ کا لاڈلا تھا اور اسرائیل تو ہمیشہ سے امریکہ کا لے پالک رہا ہے، اسی زمانے میں 1981 میں ضیاء الحق نے کہا تھا کہ "اگر اسرائیل سے یہودیت کو نکال لیا جائے تو وہ ملک ختم ہوجائے گا اسی طرح اگر پاکستان سے اسلام نکال دیا جائے تو پاکستان ختم ہو جائے گا"۔ اس سے زیادہ حقیقت پسندانہ بات نہیں ہو سکتی۔
پاکستان کی کہانی دراصل ان دو جرنیلوں کے کردار سے جڑی دو نظریوں کی کہانی ہے، ایک جرنیل پاکستان کی نظریاتی، اخلاقی اور معاشرتی بقا کی علامت تھا اور دوسرا جرنیل پاکستان کی نظریاتی اساس کو گرانے، اخلاقی ماحول کو تباہ کرنے اور دشمن کے ناپاک ارادوں کا لاشعوری طور پر راستہ ہموار کرنے کا استعارہ تھا۔
گذشتہ ستر سال سے ہمیں نصاب کی کتب اور تاریخ کی داستانوں میں یہی پڑھایا گیا ہے کہ صرف بھارت ہمارا ازلی ابدی دشمن ہے، اس کے ساتھ ہونے والی چار جنگوں اور لاتعداد جھڑپوں سے اس دعوے کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ مدتوں دنیا بھر میں صرف بھارت کو تن تنہا پاکستان کا دشمن قرار دیا جاتا رہا۔ لیکن ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد کے حالات میں ریاستِ پاکستان نے اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ کو پاکستان کے وجود کے خلاف دشمنی اور سازش قرار دیا ہے۔ یہ ہے ضیاء الحق کی بصیرت کی پرویز مشرف کی کور چشمی پر فتح۔
یہ پہلی دفعہ نہیں کہ اسرائیل کو پاکستان کے دشمن کے طور پر حکومتِ پاکستان نے پیش کیا ہو۔ بلکہ قیام پاکستان اور قیام اسرائیل سے لیکر پاکستان کے سب سے متنازع حکمران پرویز مشرف کے آنے سے قبل تک تمام حکومتیں اس کے ساتھ شدید نفرت کرتی رہی ہیں۔ ابھی اسرائیل کا وجود اپنی تیاریوں میں تھا جب پاکستان بنا تو صہیونیت کا متفقہ لیڈر جوبعد میں اسرائیل کا پہلا وزیراعظم بنا، ڈیوڈ بن گوریان، اس نے قائداعظم کو مبارکبادکا ٹیلیگرام بھیجا جس کا قائد اعظم نے جواب تک دینا مناسب خیال نہ کیا۔
قائداعظم کی وفات کے بعد 1949ء میں اسرائیل نے پاکستان سے تعلقات استوار کرنے اور کم از کم دوطرفہ کاروباری سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا۔ 1950ء میں ایک وفد جس میں دنیا کی یہودی تنظیمیں اور اسرائیل کے نمائندے شامل تھے، لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر سے ملے اور اسے درخواست کی کہ افغانستان میں مقیم کچھ چند سو یہودی براستہ بھارت اسرائیل آنا چاہتے ہیں جس کے لیے پاکستان کے راستے انہیں بھارت جانے کی اجازت دی جائے۔
پاکستان نے انکار کر دیا حالانکہ اس وقت بھارت کیساتھ اتنے خراب تعلقات بھی نہیں تھے۔ پاکستان کے انکار کے بعد یہ یہودی ایران کے راستے اسرائیل پہنچے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کا بھی حال یہی ہے۔ اسرائیل نے اپنی جنگوں کی جو تاریخ مرتب کی ہے اس میں پاکستان اور اسرائیل کے حوالے سے موشے یگار(Moshe Yegar)نے پاکستان کی فوج کو عرب اسرائیل جنگوں میں عربوں کے شانہ بشانہ لڑنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
اس ضمن میں وہ پاکستانی ایئر فورس کے پائلٹ سیف الاعظم کا ذکر کرتا ہے جس نے 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیلی جنگ میں چار اسرائیلی طیارے مار گرائے تھے۔ موشے یگار نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہونے والی پہلی جنگ کے دوران اسرائیل کے امریکہ میں سفارت خانے کی خفیہ رپورٹ کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کے مطابق پاکستان نے چیکوسلاواکیہ سے دو لاکھ پچاس ہزار رائفلیں خرید کر عرب ریاستوں کو فراہم کیں اور اٹلی سے تین جنگی جہاز خرید کر مصر کو دیے تاکہ عرب ممالک اسرائیل کی نوزائیدہ ریاست کے خلاف لڑ سکیں۔
1982ء میں اسرائیل لبنان جنگ میں پاکستان سے رضاکار آکر اسرائیل کے خلاف لڑتے رہے اور جب بیروت کا محاصرہ ہوا تو ان میں سے پچاس پاکستانی پکڑے گئے۔ پاکستان واحد ملک تھا جس نے 1949ء میں عرب اسرائیل جنگ کے خاتمے پر دو اسرائیلی علاقے جوڈیا (Judea) اور سماریا (Samaria) جو اردن نے فتح کر لئے تھے ان کی اسرائیل سے آزادی کو تسلیم کیا۔ پاکستان اور اسرائیل کے ان تعلقات کے برعکس اسرائیل کی پرویز مشرف سے محبت کبھی ختم نہ ہوئی۔
18 اکتوبر 2007ء کو اسرائیلی صدر شمعون پیرس نے پرویز مشرف کو متنازعہ ترین صدارتی الیکشن میں صدر منتخب ہونے پر مبارکباد کا خط لکھا اور اسے شائع بھی کروایا۔ اس سے پہلے ستمبر 2005ء میں اسرائیل کے ظالم ترین صدر ایریل شیرون نے پرویز مشرف سے اقوام متحدہ کی راہداریوں میں خاص طور پر ہاتھ ملایا۔ یہی وجہ تھی کہ مشرف نے خود کوبہت اہم گردانتے ہوئے ایک بڑ ہانکی کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے معاملے کو حل کروانے میں کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور طنزیہ انداز میں یہ جملہ کستے ہوئے کہا کہ "ہمیں شک ہے کہ مشرف باوجود صدر اور فوجی سربراہ ہونے کے، اس قابل ہے کہ وہ ہمارے لئے کوئی کردار ادا کر سکے"۔ یوں پرویز مشرف اپنی تمام تر سیکولر، ماڈریٹ، لبرل اور اسرائیل دوست پالیسیوں کے باوجود بھی اسرائیلیوں کی نگاہوں سے اس وقت گر گیا جب اس نے خطے میں امن کی بات کی۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اسرائیل امن کیلئے قائم نہیں ہوا۔
اسرائیل کا قیام ایک گیریژن کے طور پر ہوا۔ ایک ایسی سلطنت جس نے اس دنیا کی آخری اور سب سے بڑی جنگ لڑنی ہے اور اپنے مسیحا کی حکومت قائم کرنا ہے۔ اسی لڑائی کے لیے دنیا بھر کے امیر ترین یہودی اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ وہ اپنے نظریے میں واضح ہیں اور اپنے ہدف کے بارے میں انہیں کوئی شک نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ عرب دنیا نہیں بلکہ پاکستان ہے اور پاکستان کا دشمن ان کا دوست ہے۔
14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کے وقت اس ملک کا سربراہ ڈیوڈ بن گوریان صہیونی تحریک کا بہت بڑا رہنما تصور ہوتا ہے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے وقت وہ گوشہ نشین تھا، لیکن جب اس جنگ کی فتح کا جشن پیرس میں منایا گیا تو اسے خاص طور پر تقریر کے لیے بلایا گیا۔ اس کی تقریر 9 اگست 1967ء کے لندن کے اخبارJewish Chronicalمیں چھپی۔ اس تقریر میں پاکستان کے بارے میں اس کے خیالات صہیونیت اور اسرائیل کے ارادوں کے عکاس ہیں۔ ڈیوڈ بن گوریان کہتا ہے "عالمی صہیونی تحریک کو پاکستان کے خطرات سے خبردار رہنا چاہیے اور اب پاکستان ہمارا پہلا نشانہ ہونا چاہیے، کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجود کے لیے خطرہ ہے۔
پورا پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے۔ عربوں کا یہ عاشق عربوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسی لیے صہیونی دنیا کو اس کے خلاف فوری اقدام کرنا چاہیئں۔ برصغیر پاک و ہند کے رہنے والوں کی اکثریت ہندوؤں کی ہے جو مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ اس لئے بھارت ہمارے لئے بہترین ٹھکانہ ہے جہاں سے ہم پاکستان کے خلاف کام کر سکتے ہیں"۔
اسرائیل بھارت دوستی کا تصور ان لوگوں کیلئے بالکل نیا نہیں جو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے حالاتِ حاضرہ کو پرکھتے ہیں۔ کسقدر سچ ہے جو میرے اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا "تم یہ بات ضرور محسوس کرو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو کھل کر شرک کرتے ہیں" (المائدہ:82)۔
کھل کر شرک اس وقت صرف اور صرف بھارت میں ہوتا ہے جبکہ باقی تمام مذاہب اپنے شرکیہ افعال کی توجیہات پیش کرتے ہیں۔ ان دونوں کا گٹھ جوڑ اور مسلمانوں کے خلاف یہ پیش گوئی کسی حدیث کی اطلاع نہیں جسے ضعیف کہہ کر مسترد کر دیا جائے، یہ تو میرے اللہ کا کلام ہے برحق ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ دنیا کی آخری جنگ میں عالم کفر کی گیریژن ریاست اسرائیل ہو اور مسلمانوں کی گیریژن ریاست پاکستان کے خلاف سازش میں شریک نہ ہو۔
یاد رکھیں کہ اسرائیل ایک ویلفیئر ریاست بن سکتی ہے اور نہ ہی پاکستان۔۔ ایک عالم کفر کا گیریژن ہے اور دوسرا عالم اسلام کا۔